اتوار، 11 فروری، 2018

67 کلو گرام







                                   
غربت سیاسی مسٗلہ ہے
1970 کے قومی الیکشن میں ذولفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی نے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے پر الیکشن لڑا اور پارٹی اکثریت سے جیت گئی۔ دراصل اس نعرے میں انسان کی بنیادی ضرورت کو اجاگر کر کے لوگوں سے ووٹ مانگے گئے تھے۔ اور حقیققت یہ ہے کہ موجودہ دور میں سیاست کی تعریف کا جو دعویٰ کیا جاتا ہے اس کا مطلب ہی یہ بنتا ہے کہ ایسا طرزحکومت جس میں عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔بنیادی انسانی ضروریات یہ ہیں۔
روٹی بشمول پانی
لباس
مکان
صحت
تعلیم
سفر
معاشرے میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک خود کفیل دوسرے زیر کفالت، زیر کفالت لوگوں کو غریب کہا جاتا ہے ۔ زیر کفالت یا غریب لوگ یا غربت ایک مسٗلہ ہے
روس کے سابقہ صدر گرباچوف نے
 October 2004 
کواٹلی میں ایک سیمنار میں کہا تھا ْ غربت سیاسی مسٗلہ ہے کیونکہ دنیا میں غربت کے خاتمے کے لئے بنیادی وسائل موجود ہیں مگر سیاسی عزم کی کمی ہے ْ
دنیا بھر میں سروے کے ایک ممتاز ادارے
Statisca.com
کے مطابق دنیا بھر میں پورے سال کے دوران انسان جو گندم کھا جاتے ہیں اس کا اوسط67 کلو گرام فی آدمی فی سال بنتا ہے۔ کیاپاکستان میں عوام کی ضروریات کے مقابلے میں گندم کی پیداوار مکم ہے کہ لوگ راتوں کو بھوکے سوتے ہیں۔ اس سوال کا جواب  اتنا مشکل نہیں جتنا   حکومتی کہہ منکریوں  کے باعث بنا دیا گیا ہے  .
پاکستان میں سال 2020-21 میں گندم کی پیداوار کا اندازہ  25۔6 ملین ٹن لگایا گیا تھا ۔ جب یہ اندازہ لگایا جارہا تھا تو حکومت کے پاس کم از کم دس لاکھ ٹن گندم کا ذخیرہ موجود تھا۔ جادو البتہ یہ ہوا ہے کہ 7 سے 10 لاکھ ٹن گندم   /" غائب  "  ہو گئی ہے ۔ یہ غائب کرنے والے چور  اور ڈاکو ہیں جن کو حکومت مافیا کا نام دیتی ہے ۔ حکومت کے پاس ایسے ماہرین تو موجود ہیں جو غائب ہونے والی گندم کا کھرا  مافیا کے  گوداموں تک لے جاتے ہیں ۔ ایسے سوژل میدیا مشیران بھی کثرت میں ہیں جو گندم کے بحران کو بغض عمران خان سے جوڑ کر اپنے کاکنوں کو مطمن کرنے کا فریضہ بھی خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہیں ۔ حکومت کے پاس ایسے دماغوں کی مگر کمی ہے جو ایسا بندوبست کرسکیں کہ ہر پاکستانی کو فی فرد 67 کلو گرام سالانہ ۤٹا بہم پہنچانے کا انتظام کرسکیں ۔

کوئی تبصرے نہیں: