لیلا کا مجنوں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
لیلا کا مجنوں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 8 فروری، 2018

لیلا کا مجنوں



 مجنوں کا نام ، قیس بن الملوح بن مزاحم بن عدس بن ربیعہ بن جعدہ بن کعب بن ربیعہ بن عامر تھا۔ حضرت پیر علاء الدین صدیقی مرحوم (چانسلر محی الدین اسلامی یونیورسٹی نیاریاں شریف کشمیر)نے ایک بار اپنے درس میں فرمایا تھا کہ مجنوں ، حضرت امام حسن بن علی بن ابو طالب کا رضاعی بھائی تھا۔اور انھوں نے ہی قیس کو مجنوں کہا تھا۔ راویوں اور تاریخ دانوں نے اس کا سال پیدائش اور وفات 
645 - 688
شمار کیا ہے۔
جامع الازہر کے پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم نے لکھا ہے کہ لیلا بنت مہدی بن سعد ، قیس کی رشتے دار تھی۔ وہ انتہائی خوبصورت اور حسین ہونے کے ساتھ ایک شاعرہ بھی تھی ، قیس کی محبت کا دم بھرتی تھی ، اور قیس کے قصیدیوں پر شعروں میں جواب دیتی تھی۔ قیس نے لیلا کے لیے کہا 
ْ وہ ایک چاند ہے جو سرد رات میں آسمان کے وسط میں چمک رہا ہے۔وہ نہائت حسین ہے ، اس کی آنکھیں اس قدر سیاہ ہیں کہ انھیں سرمے کی ضرورت ہی نہیں ْ تو لیلا نے اپنی ایک سہیلی سے پوچھا کیا میں واقعی ایسی ہوں ؟ تو اس کی سہیلی نے کہا ْ وہ جھوٹی تعریف نہیں کرتا، تم ایسی ہی صاحب جمال ہو جیسا کہ قیس کہتا ہےْ 
دونوں کی اس محبت نے قبیلہ میں شہرت پائی تو سب سے پہلے قیس کے والد نے اس رشتے سے انکار کیا کیونکہ قیس کے والد کا اپنے عزیزسے میراث پر جھگڑا تھا۔ قیس نے گھر والوں کی مرضی کے خلاف اپنے چچا سے لیلا کا رشتہ مانگا ، اس نے مہر کے لیے پچاس سرخ اونٹ اور ایک بڑی رقم بھی جمع کر لی تھی مگر لیلہ کے والد نے قبیلہ میں اپنی بدنامی کے ڈر سے اس رشتے سے انکار کر دیا اور لیلا کی شادی طائف کے علاقے کے قبیلہ الثقیف میں ایک نوجوان ورد سے کر کے اسے طائف بجھوا دیا،تو قیس اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا اور صحرا میں دشت نوردی شروع کر دی وہ شام، نجد اور حجاز کے علاقے میں ویرانوں کی خاک چھانتے چھانتے لیلا کے گھر شہر طائف جا پہنچا اور لیلا کے خاوند کے سامنے شعر پڑہے۔ جن کا مطلب یوں ہے
ْ تجھے رب کا واسطہ کیا تو نے صبح ہونے سے پہلے لیلا کو آغوش میں لیایا اس کا منہ چومایا اس کی شبنمی زلفیں تجھ پر نازک پھولوں کی طرح لہراہیں ۔ جیسے کہ خوشبو ہوْ 
ورد نے کہا جب تم نے رب کا واسطہ دے ہی دیا ہے تو میرا جواب ہاں میں ہے ۔ یہ سن کر قیس بے ہوش ہو گیا۔
 قبیلے کے لوگوں نے قیس کے والد کو مشورہ دیا کہ وہ قیس کو مکہ بیت اللہ کی زیارت کے لئے لے جائے اور قیس کو کہے کہ وہ کعبے کے پردے کو پکڑ کر لیلا کو بھول جانے کی دعا کرے۔ قیس کا والد اسے مکہ لے گیا قیس نے کعبے کے پردے کو پکڑ کر دعا کی 
ْ اے اللہ مجھے لیلا اور اس کی قربت عطا فرما ْ قیس کا باپ الملوح اسے واپس لے آیا۔
ادہر لیلا کو قیس کی حالت معلوم ہوئی تو اس کو بخار ہونا شروع ہو گیا۔اور بیماری ہی کی حالت میں فوت ہو گئی۔ کہا جاتا ہے قیس لیلا کی قبر کے گردا گرد ہی رہتا ۔ اس نے قبر کے نزدیک ایک چٹان پر کچھ شعر کنندہ کر دیے تھے۔اس کی موت بھی لیلا کی قبر کے پاس ہی ہوئی تھی کہ اس کے گھر والوں نے اس کی میت لیلا کی قبر کے پاس پتھروں سے اٹھائی تھی۔
Yemen Times 16 October 2014
نے سعودی عرب کی ایک بائیس سالہ ھدیٰ نامی لڑکی کی داستان چھاپی تھی جو ایک یمنی نوجوان عرفات ،جو سعودیہ میں ملازمت کرتا تھا ،کی محبت میں گرفتار ہو گئی تھی ، عرفات کی درخواست پر ھدی ٰ کے والد نے یہ رشتہ نامنظور کر دیاتو محبت کی ماری ھدیٰ سعودیہ سے بھاگ کر یمن جا پہنچی تھی۔ یمن کی سرحدی انتطامیہ نے اسے غیر قانونی طور پر ملک میں داخلے پر جیل میں ڈال دیا تو عرفات نام کے مجنوں نے جیل سے جانے سے انکار کردیا۔
  لیلہ کے والد نے بھی ھدی کے والد کی طرح , اپنی بیٹی کی شادی اس کی مرضی سے کرنے سے انکار کر دیا  تھا ۔ اور یہ واقعہ ساتویں صدی عیسوی کا ہے جو پدری برتری کا تھا مگر اکیسویں صدی میں بھی یہ برتری قائم و دائم ہے ۔ صرف چودہ صدیاں ہی بدلی ہیں