جمعہ، 6 جون، 2025

سورہ سجدہ ایت 5




سورۃ السجدہ (آیت 5) کی سائنسی اور روحانی تشریح

آیت:
"يُدَبِّرُ ٱلۡأَمۡرَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ إِلَى ٱلۡأَرۡضِ ثُمَّ يَعۡرُجُ إِلَيۡهِ فِي يَوۡمٖ كَانَ مِقۡدَارُهُۥٓ أَلۡفَ سَنَةٖ مِّمَّا تَعُدُّونَ"
(سورۃ السجدہ، آیت 5)

ترجمہ:
"وہ آسمان سے زمین تک تمام امور کی تدبیر فرماتا ہے، پھر وہ امور ایک ایسے دن میں اس کی طرف چڑھتے ہیں جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال ہے۔"

یہ آیت قرآن کے ان مقامات میں سے ایک ہے جہاں "وقت" کے نسبی 
(Relative)
 تصور کی جھلک نمایاں ہے۔ مفسرین اور سائنسی ماہرین، دونوں اس آیت کو ایک ایسی نشانی کے طور پر دیکھتے ہیں جو کائناتی حقیقتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
1. سائنسی پس منظر: وقت اور کششِ ثقل

آج کی جدید طبیعیات، خاص طور پر آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت 
(Theory of Relativity)
 کی رو سے، وقت کوئی مطلق حقیقت نہیں بلکہ ایک لچکدار 
(flexible)
تصور ہے، جو کششِ ثقل اور رفتار کے ساتھ بدل جاتا ہے۔
جہاں کششِ ثقل شدید ہو (جیسے بلیک ہولز کے قریب)، وقت آہستہ گزرنے لگتا ہے۔
اسی طرح، اگر کوئی چیز روشنی کی رفتار کے قریب حرکت کرے تو اس پر وقت سست ہوجاتا ہے۔
یہ بات قرآن کی اس آیت کے بالکل مطابق ہے، جہاں ایک "یوم" (دن) کی مقدار انسانی حساب سے "ایک ہزار سال" بتائی گئی ہے۔
سائنسدانوں نے ثابت کیا ہے کہ اگر کوئی سیارہ یا ستارہ انتہائی طاقتور کششِ ثقل رکھتا ہو، تو اس پر گزرا ہوا وقت، زمین پر موجود وقت سے یکسر مختلف ہو سکتا ہے۔
2.
 فلکیاتی حقائق اور "دن" کا مفہوم
ر سیارے پر دن کی لمبائی اس کی اپنے محور کے گرد گردش کی رفتار پر منحصر ہوتی ہے۔ چند مثالیں:


زمین: 24 گھنٹے


مریخ (Mars): 24 گھنٹے 37 منٹ


عطارد (Mercury): 58.6 زمین کے دن


زہرہ (Venus): 243 زمین کے دن


UY Scuti:
ایک دیوہیکل ستارہ جس کی گردش انتہائی سست ہے، اندازہ ہے کہ اس کا ایک "دن" ہزاروں زمینی سالوں پر محیط ہو سکتا ہے۔
یہ مظاہر قرآن کی مذکورہ آیت کو مزید واضح کرتے ہیں:
جس "دن" کا ذکر کیا جا رہا ہے، وہ زمینی پیمانوں کے مطابق نہیں بلکہ ایک کائناتی وقت کے پیمانے پر ہے، جو ہماری فہم سے بالاتر اور اللہ کے علم و قدرت کا حصہ ہے۔
3.
 دیگر قرآنی آیات میں وقت کا ذکر
سورۃ المعارج، آیت 4:
"تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ"
"فرشتے اور روح (یعنی جبرائیل) اس کی طرف چڑھتے ہیں ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔"
یہاں ایک اور "یوم" کا ذکر ہے، جس کی مقدار انسانی حساب سے پچاس ہزار سال ہے۔ مفسرین کے مطابق یہ یومِ قیامت کے تناظر میں بیان ہوا ہے، لیکن اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اللہ کے ہاں وقت کا پیمانہ انسانی پیمانوں سے مکمل طور پر مختلف ہے۔
4.
تفاسیر کی روشنی میں
امام رازی، ابنِ کثیر، علامہ طبری اور دیگر مفسرین نے اس آیت کو مختلف انداز میں سمجھایا ہے:
بعض نے کہا کہ "ہزار سال" کا مطلب ایک انتہائی طویل دورانیہ ہے، تاکہ انسان کو اللہ کی تدبیر کی وسعت کا اندازہ ہو۔
بعض نے اسے فرشتوں کے سفر کے تناظر میں لیا: کہ وہ ایک دن میں ایسی مسافت طے کرتے ہیں جو انسانی حساب سے ہزار سال کی ہو۔
جدید مفسرین اور اسلامی سائنسی مفکرین (جیسے ڈاکٹر ذاکر نائیک، مہدی گلشنی، اور دیگر) اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ آیات وقت کی اضافیت 
Time Dilation)
 کی طرف واضح اشارہ ہیں، جو سائنس نے اب جا کر دریافت کی ہے۔
5.
 ایمان اور علم کی ہم آہنگی
قرآن کی یہ زبان اس بات کا ثبوت ہے کہ وحی کا کلام صرف ماضی کے لوگوں کے لیے نہیں، بلکہ ہر دور کے انسان کے ذہنی افق کو چیلنج کرتا ہے اور اسے شعور کی بلند سطحوں پر لے جاتا ہے۔ قرآن کا انداز بیانیہ ایسا ہے جو سائنس کی ترقی کے ساتھ مزید واضح ہوتا جاتا ہے — جیسے جیسے انسان کائنات کو جانتا ہے، ویسے ویسے وہ اللہ کی آیات کو بہتر سمجھنے لگتا ہے:
سورۃ السجدہ کی یہ آیت ہمیں ایک ایسی حقیقت سے روشناس کرواتی ہے جو وقت اور کائناتی نظم کے بارے میں ہے۔ سائنس، فلکیات، نظریۂ اضافیت، اور قرآنی تفسیرات سب اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ وقت ایک مطلق نہیں، بلکہ ربِ کائنات کی تخلیق کردہ ایک لچکدار جہت ہے۔ اور قرآن نے چودہ صدیاں قبل اسے نہایت خوبصورتی اور حکمت سے بیان کیا — جو آج بھی انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں: