اتوار، 11 فروری، 2018

ابابیلوں کا ذکر


                                                                      

حاجی صاحب [محمد افسر راہیا ] کی کتاب عظمت کعبہ کی ایک پنجابی نظم کا اردو ترجمہ


حاجی صاحب [محمد افسر راہیا ] کی کتاب عظمت کعبہ کی ایک پنجابی نظم کا اردو ترجمہ
جب ابرہ کی افواج مکہ مکرمہ کے قربب پہنچ گئی اور مالک کعبہ، جو طاقت و قوت ، قدرت و استعداد میں لاثانی ہے ، کی فوج نمودار ہوئی ۔ یہ ابابیل نام کا پرندہ تہا ۔جو ایک چونچ میں اور دو پنجوں میں اٹہائے، کنکریوں سے لیس تہا ۔ یہ کمزور چڑیاں ،طاقتور ہاتہیوں کے خالق کے حکم سے اپنے رب کی طاقت کا مظہر بنیں ۔ چڑیوں کو کون کیسے روکے ۔ کنکر نے ہاتہی ، گہوڑے یا سوار کو کہایا ہوا بہس بنانے میں کچہ تمیز نہ کی ۔ مالک کی چاہت یہ تہی کہ وہ ابن آدم کو یاد دہانی کرا دے کہ قوت ، طاقت ، سدا غلبہ اور حکم اسی واحد و احد اور اکیلے کا ہے ۔ بے شک قہر و جبر اورانتقام اس کی صفات ہیں مگر اس نے خود ہی رحمت ، درگذر ،معافی اور کرامت کو اپنی دوسری صفات پر غالب کر لیا ہے ۔اللہ کو پسند نہیں کہ کوئی دشمن مکہ میں داخل ہو، کوئی ابرہ ہو کہ مشرک ہو کہ کافر ہو ،اللہ کے گہر کو تباہ کرنے کی نیت سے آنے والوں کی باقیات عجائب گہر میں داستان عبرت ہیں اور بیت اللہ بصورت کعبہ آج بہی صیح و سالم موجود ہے ۔ اے راہیا، تیرا نفس ہی تیرا دشمن ہے اور تیرا قلب تیرا کعبہ ہے تیرا کعبہ ضرور دشمن کے حملہ کی زد میں آئے گا اور تیرا بچنا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ میں اپنے کعبے کی حفاظت کے لیے اس مالک کی طرف متوجہ ہوں جو کعبہ کی حفاظت کے لیے ابابیلیں بہیجتا ہے اور التجا کرتا ہوں کہ میرے کعبہ کی حفاظت کے لیے ایک ابابیل بہیج دے۔جیسے بییت اللہ مکہ شہر میں ہے اور اسکی حفاظت کے لیے اللہ نے دشمن کی فوج کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا، میری التجا یہ ہے کہ میرے کعبہ قلب کی حفاظت کے لیے ابابیلوں کا لشکر بہیج تاکہ میرا دشمن ، ابلیس، شہر سے باہر ہی روک لیا جائے ، اس بظاہر طاقتور دشمن سے بچنا محال ہے الا یہ کہ تیری رحمت کی ایک ابابیل میرے کعبہ کی حفاظت کے لیے آئے ۔ اللہ نے اپنےگہر کی حفاظت کے لیے لشکر بہجوایا مگر میرے دل کے کعبہ کی حفاظت کے لیے رحمت کی ایک ابابیل ہی کافی ہے۔تیری بہجوائی ہوئی رحمت کی اکلوتی ابابیل بطور حفاظت میرے شہر پر پرواز کرتی رہے اور میرے شہر سے باہر جب ‘تو ہی تو’ کی آنے والی آواز مدہم ہونے لگے تو یہی میرے خوف اور مدد کے لیے پکار ہو گی ۔میرا شہر کچی خاک سے بنا ہوا جسم ہے اور اس کی بنیادیں مضبوط نہیں ہیں ، لیکن اس کی حفاظت صرف تیرے ذکر طیب ہی سے ممکن ہے ۔اس دنیا میں میرے پاس ٹہکانہ بس ایک کچی مٹی کا جسم ہے اور میرا نفس [ابرہ] اسے تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے، اس کی حفاظت تب ہی ممکن ہے کہ تیری ابابیل رحمت مدد گار رہے ورنہ یہ کچا ٹہکانہ بہی نہ رہے گا ۔میں بہت گناہ گار اور نکما ہوں ، میرے پاس کوئی اچہا عمل بہی نہیں ۔ تیرے سامنے آنے کے لیے شکستہ اعمال باعث شرمساری ہیں مگر تیری رحمت ہی کا سہارا اور امید ہے ۔میں تیری رحمت کے نور میں رہوں اور تیرے معزز و مکرم محبوب نبی کے صدقے ان کی راہ میرے لیے منور رہے ۔ کہ تاریکی میں گمراہی سے محفوظ رہوں ۔میرے سامنے طویل سفر ہے ، راہ کی طوالت اور صعوبتوں کا احساس ہی نہ کیا ، سواری بہی نہ خریدی ،میں نے تو اور ہی خریداریوں میں زیادہ وقت گزار دیا ہے ۔میرے طویل سفر کی راہ مشکل، تاریک اور انجانی ہے، تیری رحمت کے نور میں ایسا رہنماء ساتہی ہو کہ راہ سہل ، منزل روشن تر ہو۔
محمد افسر راہیا [1922 -2014 راولپنڈی] راہ سلوک کے مسافر ، اور نعت گو شاعر تہے ۔ان کی تین مطبوعہ کتب پنجابی پوٹہواری میں ہيں ۔

کوئی تبصرے نہیں: