منگل، 6 فروری، 2018

سبق


وہ پیدا ہوا تو اس کو سونے کے چمچے سے گھٹی پلائی گئی تھی،اور ماہر ڈاکٹروں کے مشورے پر شہد میں ایسے اجزاء شامل کئے گئے تھے جن کی بدولت وہ اپنی زندگی میں بیماریوں سے محفوظ ہو گیا تھا۔ بیماری سے بچاو کے لیے اس کے والدین نے دنیا کے ماہر ڈاکٹروں کے مشورہ پر عمل کیا تھا۔ بیماری کے علاوہ کسی بھی قسم کا خوف اس بچے کے والدین کو نہ تھا۔ جدہ میں جب یہ پیدا ہوا تو اس کا باپ طلال سعودی عرب کے بادشاہ کا وزیر مالیات تھاوالدہ لبنان کے وزیراعظم اول کی صاحبزادی تھی۔بچے کے دادے کا نام عبدالعزیزالسعود تھا ، جو نجد کا لڑاکا حکمران تھا اور اس نے
45
سال کی عمر میں آرمینیاء سے لائی ہوئی ایک
 12 
سالہ خوبصورت لڑکی سے شادی کر کے اس سے اپنا بیسواں بیٹا طلال پیدا کیا تھا۔بعد میں نجد کا حکمران ، سعودی عرب کا بادشاہ بنا تو سعودی عرب کی زمین نے زر بشکل تیل اگلنا شروع کیا جو قران میں بیان کی گئی پیشن گوئیوں کے عین مطابق تھا ۔
دولت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے دشمن خود پیدا کرتی ہے۔ طلال کی بڑہتی ہوئی دولت نے جب سعودی عرب میں اس کے دشمنوں میں اضافہ کر دیا تو وہ امریکہ منتقل ہو گیا ۔ اس کے پاس اس قدر دولت تھی کہ وہ ہر ْ خواہش ْ خرید سکتا تھا مگر قدرت کا کوڑا اس کے گھر پر برسا ، خاندان ٹوٹ گیا، طلال کی بیوی اپنے ۷ سالہ بیٹے ولید کو لے کر لبنان آ گئی۔
ولید نے امریکہ کی سیراکیوس یونیورسٹی سے ماسٹر کیا تو سعودی عرب کے بادشاہ نے اپنے اس بھتیجے کو
1960 

میں وزیر مالیات بنا لیا۔مگر خاندانی اندرونی رقابتیں رنگین تر ہوئیں تو امریکہ جا کر کاروباری 
سرگرمیوں کا اغاز کیا۔باپ کی بے پناہ دولت میں ایسی برکت تھی کہ وہ مٹی میں ہاتھ ڈالتا تو سونا بن جاتی۔ولید کے بنے سونے میں وقت کے ساتھ ساتھ زبردست اضافہ ہوتا گیا۔جولائی
 2015
میں اس کی معلوم شدہ دولت کا اندازہ فوربز نامی ادارے نے
 32
بلین ڈالر لگایا تھا۔ نامعلوم دولت کا کسی کو کوئی اندازہ نہ تھا ۔ 
4
نومبر
 2017
 میں قدرت کا کوڑا پھر حرکت میں آیا تو یہ سعودی عرب کے نوجوان ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان کے ہاتھ میں تھا۔ ولی عہد نے اس کوڑے سے سیکڑوں ْ سونے کے چمچے ْ سے شہد پی کر دنیا میں آمد گان کوہانکا تو ولید بن طلال کو بھی اس کے ذاتی بوہنگ
 747
سے اتار کر اس ہانکے میں شامل کر لیا۔ تفتیش کامیدان ریاض کا ْ رٹز کارلٹن ہوٹلْ بنا ۔ ایمان کانٹے سے امانت کو ناپا گیا ، کمی کوتائی کو سکہ رائج الوقت سے پورا کر کے اونچی پرواز سے مانوس شہبازوں کو امین ہونے کے سرٹیفیکیٹ کے ساتھ دوبارہ اونچی چوٹیوں پر بسیرا کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
ریاض کے رٹز انٹرنیشنل ہوٹل میں لگا انصاف کا میلہ اجڑ چکا ہے۔ واقت نے ثابت کیا ہے شہبازوں کو اونچی اڑانوں سے باز رکھنا ممکن نہیں ہے، بلند چوٹیاں امریکہ میں ہیں، اور سکہ رائج الوقت کا نام ڈالر ہے اور ایمان کانٹا کو ْ کوڑے ْ کی طاقت سے ہی برابر رکھا جا سکتا ہے، امانت کا سرٹیفیکیٹ فوربز نامی ادارہ جاری کرتا ہے اور وقت کا حکمران زمین پر ْ ظل الہی ْ ہوتا ہے اور قدرت کا کوڑا ْ قدرت کے سائے ْ کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔خدا کو انسانی آنکھ دینے سے قاصر ہونے کے باوجود خدا کا سایہ اس کے وجود کا یقین دلانے کے لیے کافی ہے ۔ ان کھلی نشانیوں کے بعد بھی منکرین خدا کے ذہن و سوچ پر ماتم کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔
ٓالبتہ ایک عربی اخبار کے مطابق ولید بن طلال کی نا معلوم دولت میں
 118
ملین ڈالر کم ہو گئے ہیں اور ْ فوربز ْ کی رپورٹ کے مطابق ولید
 17
 بلین ڈالر ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ہیں ۔
ہر کہانی کے آخر میں اخلاقی سبق لکھ دینے کی روائت کو نبھاتے ہوئے عرض ہے کہ ْ سبق سکھایا جاتا ہے ْ 

کوئی تبصرے نہیں: