جمعرات، 8 فروری، 2018

میں خوف زدہ ہوں

میں قرآن پا ک میں اللہ کے احکام پڑھ کر ، کتابوں میں انسانوں کی تاریخ یاد کر کے اور اپنی آنکھوں سے ان 
ہونی کو ہوتا دیکھ کر خوف زدہ ہوں۔

جنگوں اور کھیلوں میں کچھ نعرے ہوتے ہیں ، اور کچھ نشان ہوتے ہیں، ملکوں اور قوموں کے بھی کچھ نعرے ہوتے ہیں اور کچھ نشانات ہوتے ہیں۔ایسا ہی ایک نشان ْ مسجد اقصیٰ ْ ہے ۔ د و نشان اور بھی ہیں جو محمد ﷺ کے پیروکاروں کے نشان ہیں ان کو ہم حرمین شریفین کے نام سے جانتے ہیں اور ایک قابل عزت اور محترم ہستی جناب ملک سلمان بن عبدالعزیز السعود بطور خادمین شریفین ، دنیا بھر کے ایک عرب ستر کروڑ لوگوں کے ایمان و ایقان سے قوت کشید کر کے خود کو صاحب جلال کی مسند پر براجمان فرماتے ہیں۔

مجھے رسول اللہ ﷺ کی نصیحت پہنچی  ہے اورتین مساجد میری عقیدتوں کا محور ہیں، ایک مکہ میں مسجد الحرام جہاں میرے رسول ﷺ کی بعثت ہوئی تھی، دوسری مدینہ المنورہ  میں جہاں میرے نبی ﷺ ے زندگی گزاری او آسودہ استراحت ہیں اور تیسری مسجد اقصی جو القدس میں مرکز عقیدت ہے۔

مکہ اور القدس میں جہاں اور کئی اشتراک ہیں ایک مشترک میرے نبی الامی ﷺ کا سفر اسرہ و معراج ہے ، مکہ سے اسرہ کاسفر شروع ہوتا ہے تو القدس الشریف سے معراج مبارک کی ابتدا ہوتی ہے۔ القدس شریف کی مسجد الاقصیٰ میں وہ مبارک محراب آج بھی اس مقام کی نشاندہی کے لیے موجود ہے جہاں نبی ختم المرسلین ﷺ نے تمام انبیاء و رسل کی امامت فرمائی۔وہ چٹان بھی موجود ہے جس پر میرے ہادی و رہنماء ﷺ کے قدموں کے نشان ہیں ۔اس کھونٹے کا نشان بھی موجود ہے جس کے ساتھ انبیاء اپنی سواری باندہا 
کرتے تھے اور میرے نبی ﷺ نے اپنا براق بھی اسی کھونٹے سے باندہا تھا۔

مجھے اسلام اور مسلمانوں کے ان دشمنوں سے گلہ نہیں بلکہ عداوت ہے جو مسلمانوں کے ایک ایسے دینی نشان کو چھین لینا چاہتے ہیں جس کی دوسرے مذاہب کی عقیدتوں کا مسلمانوں نے ہر دور میں احترام کیا ہے۔ مجھے ان سے بھی گلہ نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ اسلام ایک کینسر ہے جو ایک ارب ستر کروڑ لوگوں کو متاثر کر رہی ہے۔ مجھے گلہ اپنے ان مسلمان صاحبان علم و اقتدار کی اس نصیحت پر ہے کہ یہ مسلمانوں پر حملہ نہیں بلکہ براہ راست اسلام پر حملہ ہے اور اسلام کی حفاظت خود اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے ۔ اور یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ یہ ایسا ہی واقعہ ہے جیسا مکہ میں موجود بیت اللہ کو ابرہہ نامی بد بخت نے نابود کرنا چاہا تو خود اللہ نے آگے بڑھ کر اپنے لشکروں سے اسے نابود کر دیا۔ہمیں تو اپنے اونٹوں سے دلچسپی ہونی چائیے۔ 
انیس نسلیں پہلے میرے جس راجپوت ہندوپڑ دادا نے یہ دین قبول کیا تھا وہ مرنے سے قبل اس دین کے بارے میں موٹی موٹی باتیں ہمیں بتا گیا تھا۔ پھر اگلی نسلوں نے چھوٹی چھوٹی باتیں بھی سیکھ لیں۔ ان موٹی اور چھوٹی باتوں میں بطور یاد ہانی ایک بات عرض ہے اور یہ بات پتہ نہیں چھوٹی ہے کہ بڑی مگر اللہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ ایک قوم کی جگہ دوسری قوم کو لے آئے۔ اللہ کے اس حکم کے بعد میرے دل کی گہرائیوں سے ْ مسلمانوں کے حکمرانوں ْ (حکمران ضرور بہ ضرور
مسلمانوں سے مختلف ہیں )کے لئے دعا نکلتی ہے ، صرف میں ہی نہیں ، میرے محلے کی مسجد کا امام ہی نہیں ،اسلام آباد کی فیصل مسجد کے محترم امام ہی نہیں، مسجد الحرام کے امام بھی اس دعا کے ساتھ ہاتھ پھیلاتے ہیں کہ اے اللہْ مسلمانوں حکمرانوں ْ کواپنی حفظ و ایمان میں رکھ۔ مدینہ المنورہ میں تو میں نے اپنے کانوں سے لوگوں کا گریہ سنا اور اپنی آنکھوں سے امام سمیت نمازیوں کی آنکھوں سے وہ موتے گرتے دیکھے جن کی شہادت کو قبولت بتایا جاتا ہے ۔ شائد ہم گناہ گار بے سہارا عوام نے ہی ْ مسلمان حکمرانوں ْ کو بچایا ہوا ہے مگر ذاتی طور پربخدا میں اپنے ْ ملک کے حکمرانوںْ کے بارے میں فکر مند رہتا ہوں، میں ْ مسلمان ملکوں کے حکمرانوں ْ کے متعلق فکر مند رہتا ہوں،
 میں ْ خادم الحرمین الشریفین ْ کی ذات کے بارے میں کسی متوقع یا غیر متوقع امرربی کے نزول کے بارے میں فکرمند رہتا ہوں کہ اللہ کا ایک واضح حکم ہے، تاریخ کی کتابوں کی شہادت ہے اور میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اللہ تعالی جس کا کلام پڑہنے سے پہلے ہم اس کے تین با برکت ناموں اللہ ،الرحمن اور الرحیم پر مشتمل کلمے کو یاد کرتے ہیں اس کی پکڑ بڑی سخت ہے، وہ خوشحال لمحات میں پاوں کے نیچے سے زمین کھینچ لیتا ہے، میں نے زندگی میں کروڑ پتی کو اسلام آباد میں پیرودہائی کے بسوں کے اڈے پر ْ لہور اے لہوراے ْ کی آوازیں لگاتے سنا ہے ۔ میں ملک کے باعزت ترین شخص کو بے آبرو ہونے پر اشک بہاتے دیکھ چکا ہوں، میں ایک باعزت خود دار کو چار سو کلومیٹر کے پیدل سفر پر مجبور ہوتا دیکھ چکا ہوں،میں نے ایک خوشحال اور صاحب عزت شخص کو پرائے دیس میں اس حالت میں دیکھا کہ اس کا پاسپوٹ اور ویزے کی میعاد ختم ہو چکی ہے ، رات گزارنے کے لیے چھت کا انتظام ہے نہ جیب ہی کچھ باقی ہے ۔ میں ایسے واقعات کا شائد ہوں جن کو عقل اور منطق تسلیم ہی نہیں کرتی۔ میں نے یہ معجزہ بھی دیکھا کہ پھٹے جوتے والا اور اس دور میں پیوند لگی صاف اور اجلی قمیض میں ملبوس ایک قلاش جرگے میں داخل ہوتا ہے تو تینوں گاوں کے سارے بچے نوجوان، جوان اور بزرگ اس کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور علاقے کا امیر ترین شخص اپنے سر سے شملے والی پگڑی اتار کر اس کے لیے بچھاتا ہے ۔ میں جو کچھ اللہ تعالیٰ کے قرآن میں پڑہتا ہوں ،اپنی کھلی آنکھوں سے اس کی تفسیر کا زمین پر شاہد ہوں۔



میں نے اپنی نوجوانی میں ابن خلدون کو پڑہا تھا مگر اب میں اسکے کلام کی حقیقت پا چکا ہوں کہ ْ اسلام غریبوں کا مذہب ہے ْ بلکہ حقیقت یہ کہ غریب ہی در اصل موجودہ دور کے مسلمان ہیں اور جو مالدار لوگ اسلام پر عمل پیرا ہیں ان کا مقام اولیاء سے بڑھ کر ہے ۔ البتہ میں قرآن پا ک میں اللہ کے احکام پڑھ کر ، کتابوں میں انسانوں کی تاریخ یاد کر کے اور اپنی آنکھوں سے ان ہونی کو ہوتا دیکھ کر خوف زدہ ہوں۔




کوئی تبصرے نہیں: