sohrwadi لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
sohrwadi لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 18 دسمبر، 2018

اسکندر مرزا کون تھا

اسکندر مرزا
------------                                                                         
مشرقی پاکستان ملک کا سب سے بڑا صوبہ تھا، جس کی آبادی ، مغربی حصے میں شامل چاروں صوبوں کی آبادی سے زیادہ تھی ۔ علیحدگی کے وقت ملک کی آبادی کا 56٪ مشرقی پاکستان میں تھا۔اصل طاقت بیورو کریسی کے پاس تھی ۔ جب 1958 میں جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا اس وقت اسکندر مرزا پاکستان کے صدر تھے۔ اسکندر مرزا آزادی سے قبل انگریز گورنمنٹ کے ڈیفنس سیکریٹری تھے۔ پاکستان میں بھی وہ اس پوسٹ پر قائم رہے ۔ رائل ملٹری کالج سینڈہرسٹ، لندن کے گریجویٹ میجر جنرل اسکندر مرزا کے برطانوی بیوروکریسی اور برطانوی فوج کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ ان کے انڈین پولیٹیکل سروس کے منتخب ہونے میں بھی انگریز کا ان اعتماد شامل تھا ۔وہ اسسٹنٹ کمشنر سے ترقی کرتے ہوئے ملک کے سب سے بڑے عہدے پر پہنچے تھے ۔ ان کو جہاں انگریز کا اعتماد حاصل تھا وہین مقامی سرکاری عہدے داروں میں بھی ان کا اثر و رسوخ تھا اسکندر مرزا کی ایک بیوی ’ناہید‘ ابراہیم مرزا امیر تیموری کلالی کی بیٹی تھی اور ناہید کی ماں ایرانی حکمراں رضا شاہ پہلوی کی بھتیجی تھی۔ اس کے بیٹے ہمایوں مرزا کی شادی اُس وقت کے امریکی سفیر کی بیٹی سے ہوئی تھی۔کراچی مین امریکہ سفارت خانہ ان دنوں سیاسی جوڑ توڑ اور علاقائی سفارتی اور سیاسی سرگمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ایران کے شہنشاہ علاقے میں مغربی طاقتوں کے سب سے بڑے حلیف ہوا کرتے تھے۔لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جب بنگال سے تعلق رکھنے والے خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم بنے تو سکندرمرزا کو پاکستان کا گورنر جنرل بنا دیا گیا۔پھر اس عہرے کو صدر سے بدل دیا گیا۔ حتمی اختیارات صدر ہی کے پاس ہوا کرتے تھے ۔اسکندر مرزا کا خیال تھا کہ اب وہ ساری عمر صدر کے عہدے پر فائز رہیں گے۔انھوں نے جوڑ توڑ اور سیاسی عہدوں کو اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔ ملک کے اکثریتی صوبے کے سیاسی رہنماوں کو اس نے مہرے سمجھا ۔ بنگالیوں سے حسین شہید سہروردی کی برطرفی ہضم نہ ہو سکی ۔ بنگالیوں کے ذہنوں میں شکوک پیدا کر دیے گئے اور مغربی پاکستان کے لوگوں کے خلاف کے خلاف ایسے بیج بوئے جو وقت کے ساتھ ساتھ نفرت مین تبدیل ہو گئے۔مشرقی پاکستان میں کہیں بھی جاگیر داری نہ تھی ۔ بنگالی غریب اور نڈر تھے ۔ وڈیرہ شاہی انھیں مرعوب نہ کر سکی۔ مغربی پاکستان میں مجیب کو منشی کا بیٹا کہا جاتا تھا تو مشرقی پاکستان میں اس بات پر ناز کیا جاتا تھا کہ ان کا لیڈر ان ہی مین سے ہے۔بنگال کے بارے میں قائد اعظم نے ایک بار کہا تھا کہ وہ خود اپنی ذات میں ایک بر اعظم ہے۔ مگر قائد جیسا رہنمااب پاکستان میں کوئی بھی نہ تھا۔ قائد نے تو اپنا تن ، من دھن سب کچھ ہی اپنی قوم پر نچھاور کر دیا تھا۔ بنگالیوں میں سیاسی ادراک علاقے کے دوسروے لوگوں سے بڑھ کر تھا۔ یہی سبب تھا جب قائد نے ڈھاکہ میں اعلان کیا کہ بنگلہ اور اردو کی بجائے صرف اردو پاکستان کی زبان ہو گئی تو بھی قائد اعظم زندہ باد ہی کا نعرہ بلند ہوا تھا۔ قائد اعظم کے بعد 1971 تک جو بھی آیا حکمران ہی بن کر آیا۔ عوام رہنما اور حکمران کے فرق کو خوب سمجھتی ہے ۔ اسکندر مرزا اول دن سےحکمران تھا۔ اس کو دھکا دے کر اس کی کرسی پر براجمان ہونے والا ایوب خان بھی حکمران تھا۔عوام کو نظر آتا تھاسہروردی نے پاکستان اٹامک کمیشن کی بنیاد رکھی ۔ عوام جانتے تھے چین کا پہلا دورہ کس نے اور کیون کیا ہے۔عوام کو نظر آتا تھا کہ وقت کے جبر کےہاتھوں معتوب ہو کر جیل جانے والا کون ہے اور کرسی چھن جانے پر لندن چلے جانے والا کون ہے۔ اسکندر مرزا اور سہروردی مین فرق عوام کو نظر آتا تھا۔اسکندر مرزاکا وارث جنرل ایوب بنا تو عوام نے سہروردی کا وارث مجیب الرحمن کو بنا لیا۔
سال 1958 میں جنرل ایوب نے اسکندر مرزا کی کرسی پر قبضہ کر لیا تو اسکندر مرزا کو احساس ہوا کہ اس سے بنیادی غلطی یہ ہو گئی ہے کہ بیورو کریٹ ہمیشہ طاقت ور سے بنا کر رکھتا ہے ۔یہ اصول نواب سراج الدولہ کے بیورو کریٹ میر جعفر کو تو یاد تھا مگر اس کے ہونہار پڑپوتے کو یاد نہ رہا۔البتہ انگریز کو داد دینی پڑے گی کہ اس نے میر جعفر کے احسان کو یاد رکھا ہوا تھا اور جب اسکندر مرزا لندن پہنچا تو اس کی رہائش کے سارے اخراجات تا عمرانگریز نے برداشت کیے ۔ 1969میں اس کی موت پر ایران کے شہنشاہ نے برطانیہ کے کہنے پر اسکندر مرزا کی میت خصوصی طیارے سے لندن سے تہران منگائی اور تہران میں سرکاری اعزاز ک ساتھ دفن کیا۔ تہران میں اس قبر کو اس وقت سے سرکاری تحفظ حاصل ہےجب سے اس کو اکھاڑنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ اسکندر مرزا کے ہاتھون معتوب ہونے والے سید حسین شہید سہروردی کی قبر پر اج بھی بنگالی ہی نہیں پاکستانی بھی پھول چڑھاتے ہیں۔