بدھ، 7 فروری، 2018

گوگل کا لٹکا ہوا منہ


دنیا اگر گلوبل ویلیج ہے تو اس گاوں کے ایک محلے کا نام پاکستان ہے جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اور بعض اوقات سوشل میڈیا پر ایسے دوست بھی موجود ہوتے ہیں جو اس عالمی گاوں کے کسی اور محلے میں رہتے ہیں اور ان کی زبان بھی مختلف ہوتی ہے مگر بھلا ہو ٹیکنالوجی کا کہ ہم دوسری زبان میں لکھی گئی بات کو اپنی پسند کی زبان میں پڑھ یا سن لیتے ہیں۔ ترجمے کا یہ کام مشینی ذہانت انجام دیتی ہے۔ یہ ذہانت ابھی بچپن کے دور سے گذر رہی ہے اس لئے بعض ثقیل الفاظ اور محاوروں پر اس کا منہ لٹک جاتا ہے ۔ مگر ہم اس کا لٹکا ہوا منہ دیکھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں کہ ابھی تاثرات کو ویڈیو میں ڈھالنا باقی ہے مگر یار لوگ ہاتھ دھونا ملتوی کر کے اس مشکل کام کو آسان بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔
ہر کلام بشمول کسی معصوم کا گریہ ، عدالت میں فریاد ، جرنیل کا حکم، عالم کا وعظ یا باپ کی نصیحت ، سب کا مقصد سامع میں کسی عمل کی تحریک کا پیدا کرنا ہوتا ہے۔ دوسرے کو کسی کام سے روکنا بھی دراصل کام کے متضاد کی تحریک ہی پیدا کرنے کا نام ہے۔ 
جب ایک حکمران دوسرے حکمران کو سندیسہ بھیجتا ہے تو لکھے ہوئے خط کے ساتھ ایک خوش کلام و ذی شعور سفیر کو بھی بھیجتا ہے جو اس کو خط پڑھ کر سناتا ہے۔ خط کے الفاظ کے اثرات ہوتے ہیں تو سفیر کی زبان اور اس کے جسم کے اعضاء کی حرکات کے بھی اثرات ہوتے ہیں اور حکمران کے مشیران و مددگار سفیر کی باڈی لینگویج کو بھی نوٹ کر رہے ہوتے ہیں ۔
عزیر و دوست کے خط کو آدہی ملاقات کہا جاتا ہے تو ویڈیوکال بھی اس تشنگی کو دور نہیں کر پاتے جو روبرو ہو کر بات کرنے سے دور ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ْ بے شک ہم نے اسے عربی قرآن اتارا کہ تم سمجھو ْ (سورۃ الیوسف:۲) ۔ بنی اللہ اسماعیل جو مکہ میں بس گئے تھے ان کی زبان عربی تھی تو اللہ تعالیٰ نے جب چاہا کہ ان کی اولادکے لوگوں سے انسانوں کی امامت کا کام لیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لیے عربی میں کتاب اتاری تاکہ وہ لوگ پیغام کو سمجھ سکیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے حکمران قوی کے احکامات کو اپنی زبان مبارک سے پڑھ کر سنایا اور سننے والوں نے ان کے لہجے اور ان کے جسمانی اعمال کو دیکھ کر پرکھا ۔ جب رسول اللہ کی محترم زوجہ صاحبہ سے نبی اکرم ﷺ کے اخلاقات بارے سوال کیا گیا تو انھوں نے سوال کرنے والوں کو جواب دیا تھا کہ کی�آپ قرآن نہیں پڑہتے۔
قران پیغام ہے جو انسانوں کے نام ہے۔ اور انسانوں میں بیٹھ کر قران کا درس دینے والی ہستی بھی مرسل ہے۔
دورنبوت میں ، انسانوں میں سے ہر سطح کے علماء، شعراء ، سرداروں اور معاشرے کی رہنمائی کرنے والے لوگوں نے ان سے ملاقات کی ، ان پر سوالات کیے، اپنے دل کی تسلی کے لیے مطالبات پیش کیے ، اور مطمن ہوئے ۔ ان افراد کا اطمینان اس درجے کا تھا کہ اپنے ایمانی اعتماد کے بل بوتے پر رسول اللہ ﷺ کی معیت میں اولین رہنماء دستے کا حصہ بنے۔ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ سے رو برو ہو کر قران سنا کرتے تھے۔ عظیم ہستی کے روبرو ان کی زبان مبارک سے اپنی بولی میں سن کر سمجھنے ہی کا اعجاز تھا کہ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے دست وبازو بنے۔
مشینی ذہانت کے اس دور میں ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرتے ہوئے بعض اوقات ترجمہ کرنے والے سوفٹ ویر کا نتیجہ عجیب منظر پیش کررہا ہوتا ہے ۔جیسے قران پاک جیسے پر حکمت کلام کی بعض عبارتوں کی ترجمانی کے دوران گوگل کا لٹکا ہوا منہ 

کوئی تبصرے نہیں: