منگل، 20 فروری، 2018

ہمارے دشمن


پاکستان کے صوبہ پنجاب کی عدالتوں میں گذشتہ بتیس سال سے ایک مقدمہ زیر سماعت ہے۔ راولپنڈی کے گنجان آباد شہری علاقے میں موجود یہ متنازع پلاٹ جس کی مارکیٹ ویلیو کروڑوں میں ہے کبھی زمین کا ایک کم قیمت ٹکڑا تھا۔مقدمہ بازی کے دوران فریقین کے ہمدردوں نے کئی بار کوشش کی کہ اس تنازعہ کا فیصلہ بات چیت کے ذریعے عدالت سے باہر ہی کر لیا جائے مگر ایسی کوششیں ناکام ہوتی رہیں۔ کل رات آخری جرگہ بڑی امید کے ساتھ بیٹھا اور بد دل ہو کر اٹھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ زمین کے اس ٹکڑے کے ساتھ فریقین کا لگاو بڑہتا جا رہا ہے۔لوگوں کا کہنا تھا جرگے کے ناکام ہونے میں پلاٹ کا قیمتی ہونا بنیادی عنصر ہے۔کچھ کا خیال ہے قیمت پر ضد غالب ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں فریقین کا وقار بنیادی سبب ہے۔گل محمد پہلی بار جرگے میں موجود تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ فریقین کی اس زمین کے ٹکڑے پر سرمایہ کاری کی مقدار اتنی زیادہ ہے ۔۔ ْ کیا سرمایہ کاری ہے میں نے قانونی دستاویز دیکھی تھی پلاٹ کی ادا شدہ قیمت صر ف پچیس ہزار ہے ْ میں نے گل محمد کو ٹوک دیا تو اس کا کہنا تھا ْ سرمایہ کاری میں قیمت کے علاوہ مقدمہ بازی پر اٹھنے والے اخراجات،دو نسلوں کی دوڑ دھوپ اور انا کی قیمت بھی شامل کر لیں ْ تبلیغی جماعت کے رضاکار گل محمد نے بات جاری رکھی ْ جس چیز پر جتنا زیادہ جان وقت اور مال خرچ ہو وہ اتنی ہی زیادہ قیمتی ہو جاتی ہے ْ گل محمدنے چھوٹے سے جملے میں کتنی بڑی حقیقت کو سمو دیا تھا۔ جان، وقت اور مال
آزادی وطن کے وقت جانوں کی قربانی میں بخل سے کام نہیں لیا گیا تھا، ستر سال کا وقت بھی کم نہیں ہے البتہ مال والا چلہ پورا ہونا باقی ہے۔ جب میں اپنے ارد گرد دیکھتا ہوں تو اکثر ناقدین وطن کو ٹیکس چور ہی پاتا ہوں ۔کیا یہی ہمارے حقیقی دشمن ہیں؟

کوئی تبصرے نہیں: