اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بیان لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بیان لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 4 اکتوبر، 2017

اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بیان


فرما دیجئے ہر کوئی اپنے طریقہ فطرت پرعمل پیرا ہے (بنی اسرائیل :84 ) حضرت زید بن اسلم سے روائت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نمرود کے پاس ایک فرشتہ بھیجاتاکہ وہ اسے اللہ کی ذات پر ایمان کی دعوت دے،فرشتے نے دعوت دی نمرود نے انکارکیا۔دوسری دفعہ پھر دعوت دی ا س نے پھر انکار کیا،تیسری دعوت پر انکار کرتے ہوئے اس نے کہا تم اپنے لشکر لے آو میں اپنا لشکر لے کر آتا ہوں،دوسرے دن نمرود نے اپنا سارا لشکر جمع کیا،اللہ تعالیٰ نے ان کے مقابلے میں مچھر بجھوا دیے،ان مچھروں نے سارے لشکر کا گوشت نوچ لیا اور صرف ہڈیاں رہ گئیں،ایک لنگڑا مچھر نمرود کے ناک میں گھس گیاتو نمرود بھاگ کھڑا ہوا،وہ سمجھا کہ شائد وہ بھاگ کر عذاب سے بچ جائے گا۔وہ مچھر چار سو سال تک اس کے دماغ میں گھسا رہا،حالانکہ مچھرکی اوسط عمر دو دن سے بھی کم ہوتی ہے،جب مچھر اس کے دماغ میں حرکت کرتا تو اس کو سر میں سخت خارش کی تکلیف ہوتی، اس تکلیف کا مداوا کرنے کے لیے اس کے سر پر پٹائی کی جاتی۔
اللہ تبارک تعالیٰ نے آگ میں اشیاء کے جلا ڈالنے کی صلاحیت رکھ دی ہے، لیکن ہر مخلوق ، خالق قدیم کے حکم کے جبر میں جکڑی ہوئی ہے اور جب اسے اپنی صلاحیت کے برعکس حکم ملتا ہے تو اس کے عمل سے عبدیت ہی کا اظہار ہوتا ہے۔جب حضرت خلیل اللہ علیہ و علی نبینا صلاۃ و سلام کو آگ میں جلانے کے لئے ان کو منجیق کے ذریعے آگ کے الاو میں پھینک دیا تو جلانے والی آگ حضرت جد محمد ﷺ کے لئے سلامتی والی بن گئی۔
پانی کو عمومی حکم بہا لے جانے ہے یا پھر اسکو ڈبو دینے کی صلاحیت عطا کی گئی ہے ۔مگر جب اس کو اس فطری صلاحیت کے برعکس چھوڑ دینے کا حکم ملتا ہے تو اس حکم کی تعمیل بھی مخلوق کی مجبوری ہے۔اورہم پانی پر چلنے کے واقعات پڑہتے ہیں۔چھری کی فطرت کاٹنا اور ٹکڑے کر دینا ہوتا ہے مگر جب اس کو حکم دے دیا جائے تو اپنے کاٹنے کی صلاحیت کے باوجود وہ کاٹتی نہیں اورنبی اکرم ﷺکے جد امجدکے ذبح کا معروف واقعہ ہمارے سامنے ہے 
ابرہہ نامی دشمن خدا نے جن بیت اللہ شریف کو اکھاڑ پھینکنا چاہا تو مکہ مکرمہ پر ہاتھیوں سے حملہ آور ہونے کا اردہ کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لشکر کو ابابیل جیسے ننھے پرندوں سے کھائے ہو بھس کی طرح تباہ کر دیا۔
مالک کعبہ نے ابابیلاں نوں جنگ دا ہنر سکھایا مکے وچ داخل ہون نہ دتا جو دشمن بن کے آیا
اللہ تعالی ٰ کی قدرت خود ہی رستہ بناتی ہے خود ہی اسباب پیدا ہوتے ہیں اور خود ہی حتمی فیصلہ صادر ہوتا ہے۔حضرت موسیٰ کو خود دشمن کے گھر میں پالا۔ بی بی آسیہ کو اس دنیا میں کس کی بیوی بنایا اور آخرت میں اس ہیرے کو کس تاج میں جڑے گا۔ 
یہ ساری حکائیتیں بیان کر کے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ خالق قدیم کی قوت و استعداد اس قدر زیادہ ہے کہ انسان ہی نہیں ہر کاہنات کا ہر ذرہ و ہر گلیکسی glaxy اس کی قدرت کے سامنے ایسے بے بس و مجبور ہے کہ مخلوق اپنی جبلی فطرت پر عمل پیرا تو ہے ہی مگر جب اس کو حکم ملتا ہے تو وہ اپنی جبلیت کے برعکس اتباع حکم بجا لا کر انسان و جنات میں اس جبر یت کی تذکیر کرتی ہے جو ذات قدیم کی ٖصفات میں سے ایک صفت ہے،
اللہ تعالیٰ نے کشتی کے سمندر میں تیرنے کے عمل کو اپنی قدرت کا مظہر فرمایا۔ انسانی عقل تسلیم کرتی ہے کہ کشتی اور اس پر ڈالے گئے وزن میں ایک خاص نسبت ہے جو کشتی کے پانی پر رہنے کی جبلت کو بیان کرتی ہے لیکن جب اسی اصول کو اپناتے ہوئے انسان نے ٹائی ٹینک نامہ بحری جہاز بناکر یہ دعویٰ کیا کہ یہ کبھی ڈوبے گا نہیں تو وہ اپنے پہلے سفر کے دوران ہی ڈوب گیااورانسان کو متنبع کر گیا کہ اصول و ضابطہ ،فطرت و جبلت پر بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت حاکم ہے۔رب محمد ﷺ کا انسان پر یہ احسان ہے کہ وہ متواتر ایسے واقعات کا ظہور فرما کر اپنی حاکمیت کی تذکیر کا اعادہ کراتا رہتا ہے کیونکہ انسان سنی ہوئی کی نسبت دیکھی ہو ے واقعہ سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ دنیا میں ہر انسان جس کی عمر چالیس سال ہو گئی ہو وہ کم از کم ایک ایسے واقعے کا عینی شائد ہوتا ہے جو اس کی روح کو جنجھوڑ کر یقین دلاتا ہے کہ قدرت الہی ہر اصول و ضابطے اور قانون و اصول پر حاوی ہے۔اور حیران کن طور پر مخلوق اپنی جبلت وفطرت کے برعکس عمل کر کے بھی اپنی فطرت کو قائم رکھتی ہے۔ 
معبود کی قوت واستعداد کا ادراک عابد کو تقدیر پر یقین دلا کر ہی رہتا ہے، یہ یقین ہی انسان کا سرمایہ بنتا ہے جو اس کو اپنی سعی و اعمال ہی نہیں بلکہ خیالات و نیت کو بھی جلا بخشتا ہے۔

* * *