پیر، 5 فروری، 2018

عورت کی آزادی کا سفر


ہندوستان کے حالات
برصغیر کے علاقے میں اسلام کی آمد سے قبل ْ مہا بھارت ْ کے مطابق عورت اجناس کی طرح ایک جنس شمار ہوتی تھی۔ لوگ جوئے میں اپنی عورتوں اور بیٹیوں اور بہنوں کو داو پر لگاتے تھے۔اور خاندان کے مردوں کی رضامندی سے ایک عورت کے کئی کئی شوہر ہوتے تھے۔بیوہ عورت زندگی کی ہر سہولت سے محروم کر دی جاتی تھی ۔لباس تو کجا اس کے لیے نہانا اور منہ دہونا بھی جرم بنا دیا جاتا تھا۔ جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے وہ بیوگی کی زندگی پر عائد پابندیوں کے تصور سے ہی کانپ جاتی تھا۔ اس کے لئے زندہ آگ میں جل کر ستی ہو جانا زندہ رہنے کی نسبت آسان دکھائی دیتا تھا یہی سبب تھا کہ بیوہ ہونے کے بعد عورت ستی کی رسم کو اپنا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا کرتی تھی۔لڑائی عورتوں پر بہت بڑی مصیبت لاتی تھی ۔ اگر ان کے مرد لڑائی میں ہار جاتے تو مخالف ان کو اپنی رکھیل بنا کر ہر قسم کے حقوق سے محروم کر دیتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ شکست خوردہ سب سے پہلے اپنی عورتوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کر دیا کرتے تھے۔مرد کی بیویوں کی تعداد پر کوئی پابندی نہ تھی۔ امیر لوگوں کی درجنوں اور حکمرانوں کی سیکٹروں بیویاں ہوتی تھیں۔البتہ ان کو تعلیم سے دور رکھنا ایک سماجی فرض تھا۔ آر سی دت کی ْ ہندوستان قدیم ْ کے مطابق عورتوں کو محکوم مانا جاتا تھا اور مرد کی غلام جانا جاتا تھا۔ذات پات میں بٹے معاشرے میں اونچی ذات کے کسی مرد کا نیچ ذات کی کسی عورت کے ساتھ زیادتی کو جرم شمار نہیں کیا جاتا تھا البتہ کسی بدھ مت کی راہبہ کی عصمت دری کی سزا معمولی جرمانہ کافی سمجھی جاتی تھی۔
عربوں کے حالات
عرب میں عورتوں کی باقاعدہ منڈی ہوا کرتی تھی جہاں سے کوئی بھی مرد اپنی پسند کی عورت کو خرید سکتا تھا۔عربی مرد جتنی چاہے شادیاں کر سکتا تھا ۔ اور اگر اس کو مالی آسودگی حاصل ہے تو لونڈی کے نام پر جتنی چاہے عورتیں اپنے حرم میں جمع کر سکتا تھا۔اور اس کے اس عمل کو معاشرتی تحفظ حاصل تھا۔ہمسائیوں کی عورتوں سے جنسی تعلقات رکھنے پر مرد کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جاتا مگر عورت اسی ہی کی زوجیت میں دے دیا جاتا تھا۔شادی کے وقت لڑکی کا والد عورت سے مہر وصول کرتا۔مرد کے فوت جانے کے بعد اس کی تمام بیویاں ( سواے نسبی ماں ) اور لونڈیاں خود بخود بیٹے کی ملکیت میں آ جاتیں تھیںْ۔ مرد اگر عورت کو گھر سے نکال دے تو بھی اس کی مرضی تھی کہ وہ طلاق نہ دے تاکہ کسی دوسرے مرد سے اس کی شادی نہ ہو سکے۔دشمنوں کی عورتوں کو کی میدان جنگ میں ہی بے حرمتی کر دی جاتی تھی۔ حج کی مذہبی رسم کے دوران بھی عورت کا ننگا ہونا مذہبی فریضہ شمار ہوتا تھا۔امیر لوگ اپنی لونڈیوں کو مجبور کرتے کہ وہ بدکاری کے ذریعے ان کے لیے پیسے کما کر لائیں۔ سود خور اپنے مدیون کی عورتوں پر باآسانی تصرف حاصل کر لیتے۔قرض کی ضمانت میں عورت کو گروی رکھنا برا نہ سمجھا جاتا تھا۔ڈاکو اپنے ڈاکے میں مال وزر کے ساتھ عورتوں کو بھی لے جاتے تھے ۔عرب جنسی بے راہ روی میں دنیا بھر میں آگے ہیں ان کی جنسی ہوس عورت کیا پورا کرے گی اس آگ کو تو جنات بھی ٹھنڈا نہ کرسکے ۔ عمرو بن یربوع نامی ایک عرب نے سعلاۃ (مونث جن) سے شادی کر رکھی تھی اور اس سے اس کی اولاد بھی تھی۔ عربوں کا یقین ہے کہ یمن کی ملکہ سباء جس کا قصہ قران پاک میں بیان ہوا ہے سعلاۃ ہی کی اولاد تھی۔
ڈاکو، چور، شرابی مرد مگر اپنی لونڈی سے ایمانی داری کی توقع رکھتے کرتے تھے اور بے ایمانی کی صورت میں عورت کو گھوڑے کی دم سے باندھ کر گھوڑے کو اس وقت تک دوڑاتے جب تک عورت کے جسم کے لوتھڑے جسم سے علیحدہ ہو گر نہ جاتے۔ بیوہ ہو جانے والی عورت سے شادی کرنا معاشرتی عیب شمار ہوتا تھا۔ بیوہ عورتوں کے اچھا لباس پہننے کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔
عربوں میں شراب و کباب کے ساتھ عورت کا ساتھ لازمی سمجھا جاتا تھا۔لونڈی، رقاصہ معاشرتی ثروت کے نشان گردانے جاتے تھے ۔اور شام کے وقت کی محفلوں میں مرد عورت کے گریبان کے شگاف اور رانوں کے لباس کی باریکی کا ذکر اپنے شعروں میں فخر سے کیا کرتے تھے۔عورت کا شاعری میں ذکر ایران اور ہندوستان میں بھی ہوتا تھا مگر عربوں کی شاعری عمل کا اظہار ہوا کرتی تھی ۔مرد اپنی منکوحہ بیوی کے ساتھ تنہائی میں گذارے لمحات کی روداد اپنے دوستوں کی محفل میں سناتا تو بعض اوقات اس کے کہے ہوئے اشعار عورت کے والد کے لیے تازیانہ بن جاتے۔ اور یہ عمل اس قدر عام ہوا کہ بیٹی کا باپ ہونا مردکی غیرت کے خلاف طعنہ بن کیااور والد کے دل سخت ہونا شروع ہو گئے اور یہ سنگ دلی اس قدر بڑہی کہ قران پاک کی زبان میں ْ انکے دل پتھروں کی مانند بلکہ ان سے بھی بڑھ کر ہیں ْ البقرہ:۴۷ اور ایک مرد نے خود اپنے ہاتھ سے آٹھ بچیوں کو زندہ درگور کیا تھا ۔ قران پاک نے عربوں کی اس حالت کو بیان کیا ہے ْ اور ان میں سے کسی کو لڑکی کی پیدائش کی خبر خوش خبری سنائی جاتی ہے تو اس کا منہ کالا پڑ جاتا ہے اور غصہ کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے اور اس خبر کے رنج سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ ذلت کے ساتھ اسکو قبول کر لے یا زندہ زمین میں دفن کردے ْ سورۃ النحل: ۸۵،۹۵
انقلابی عملی اقدامات
ان حالات میں نبی رحمت ﷺ نے ایک بیوہ کے ساتھ شادی کی۔ اپنی بیٹی فاطمہ کو مثالی عزت دے کر فرمایا کہ جو باپ بیٹیوں کی کفالت کرے گا اس کو جنت میںخود ان کا ساتھ ملے گاْ۔ بچپن میں دودھ پلانے والی دائی کی آمد پر ان کا احترام کر کے دکھایا اور دودھ شریک بہن کی جھولی ان کی فرمائش کو پورا کر کے بھر دی۔ اور سرعام کہا کہ میں عائشہ سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہوں ۔ جنت کو ماں کے قدموں تلے ہونے کا شرف آپ ہی نے بخشا۔ اور حج کے موقع پر بھی عورت کی عزت کرنے کی تاکید کو نہ بھولے۔ اور عورت کو اس کے مہر پر حق کو تسلیم کر کے اور ترکے میں حصہ دار بنا کر عورت کی معاشی آزادی کی بنیاد فراہم کی۔

کوئی تبصرے نہیں: