دو راستے
آڈیالہ جیل ابھی زیرِ تعمیر تھی، اور راولپنڈی کی ضلعی جیل اُس مقام پر واقع تھی جہاں آج جوڈیشل کمپلیکس اور جناح پارک آباد ہیں۔ ہم ایک ادارے کے لیے قیدیوں سے سوالات کر رہے تھے، جب ایک دن ایک قیدی سے ملاقات ہوئی—جوان، ذہین، پڑھا لکھا، اور بظاہر معزز۔
یہ شخص ایک بینک میں ملازم تھا، لیکن اپنے ہی بینک میں ایک جعلی اکاؤنٹ کھول کر تین سال تک لاکھوں روپے کی جعلی لین دین کرتا رہا۔ اسّی کی دہائی تھی، جب "لاکھ" بولنا بھی بڑا ہوا کرتا تھا۔ ایک دن اچانک اس اکاؤنٹ میں آٹھ لاکھ پچاسی ہزار روپے جمع ہوئے اور فوراً نکلوا لیے گئے۔ لیکن وہ دن، اس کی چالاکیوں کا آخری دن ثابت ہوا۔
گرفتاری، تفتیش، مقدمہ—سب کچھ بجلی کی رفتار سے ہوا۔ بینک نے اپنی رقم واپس حاصل کر لی۔ قانون نے انصاف کر دیا۔ مگر جو سب سے زیادہ زخمی ہوا، وہ اس شخص کا دل تھا۔
نہ بیوی، نہ بہن بھائی، نہ دوست، نہ کوئی خیرخواہ—جیسے سب نے اس کی ذات سے منہ موڑ لیا ہو۔ وہ شخص جو کل تک لاکھوں کا مالک تھا، آج تنہا تھا۔ جرم نے اسے صرف جیل کی دیواروں میں نہیں، بلکہ معاشرتی بےرخی، جذباتی تنہائی اور روحانی سناٹے میں بھی قید کر دیا تھا۔
اسی پس منظر میں ایک اور کہانی میرے ذہن میں اُبھر آئی۔
سال 1992 کی بات ہے۔ میری ایک شناسائی ایک سادہ سے ڈرائیور، فاروق، سے ہوئی۔ اس کی زندگی کہانی نہیں، جدوجہد کا ایک نوحہ تھی۔ اس کا اپنا بھائی، اس کی آبائی زمین جعلی کاغذات پر بیچ چکا تھا۔ مقدمہ چلا، جائیداد بکی، کیس ہارا گیا۔ فاروق کی زندگی جیسے خاک میں مل گئی۔
لیکن اس نے ہار نہیں مانی۔
فاروق دن بھر محنت کرتا، گاڑیاں چلاتا، کرایہ دیتا، بجلی کے بل ادا کرتا اور بچوں کو تعلیم دلوانے کی کوشش کرتا۔ اس کی بیوی ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتی تھی۔ ان کی بیٹی نے پرائمری میں میرٹ پر اسکالرشپ حاصل کی، اور اب ماسٹرز کر رہی تھی۔ وہ ماں کے نقشِ قدم پر چل کر محلے کے بچوں کو ٹیوشن بھی دیتی تھی۔ باقی بچے بھی پڑھائی میں نمایاں تھے۔
پھر وقت گزر گیا، زندگی نے مجھے اور فاروق کو مختلف راہوں پر ڈال دیا۔
لیکن اس عید پر، دروازہ بجا۔ سامنے فاروق کھڑا تھا، چہرے پر اطمینان، آواز میں محبت۔ اس کے ساتھ اس کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا، جو گھر بیٹھے فری لانسر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ فاروق نے بتایا کہ بیٹے کی آمدن اتنی ہے کہ اسلام آباد میں ایک بنگلہ ماں کے نام اور نئی ہونڈا گاڑی باپ کے نام ہو چکی ہے۔
بیٹی اب لیکچرار ہے، باقی تینوں بیٹے بھی کامیاب، خوشحال اور والدین کے شکر گزار۔
دو زندگیاں، دو راستے… اور دو الگ انجام۔
ایک نے دھوکہ دیا، جھوٹ بولا، شارٹ کٹ اپنایا، اور آخرکار تنہا رہ گیا—اپنوں سے دور، سماج سے بیزار، اپنے ہی ضمیر کا قیدی۔
دوسرے نے سچائی کو پکڑا، محنت کو اوڑھنا بچھونا بنایا، صبر سے دن کاٹے، اور آج اس کا ہر دن خوشی کا پیغام لے کر آتا ہے۔
فراڈ وقتی فائدہ ضرور دیتا ہے، لیکن دل کا سکون، اپنوں کا ساتھ، معاشرے کی عزت… سب چھین لیتا ہے۔
جبکہ محنت—کٹھن سہی، لیکن آخرکار عزت، سکون، اور کامیابی کی شاہراہ پر لے جاتی ہے۔
جرم صرف قانون شکنی نہیں ہوتا، یہ رشتوں کی بنیادیں بھی ہلا دیتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں