جمعہ، 2 فروری، 2018

عدل کی تفسیر


دس سالوں میں پاکستان بدل گیا ہے، ہماری اشرافیہ اور ہمارے قومی 
ادارے بے خبر نہیں ہیں مگر گئے دنوں کی باقیات کچھ شخصیات جو 
2013
میں کمزور ہونے کے باوجود اب
 2018
میں کمزور تر ہو کر 
مایوس بھی ہیں۔ 

طلوع سحر سے قبل کی ْ لو ْ پھڑپھڑا رہی ہوتی ہے تو ْ امیدوار ْ اس بجھتے چراغ کی روشنی کو دیکھ کر یقین نہیں کر پا رہے کہ وہ سحر آن پہنچی ہے

جوخواب کراچی کے ایک نحیف البدن وکیل نے عوام کو دکھایا تھا اور اس خواب نے پنجاب کے اس مردجر ی کے ذہن میں جنم لیا تھا جو بادشاہی مسجد کے دامن میں محو استراحت ہے۔
وکیل اپنے کام کی نوعیت کے باعث معاشرے میں پائی جانے والی کشمکش کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی جان لیتا ہے کہ مجبوریوں کی ماں کا نام ْ معاش ْ ہے ۔ قائد اعظم سے لے کر ذولفقار علی بھٹو تک اور عمران خان سے لے کر نواز شریف تک بنیادی جنگ غریب اور امیر کے درمیان برپا ہے۔ دس سال قبل تک ہمارے سیاسی ، مذہبی اور قبائلی تقسم در تقسیم معاشرے کے لوگ اپنے اپنے گروہ کے جال میں سحر زدہ تھے مگر جنوری کے مہینے میں کرامت یہ ہوئی کہ لاہور کے ایک جلسے میں عوام کا موڈ دیکھ کر زرداری کے بھٹو بیٹے نے اس دن ٹویٹ بطور تیر چلایا تو کپتان نے اگلے دن اعلان کیا کہ اس کی اپنی راہ ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ عوام نے رہنماوں کو سجدہ سہو پر مجبور کر دیا تو غلط نہ ہو گا ۔ عوام مگر کبھی غلطی پر ہوتے ہی نہیں ہیں اجتماعی عقل ْ آواز خلق ْ کہلاتی ہے اور ْ نقارہ خدا ْ یہ ہے کہ آواز خلق کو سنا جا رہا ہے جو صیح راستہ ہے اور یہی خواب بادشاہی مسجد کے دامن میں خوابیدہ اقبال نے دیکھا تھا اور کراچی کے وکیل جناح نے اس کی تعبیر کے لیے جدوجہد کی تھی۔

ہمارے ادارے ہمارا فخر ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اداروں میں ایسے ْ گھس بیٹھیے ْ براجمان رہے ہیں جنھوں نے اداروں کے تقدس کو بے پناہ نقصان پہنچایا ۔ اور ایسے ناموں میں سر فہرست ْ میں ڈرتا نہیں ْ کا نعرہ لگانے والا
وہ ْ مکہ تن ْ شخص تھا۔ جس کے دور میں پاکستان جیسے ملک میں دارلخلافہ سے ملحقہ چھاونی کے علاقے میں فوجیوں کو وردی پہن کر عوام میں آنے سے روک دیا گیا۔ مگر ادارہ جلد اس سے جان چھڑا کر سرخرو ہوا اور ساتھ پاکستانیوں کو بھی سرخرو کیا۔ 

اور آج ہم حسب روائت اپنی مسلح افواج پر فخر کناں ہیں اور فوجی وردی کا تقدس بحال ہو چکا ہے۔

میڈیا بھی ایک قومی ادارہ ہے جو عوام کی سوچ کے رخ کو متعین کرنے میں بنیادی کردار کا حامل ہے ۔ بطور ادارہ وہ بھی اپنے اندر ْ گھس بیٹھے ْ لوگوں سے جان بچا کر نکل جانے کی تگ و دود میں مصروف ہے اور یقینی طور پر کامیاب ہو گا کہ عقل اجتماعی غلط ہو ہی نہیں سکتی۔

عدلیہ ایسا ادارہ ہے جو وکلاء اور ججوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ بنیادی طور پر جج بھی وکیل ہوتاہے اس لیے عدل کے ادارے کی اینٹ بھی وکیل ہے اور جج کی اونچی کرسی بھی وکیل ہی کا استحقاق ہے۔ مگر بطور ادارہ وکلاء نے کبھی بھی اپنے ادارے میں ْ گھس بیٹھوں ْ کا ساتھ نہیں دیا۔ اور آج کراچی میں وکلاء کی ہڑتال کے اعلان کا پورے پاکستان کی بار کونسلوں میں سنا جانا اور ساتھ دینااس اخلاص کا اظہار ہے جو وکلاء کے قانون کی بالادستی پر یقین ہونے کی نوید دیتا ہے ۔ پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے صحن میں لگے انصاف کے میزان تلے دھلے پاجامے لٹکا نے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کا ساتھ وکلاء ہی دے رہے ہیں۔ جب ایک ْ اپنے شہریوں کے سوداگر ْ نے ججوں کو پابند سلاسل کیا تھا تو ہم نے دیکھا تھا شاہراہ دستور پر بے نظیر کی آواز میں آواز ملانے والوں میں سول سوسائٹی کے ساتھ ساتھ وکلاء کی آواز بھی شامل تھی ۔
وکیل جب اپنی تعلیم مکمل کر کے اپنے استاد کی معیت میں پہلی دفعہ عدالت جاتا ہے تو پہلا متاثر کن منظر یہ ہوتا ہے کہ جج بہت توجہ سے فریقین کو سنتا ہے مگر فیصلے کی صورت میں جب بولتا ہے تو وکیل مخالف کو بھی مزید بولنے کی ہمت نہیں رہتے کہ انصاف عمل ہی ایسا ہے ۔
اللہ کے نبی داود اپنے وقت میں جج بھی تھے ان کے ایک فیصلے پر اللہ کے ایک دوسرے نبی سلیمان نے تبصرہ کیاتو انھوں نے اسی وقت فریقین کو بلا کر اپنا نظر ثانی شدہ فیصلہ سنایا اور اس کے بعد معاشرے نے داود کو ْ مانا ہوا ْ جج تسلیم کر لیا تھا۔اس روائت سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنے ہی فیصلے پر نظر ثانی جج کو انصاف کے قریب تر ہونے میں مدد گار ہوتی ہے مگر یہاں تو مسٗلہ عدلیہ میں ْ گھس بیٹھوں ْ کا ہے ۔ پاکستان کی عدلیہ کے بہت سارے فیصلے نظر ثانی کے محتاج ہیں جن میں سر فہرست سیاسی فیصلے ہیں جن کی مذمت ہم نجی محفلوں میں ہی نہیں بلکہ ٹی وی کی سکرینوں پر بھی دیکھتے ہیں۔ 


ملتان کے مخدوم جاوید ہاشمی نے جوڈیشنل مارشل لاء کا الزام لگایا تھا ۔ ججوں کے سیاسی فیصلوں پر تبصرے کی مرتکب سپریم کورٹ کی وکیل عاصمہ جہانگیر اور منفی تبصروں میں سبقت لے جانے والوں میں سابق صدر مشرف کا نام ہے۔ مگر ان افراد کے الزامات پر نہ نوٹس لیا گیا نہ کوئی دوسری کاروائی عمل میں لائی گئی۔

مخدوم جاوید ہاشمی کے نے جس جوڈیشنل مارشل لاء کی نوید سنائی تھی ۔اگر اس پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اس کا پہلا ہدف کراچی کا وہ نحیف البدن وکیل ہے جو ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ اور ایک پنجابی مرد جر ی کی حمائت کا مجرم ہے ۔اور نام اس ْ بہاری ْ کا نہال ہے اور ہاشمی بھی ہے۔جس نے غیر مشروط معافی مانگی خود کو عدالت کی صوابدید پر چھوڑا ، اس کے معافی نامہ میں دو بار عدالت نے ترمیم کرائی اور انجام کار اسی معافی نامہ کر مسترد کر کے اس پر جرمانہ عائد کرتے ہوئے اپنے سامنے اسے گرفتار کرا کر اڈیالہ جیل بجھوا دیا گیا۔

جج بعض اوقات انصاف کی نسبت اپنے اختیارات کے اظہار کے مظہر بن جاتے ہیں ۔ اس کا مجھے ذاتی طور پر تجربہ اس دن ہوا تھا جب ایک عدالت میں جج نے فرمایا ْ میرے پاس آپ کو جیل بھیجنے کا بھی اختیار ہے ْ تو میں نے عرض کیا ْ آپ انصاف کر کے اپنے اختیار کو بہتر طور پر استعمال کر سکیں گے ْ جج صاحب کو میرا جواب پسند نہ آیا اور سیاسی مقدمے میں مجھے جیل بھیج دیا۔ 
ْ ْ 

کوئی تبصرے نہیں: