Pashtoon Long March لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Pashtoon Long March لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ، 10 فروری، 2018

جھوٹ کے سوداگر

کراچی میں نقیب اللہ محسود کو راو انور نامی ایک پویس افسر نے جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا ۔ نقیب کے دوستوں نے کراچی میں اس پراحتجاج شروع کیاتو سول سوسائٹی اور پولیس گردی کے شکار لوگوں نے ہی نہیں پورے ملک سے اس ظلم اور نا انصافی کے خلاف آواز اٹھی۔ پاکستان میں عوام کی قسمت کی ٹوکری نا انصافیوں کے وزن سے اس قدر بھاری ہو چکی ہے کہ عوام اس وزن سے ہانپ رہی ہے، وہ ہر نا انصافی پر چیخ اٹھتی ہے ۔ پاکستانی عوام کی مثال اس بوڑہی کی طرح ہے جس کو ہر ماتم پر اپنا جوان مرا ہو بیٹا یاد آجاتا ہے اور وہ دوسروں کے ماتم پر حقیقی آنسووں سے روتی ہے۔
نقیب اللہ محسود کے والد اور اس کے عزیزو اقارب ابھی کراچی پہنچے ہی تھے کہ جرگے کو برخاست کر دیا گیا۔ پھر سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو معلوم ہوا کہ اسلا�آباد میں دھرنا دیا جا رہا ہے جس کامقصد نقیب محسود کے قاتل راو انور کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہے۔اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑوان شہر کے باسیوں نے اپنے دور سے آئے مہمانوں کی ، جو اپنے بے گناہ مقتول بیٹے کے لئے انصاف مانگنے آئے ہیں، کے لئے اپنے دل و در واکر دیے۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک ریلی نکالی گئی ،بتایا گیا ، اس ریلی کا مقصد اسلام آباد میں موجود پر امن قبائلی جرگے کے ساتھ یک جہتی ہے ۔ مگر جب ریلی ختم ہوئی تواس کی باقیات میں ایک جلتی گاڑی، سلگتے دفتر اور خوفزدہ انسا نوں کی تصویریں سوشل میڈیا پر ابھریں۔ لوگ ابھی ان حالات پر انگشت بدندان ہی تھے کہ سوموار والے دن سوشل میڈیا پر پختوں لانگ مارچ کی ہمدردی میں ٹویٹس میں ایک نیا رنگ پیدا ہوا ، اس میں سب سے چکمدار رنگ افغانستان کے صدر کا تھا۔اس سال کا افتتاح امریکہ کے صدر نے اپنے ایک پاکستان مخالف ٹویٹ سے کیا تھا۔ اس سے دو ہفتے قبل امریکی وزیر خارجہ نے کوریا میں بیان دیا تھاکہ اگر پاکستان نے ڈو مور کے امریکی مطالبے پر عمل نہ کیاتو اپنے کچھ علاقوں پر حکمرانی سے محروم ہو سکتا ہے۔
قوالی گائیکی کا ایک انداز ہے جو بر صغیرمیں پایا جاتا ہے، علاقوں پر قبضے کی جنگ کے درمیان ٹویٹس کی قوالی کا پہلا مصرعہ کوریا ایک امریکی نے گایا ہے، واشنگٹن نے ساز کو چھیڑا ہے اور کابل نے سر میں سر ملا کر اپنا کھایا پیا حلال کیا ہے۔ اسی پر بس نہیں ہے بلکہ آنے والے دنوں میں ، موٹی توند والے، بہت لوگ بھارت اور خود پاکستان کے اندر سے اس قوالی کا حصہ بنیں گے۔مگر تاریخ سے بے بہرہ اور چمک کے شیدائی یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ قبائل وہ لوگ ہیں جو پاکستان سے محبت کرنے والی بہادر ماوں کا دودھ پی کر جوان ہوتے ہیں اور محنت مزدوری کو پرائے ڈالروں پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ اپنی آزادی چمک اور مفروضوں پر قربان نہیں کرتے بلکہ آزادی کی حفاظت کرتے ہیں۔ پاکستان اور پاکستان کے دفاع میں اس علاقے میں یہ اسلام اور پاکستان کا پہلا دفاعی حصار ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جب یہ کہتے ہیں ْ وہ مسلم جن کا نشانہ کابل ہے ، ایک دن یہ فیصلہ بھی کر سکتے ہیں کہ اسلام آباد ، کابل کی نسبت آسان ہدف ہے ْ تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جن کو وہ مسلم کہتے ہیں وہ مسلمان ہیں ان کا ہدف کابل نہیں بلکہ غیر ملکی طاقتوں کا افغانستان سے انخلاء ہے۔اور غیر ملکی فوجوں کو ایک دن افغانستان سے جانا ہی ہوگا۔ ایک زمانہ تھا جب امریکہ کی دھمکی پر حکمرانوں کی پتلون ڈھیلی ہو جاتا کرتی تھی۔امریکہ اس بات پر متعجب ہے کہ اس کی ایک فون کال پرڈھیر ہو جانے والوں کو کیا ہوا ہے کہ وہ کسی دھمکی پر خوفزدہ ہی نہیں ہوتے۔ امریکہ کو سمجھ لینا چاہیے کہ لیٹ جانے والے فرد تھے وہ قوم کے نمائندے نہیں تھے ۔ اب امریکہ کا پالا عوام کے منتخب کردہ رہنماوں سے ہے۔ فاٹا سے جو لوگ الیکشن جیت کراسمبلی میں پہنچے ہیں وہ عوام کی حقیقی منتخب آواز ہیں۔
اگر دشمن یہ سوچتے ہیں کہ وہ نقیب اللہ محسود کے خون پر ٖفاٹا کے لوگوں کی غیرت کا سودا کر لیں گے تو وہ جان لیں ان کی سوچ احمقوں والی ہے۔ پاکستان میں ہماری جوجدوجہد ایک محسود قبیلے کے نقیب اللہ کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے تمام بے گناہ نقیبوں کے لئے ہے ، ہم نے اس دھرنے کے بہانے چھ درجن سے زائد لاپتہ افراد کو ان کی ماوں تک پہنچا دیا ہے ، ہم نقیب کے قاتلوں کو بھی ڈہونڈ لیں گے مگر ۔۔۔ اے امن کے دشمنو! ہمیں تو خود تم پر شک ہے کہ تم نے ہی معصوم نقیب اللہ محسود کے قاتل راو انور کو چھپا کے رکھا ہوا ہے تاکہ تم غلط فہمیوں ، جھوٹ اور پروپیگنڈہ کے زور پر اس جنگ کو فاٹا کے اندر تک لا سکو۔