عاصمہ جہانگیر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
عاصمہ جہانگیر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 13 فروری، 2018

عاصمہ جہانگیر

                                     
انسان کی عوام میں ایک پہچان ہوتی ہے۔عاصمہ جہانگیر کی پہچان انسانی حقوق کی نگہبانی تھی ، وہ اول و آخر انسانیت کی داعی تھی ۔ منافقانہ معاشرے میں وہ دور سے پہچانی جاتی تھی۔ وہ ایک عورت تھی۔مگر جرات مند و بے باک و انسان دوست اور اپنی ذات میں ایک ادارہ،

پاکستان میں نامور اور بے مثال ہستیاں پیدا ہوتی ہیں مگر پہلے سے موجود نامور اور بے مثال ان کی ذ ہنی بلوغیت سے قبل ہی ان پر سحر پھونک دیتے ہیں۔ اس سحر سے محفوظ رہ جانے والی اپنی طبیعت کے لحاظ سے عاصمہ جہانگیر تیسری عورت تھی جو مردوں پر بازی لے گئیں۔ پہلی دو کے نام محترمہ فاطمہ جناح اور محترمہ بے نظیر بھٹو ہیں۔امن انصاف جمہوریت انسانیت دوستی عاصمہ کی مٹی میں ، تو بے باکی اور جرات اس کے خمیر میں شامل تھی۔اٹھارہ سال کی عمر میں وہ بلا جھجک عدالت کے روبرو اپنے باپ کے لئے انصاف مانگنے کھڑی ہو گی۔سچ پر ڈٹ جانا اس کو ورثے میں ملا تھا۔ پہاڑ کی طرح اپنے موقتف پر جم جانا تب ہی ممکن ہوتا ہے جب کھڑے ہونے کی جگہ کی مضبوطی کا احساس ہواور یہ مضبوطی سچ ہی مہیا کر سکتا ہے۔وہ سچی تھی، اس کوغلامی کی زنجیروں سے نفرت تھی ۔ تنقید کی حامی تھی اور سول حکمرانی کی داعی ۔ اس کی تنقید مگراصولی اور قانونی ہوا کرتی تھی۔
بیمار معاشرہ جہاں مرد بھی زنانہ سوچ والی زندگی گذارنے میں عافیت پاتے ہیں وہاں مردانہ سوچ اور طور طریقوں پر زندگی گزارنے والی عاصمہ نے انسانی حقوق کی نگہبانی کا بیڑا اٹھایا تو مذمت کرنے والوں کی مذمت کی پرواہ نہ کی ۔ملک دشمن اوردین دشمن جیسے بڑے الزام سہہ لئے مگر انسانی حقوق کی نگہبانی کو نبھایا۔اس میدان میں اس کی کامیابیوں کا اندازہ اس کی موت پر ماتم کنان لوگ اور دنیا بھر سے ماتمی پرسوں سے لگانا مشکل نہیں ہے۔ لوگ مادی ترقی کے لئے اور ترقی یافتہ ممالک کے پاسپورٹ کے مشتاق ہوتے ہیں مگر تلخ لہجے میں بات کرنے والی عاصمہ نے جینیوا کے ٹھنڈے موسموں کی آسائشوں میں پناہ نہ لی۔وہ غاصب کا تیوری چڑہا کر ذکر تی تھی،اسٹیبلشمنٹ اور اس کے پروردہ سیاسی اور دینی بونوں پر ساری عمر خفا ہی رہیں۔بقول یاسر الیاس :
گستاخ لگی نہ غدار لگی ہاں تھوڑی سی بیدار لگی 
مردوں کے اس ریوڑ میں اک عورت ہی جی دار لگی
اس کی جرات کا امتحان ۱۹۸۳ میں ہی نظر بندی سے شروع کر دیا گیا تھا۔ کوٹ لکھپت کی جیل میں آمرکی عدالت میں رعیت ہونے کا سلیقہ سکھا نے کی پوری سعی کی گئی مگر وہ سخت جان ثابت ہوئی۔لاہور کی مال روڈ پر پولیس کی لاٹھیاں بھی اس کے عزم کو نہ توڑ سکیں تو آمر کی مجلس شوریٰ میں توہین مذہب کی آڑ میں اس کا سر جھکانے کی کوشش نے ثابت کر دیا کہ اس سر کو جھکانا نا ممکن ہے ۔اس نے لاہور میں میراتھن ریس کا انتطام کیا تو لوگوں کویقین ہو گیا ، یہ عورت ناقابل اصلاح ہے ۔ مگر کوشش جاری رہی اوراس کو سڑک پر گھسیٹا گیا تھا۔ مگر وہ آزادی پر سمجھوتے نہ کر سکنے پر اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور تھی۔
ظلم و جبر ، لاقانونت و بے امنی اور تشددو نفرت کے رویوں کے خلاف اس آزاد عورت کے کاموں کی مخالفین بھی داد دینے پر مجبور ہیں۔ْ اصولی اختلاف پر پتہ صاف اور چار حرف بر انصاف ْ ایسی سوچ ہے کہ اس کوجبر کے علاوہ کوئی دوسرا نام دینا ممکن ہی نہیں ہے ۔ لاپتہ افراد کی بازیابی میں پاکستان کے انسانی حقوق کے ادارے اورخود عاصمہ کا بڑا حصہ ہے۔ اسلام آباد میں پشتونوں کا لانگ مارچ اسی سوچ کی مخالفت میں دھرنا دے کر بیٹھا ہوا ہے۔ ان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کے مطالبے کی حمائت بطور انسانی حقوق کی محافظہ عاصمہ جہانگیر نے کی، اور وہاں علامتی شرکت کی۔جب ایبٹ اباد میں اسامہ بن لادن کے بعد اس کے خاندان کی عورتوں اور بچوں کو گرفتار کر لیا گیا تو اس عورت نے ان کے حق کے لئے آواز اٹھائی۔پاکستان کی بیٹی عافیہ کو جب ظالموں کے ہاتھ بیچا جا رہا تھا ۔ اس کے بیٹے کی حمائت میں اپنے شہری فروخت کرنے والے لالچی آمر کے سامنے کھڑا ہونے کی جراٗت عاصمہ ہی نے دکھائی تھی۔حکمرانوں کی خواہشوں، ایجنسیوں کی سازشوں اور ججوں کے فیصلوں کو روک نہ پانے کے باوجود ملک اسحاق کی موت پر عاصمہ عدالت کے روبرو کھڑی ضرور ہوئی تھی۔جب عاصمہ کو کہا گیا کہ طالبان کے لاپتہ ساتھیوں کا کیس عدالت میں لڑنے کے لیے کوئی وکیل رضامند نہیں ہے تو اس کا کہنا تھا ریاست کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو لا پتہ کرے۔ایک اخبار نے عاصمہ کے خلاف لکھامگر جب اس ادارے کو ریاستی جبر کے تحت عدالت میں بلایا گیا تو ہم نے دیکھا کہ عاصمہ مجبور کی وکیل بن کے کھڑی ہے۔ایک سیاسی جماعت نے اسے گالیں دیں مگر اس نے ان کی وکالت سے انکار نہیں کیا۔وہ اول و آخر انسان تھی اور انسانیت کی ہمدرد۔
دوسروں ممالک میں زندہ رہنے کے لیے انصاف مہیا کیا جاتا ہے ہمارے ہاں انصاف کے حصول کے طویل مدت کی زندگی شرط ہے اور یہ بھی غلط نہیں ہے کہ کمزور جج نامور وکیل کی قانونی اور آئینی رائے ماننے پر مجبور ہوتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر ایک نامور وکیل تھی۔
اقلیتوں اور معاشرے کے کمزور طبقوں کی ہمدردی نے اسے اسٹیبلش منٹ کے دلالوں کی نفرت کا نشانہ بنا دیا ہوا تھا۔ اس کو دین بیزار ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے ایک طبقے نے دین دشمن قرار دیا ہوا تھا۔قصہ یہ ہے کہ اس نے سترہ مئی والے سیمنار میں عربی کے لفظ ْ امی ْ کا ترجمہ ْ ان پڑھْ کیا تواس پر تو ہیں مذہب کا الزام لگا۔جب تحقیقی کمیشن میں توہین ثابت نہ ہو سکی تو قادیانی ہونے کا الزام لگا دیا گیا۔ اس نے کبھی بھی خود کو مذہبی نہیں بتایا تھا۔ نہ کبھی اس نے اس الزام کی تردید کی۔ مرتے وقت تک الزام لگانے والوں کو شکائت تھی کہ اس نے قادیانی ہونے کی تردید نہیں کی تو اعتراف کیوں نہیں کرتی۔مگر اس کا دین انسانیت تھا جس کا وہ اعتراف کرنے میں عار محسوس نہ کرتی تھی۔
تنقید کی حامی تھی وکلاء ، علماء، جج، جنرل ، سیاستدان سب اس کی تنقید کا نشانہ بنتے رہے ۔ اس کا کہنا تھا کہ تنقید ہی خامی کو اجاگر کرتی ہے جو اصلاح کا موجب بنتی ہے۔ توہین رسالت کی مخالفت کا اظہار ٹی وی پر بیٹھ کر کرتی تھی۔ اور دینی طبقہ اس پر سیخ پا ہوتا تھا۔مگراس حقیقت کا ادراک کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے کہ اس قانون کی زد میں آج تک دیندار لوگوں کی گردن ہی آئی ہے۔
عاصمہ جہانگیر سول حکمرانی کی داعی اور آمریت کی کھلی مخالف تھی ۔ اس نے منافقانہ رویہ اپنانے کی بجائے ببانگ دہل اپنے ان خیالات کا پرچار کیا۔یہ ایسا اصولی موقف ہے کہ مخالفین اس کی مخالفت نہیں کر پائے تو اسے پاکستان کا غدار اور بھارت کا ایجنٹ مشہور کرنا شروع کیا ۔مگر برہان وانی کو عاصمہ نے ہیرو قرار دیا اور بھارتی وزیر اعظم کولومڑ قرار دیا، اس نے نعرہ لگایاتھا ْ آو کشمیر کو آزادی دلاتے ہیں ْ وہ جھوٹے الزاموں کو سچ کی طاقت سے دھو ڈالنے کا سلیقہ جانتی تھی۔اس سال کے شروع میں امریکی صدر نے پاکستان کے خلاف ٹویٹ کیا اور بہت سے زبان درازوں کی موجودگی میں اس ٹویٹ کے جواب میں ٹویٹ کرنے والی یہ واحد پاکستانی تھی۔
۲۰۱۰ میں بار کا الیکشن لڑا ، اس کے بعد اس کا گروپ بار کی سیاست میں سرگرم ہی رہا۔اس میں انسان کاضمیر جنجھوڑنے کی صلاحیت تھی۔ اس نے اپنی یہ صلاحیت پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر بھی پیشہ ورانہ خوبصورتی سے پیش کی۔
معاشرے کے با ضمیر لوگو ں نے اس کی خدمات کا اعتراف کیا اور اس کو ہلال امتیاز اور اورستارہ امتیاز سے نوازا، اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی اداروں نے اسے درجنوں تمغات سے نوازا اور امریکہ کی ایک یونیورسٹی نے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے کر اس کی خدمات کا اعتراف کیا۔
میں لاہور میں پیدا ہونے والی عاصمہ جیلانی اا فروری کو عاصمہ جہانگیر کی شخصیت مین لاہو ر میں فوت ہوئی تو پورے پاکستان کے وکیلوں نے سوگ کا اعلان کیا۔ اقوام متحدہ سمیت بین الااقوامی اداروں نے تعزیت کے پرسے ارسال کیے۔
عاصمہ اب اس دنیا میں نہیں ہے ۔ اس کے بارے میں جیسا بھی گمان ہے آپ کا حق ہے مگر یہ فرض ہے کہ جائزہ لیں کہیں آپ کے گمان کی بنیاد سنی سنائی باتیں تو نہیں ہیں۔