عنوان: برطانیہ نے اسرائیل کی بنیاد رکھی، امریکہ نے پروان چڑھایا — تاریخ کی ایک سچائی
اسرائیل کی تخلیق کوئی حادثہ نہیں، بلکہ ایک طویل المدتی سیاسی منصوبہ تھا جس کا آغاز برطانوی سامراج نے کیا اور جسے بعد ازاں امریکہ نے عالمی طاقت کے ایوانوں تک پہنچایا۔ یہ منصوبہ صرف جغرافیائی تبدیلی نہیں بلکہ ایک نظریاتی، سیاسی اور عسکری جنگ کا آغاز تھا، جس کی جڑیں بیسویں صدی کے آغاز سے قبل کی صہیونی تحریک، جنگ عظیم اول، بالفور اعلامیہ، اور ہولوکاسٹ جیسے واقعات میں پیوست ہیں۔
برطانیہ کا کردار — ابتدا کی اینٹ
سال 1917 میں برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے صہیونی رہنما لارڈ روتھشیلڈ کو ایک خط لکھا، جو بعد میں بالفور اعلامیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس میں برطانیہ نے یہ وعدہ کیا کہ وہ فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک "قومی وطن" کے قیام کی حمایت کرے گا۔ اس وقت فلسطین برطانوی نوآبادیاتی نظام کے تحت تھا، اور سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد اس علاقے پر برطانیہ کا مکمل کنٹرول تھا۔
برطانیہ نے یہودیوں کو نہ صرف زمین دی، بلکہ ان کی آباد کاری، دفاع، اور اداروں کے قیام میں بھرپور معاونت کی۔
برطانیہ کی تھکن، امریکہ کی مداخلت
جنگ عظیم دوم کے بعد فلسطین میں عربوں اور یہودیوں کے درمیان فسادات شدت اختیار کر گئے۔ برطانیہ اس بحران سے نمٹنے میں ناکام ہو گیا اور بالآخر 1947 میں اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں پیش کیا۔ یہاں سے امریکہ کی براہ راست مداخلت کا آغاز ہوا۔
امریکہ کا کردار — پشتیبان اور محافظ
14 مئی 1948 کو جیسے ہی ڈیوڈ بن گوریان نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا، امریکہ نے صرف 11 منٹ بعد اسے تسلیم کر لیا۔ یہ کوئی سادہ سفارتی اقدام نہیں تھا، بلکہ ایک بڑے اسٹریٹیجک پلان کی شروعات تھی۔
صدر ہیری ٹرومین نے اسرائیل کو نہ صرف سفارتی تحفظ دیا، بلکہ مالی، عسکری اور سیاسی امداد کی بنیاد بھی رکھی، جو آج تک جاری ہے۔ اسرائیل کو جدید ہتھیار، انٹیلیجنس، اقوام متحدہ میں ویٹو پاور کے ذریعے تحفظ — یہ سب امریکہ کی جانب سے فراہم کیے گئے۔
تاریخی واقعات سے جھانکتی سچائی
بالفور اعلامیہ: یہ محض ایک سفارتی خط نہیں تھا، بلکہ روتھشیلڈ خاندان کے عالمی مالیاتی اثرورسوخ کا مظہر بھی تھا۔ اس اعلامیہ نے یہودی ریاست کے قیام کی بنیاد رکھ دی، اور فلسطینیوں کے لیے ایک مسلسل جدوجہد کا آغاز ہوا۔
صدر ٹرومین کا دباؤ: وائٹ ہاؤس میں موجود مشیروں نے اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم کرنے کی مخالفت کی، لیکن امریکہ میں مضبوط یہودی لابی اور ووٹ بینک کے دباؤ نے ٹرومین کو فیصلہ لینے پر مجبور کیا۔ ٹرومین نے کہا تھا:
"I am doing what I believe is right, even if it costs me the next election."
برطانوی فوجی کا تبصرہ: فلسطین سے انخلاء کے وقت ایک برطانوی کمانڈر نے کہا:
"We are leaving a war that we started, but its fire will now be fueled by others."
آج کی دنیا میں عکس
آج اسرائیل دنیا کی ایک جدید ترین فوجی طاقت ہے، جسے سالانہ اربوں ڈالر کی امریکی امداد حاصل ہے۔ امریکی اسلحہ، سفارتی تحفظ، اور میڈیا پر اثرورسوخ نے اسرائیل کو صرف زندہ ہی نہیں رکھا بلکہ اسے مشرق وسطیٰ کی ایک ناقابلِ شکست ریاست بنا دیا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسرائیل کا قیام بیسویں صدی کی عالمی سیاست کا سب سے چالاک اور خطرناک تجربہ تھا۔ برطانیہ نے ایک خواب کی تکمیل کا آغاز کیا، اور امریکہ نے اسے تعبیر تک پہنچایا — لیکن اس خواب کی قیمت لاکھوں فلسطینیوں نے بے گھری، خون اور قربانیوں سے ادا کی۔
یہ ایک ایسی کہانی ہے جو صرف تاریخ نہیں، آج کا سیاسی منظرنامہ بھی سمجھنے میں مدد دیتی ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں