Ayub Khan لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Ayub Khan لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 31 دسمبر، 2018

کتا ۔۔ہائے ہائے


قدرت اللہ شہاب صاحب نے لکھا ہے کہ ایک دن جنرل ایوب گھر سے نکلے ، راستے میں لڑکے نعرے لگا رہے تھے۔ ایوب خان نے اپنے ڈرائیور سے پوچھا لڑکے کیا کہہ رہے ہیں۔ ڈرائیور کو ہمت نہ ہوئی مگر ایوب خان کے اصرار پر جب ڈرائیور نے حقیقت بیان کی تو ایوب خان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ انھوں نے گاڑی کا رخ گھر کی طرف موڑنے کا کہا اور گھر جا کر استعفیٰ دے دیا۔
ضیاء شائد صاحب نے لکھا ہے کہ لاہور میں دو کتوں کے گلے میں ْ ایوب کتا ہاے ہائے ْ کی تختی ڈالی گئی۔ اس کی تصویر بناکر ایوب خان کو دکھائی گئی تو ایوب خان نے استعفیٰ دے دیا۔
ْ ایوب کتا ۔۔ہائے ہائے ْ کا نعرہ ہمارے سامنے راولپنڈی کے لیاقت باغ کے گیٹ کے سامنے مری روڈ پر ۷ نومبر ۱۹۶۸ کو لگایا گیا تھا۔ نعرہ لگوانے والا نوجوان عبدلحمید تھا جو راولپنڈی پولی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ جوپشاور روڈ پر گولڑہ موڑ سے پشاور کی طرف جاتے ہوئے سڑک کے کنارے واقع تھا ( جنرل ضیاء کے دور میں اس سول ادارے کو عسکری ادارہ بنا دیاگیا تھا ) کا طالب علم تھا اور اسے پولیس نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
اس نعرے کو عسکری حکمرانی سے جمہوری سفر کے آغاز کی نوید بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ اور کچھ بنیادی حقائق سے جان بوجھ کر چشم پوشی کی جاتی ہے ۔ 
۵ ۱۹۶ کی پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان غذائی قلت کا شکار ہو گیا تھا۔ ایوب خان کے لائق وزیر زراعت خدا بخش بچہ کی درخواست پر امریکہ نے سرخ رنگ کی موٹے دانوں والی دہرے خواص والی مکئی پاکستان بجھوائی تھی ۔ اس مکئی کی پہلی خاصیت اس کا بد ذائقہ ہونا اور دوسری خاصیت یہ تھی کہ حلق سے نیچے مشکل سے اترتی تھی۔ قلت میں چینی بھی شامل تھی ۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اس کی قیمت میں ۲۵ فیصد اضافہ کر دیا گیا یعنی ایک روپیہ سیر کی بجائے سوا روپے سیر ۔ ملک بھرمیں پائی جانے والی تشویش کو مجتمع ہوتے ہوتے تین سال لگ گئے ۔ یاد رہے اس وقت سوشل میڈیا تھا نہ ٹی وی۔ خبر چیونٹی کی چال رینگتی تھی۔ جب تشویش نے مظاہروں کا روپ دھارا تو اس وقت ملک میں اختیارات کا منبع جرنل ایوب خان تھا اور وہ لاہور کے فورٹریس سٹیڈیم میں اپنا دس سالہ اقتدار کا جشن ْ عشرہ ترقی ْ کے نام سے منا رہا تھا۔ گو پاکستان ایک وکیل نے بنایا تھا مگر ہراول دستے کا کردار طلباء نے ادا کیا تھا۔ ملک میں طلباء کی یونینز کافی مضبوط تھیں۔ لاہور کے جشن دس سالہ کے دوران لاہور کے طالب علم سٹیڈم کے گیٹ توڑ کر اندر داخل ہوئے ۔مشرقی پاکستان میں ڈھاکہ اور دوسرے مقامات پر بھی طلباء نے ہڑتال اور ہنگامے شروع کر دیے۔ دس سالہ ترقی کی سیٹی بجاتی ٹرین کو بہاولپور میں نذر آتش کر دیا گیاتھا۔۷ دسمبر کو ایوب خان کے ڈھاکہ کے دورے کے دوران پولیس کی گولی سے دو افراد جان بحق ہو گئے تھے۔
اس وقت سوویت یونین اپنی سیاسی طاقت کے عروج پر تھا۔ چین سے ماوزے تنگ کی عطا کردہ ٹوپی مغربی پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو کے سر پر تھی تو مشرقی پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی کے بعدمولانا بھاشانی کی قیادت میں نیشل عوامی پارٹی منظم ہو چکی تھی۔ ملک کے دونوں حصوں میں کمیونزم اور کیپیٹل ازم ننگی تلواریں لیے مد مقابل تھے ۔ اسلامی ذہن کی سیاسی جماعتیں اور جنرل ایوب موجود نظام کے محافظ تھے تو مغربی پاکستان میں بھٹو اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب سرخ انقلاب کے داعی تھے۔ قحط کی ماری قوم سے ایک جلسے میں ایک مذہبی سیاسی رہنماء (جماعت اسلامی کے امیر )نے ایک ہاتھ میں روٹی اور دوسرے ہاتھ میں قران پاک اٹھا کر عوام سے پوچھا کہ روٹی کو ترجیح دو گے یا قران کی حفاظت کرو گے۔ عوام نے شیخ مجیب اور بھٹو کو منتخب کر کے روٹی کو اہمیت دی ۔ ان دنوں ایک جلسے میں نعرہ بلند ہوتا تھا ایشیاء سرخ ہے تو دوسرے دن اسی مقام پر ایشیاء کے سبز ہونے کی نوید سنائی جاتی تھی ۔ جنگ دائیں اوربائیں بازو کی تھی۔ جسے کفر و اسلام کی جنگ بنا دیا گیا تھا۔ 
ایوب کتا ۔۔ ہائے ہائے کے نعرے لگانے والے کوئی زیادہ جمہوریت پسند نہ تھے ۔ جب ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ کوجنرل یحییٰ خان نے اپنے بھائی آغا محمد علی (جو انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ تھے) کی مدد سے فیلڈ مارشل ایوب خان سے پہلے سے ٹائپ شدہ پر دستخط کرائے تو ایشیا سبز ہے کے نعرے لگانے والے مطمن ہو کر گھر چلے گئے ۔ اور سرخوں نے بھی کمیونزم کو
لپیٹ کر اسلامی سوشلزم کو برامد کر لیا۔ 
اس دور سے تھوڑا پیچھے جائیں تو آپ اس حقیقت کو بھی دریافت کرسکتے ہیں کہ پاکستان کے مطالبے کے پیچھے بنیادی عنصر یہ تھا کہ کانگریس نے ذہن بنا لیا تھا کہ مسلمانوں کو شیڈولڈ کاسٹ میں رکھنا ہے ۔ مسلمانوں کو کانگریس کی اس سوچ سے اختلاف پیداہوا۔ مسلم لیگ نے جنم لیا اور پاکستان بن گیا۔ عزت نفس بنیادی انسانی حق ہے۔ ممتاز صحافی علی احمد خان نے اپنی کتاب ْ جیون ایک کہانی ْ میں لکھا ہے کہ وہ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں مادر ملت کے جلسے میں جا رہے تھے۔ راستے میں ایک جگہ سڑک کٹی ہوئی تھی اور گاڑی کو گذارنے کے لیے تختوں کی ضرورت تھی۔ گرد و نواح کے گاوں کے لوگ بھی وہاں جمع تھے اور ہماری پریشانی کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ گاڑی نے بنگالی ڈرائیور نے انھیں تختے لانے کے لیے کہاتو ان میں ایک ادھیڑ عمر کے شخص نے پوچھا کس کی طرف سے آئے ہو؟ ڈرائیور نے بتایا مادر ملت فاطمہ جناح کی طرف سے ۔ بنگالی نے کہا ایسا بولو نا ۔۔ تمھاری گاڑی کو تو ہم کندہوں پر اٹھا کر پار کرا دیتے ہیں۔اس جلسے نے ثابت کر دیا تھا مادر ملت نے میدان مار لیا ہے ۔ مگر ایوب خان کی انتخابات میں دھاندلی نے عوام سے شراکت اقتدار کی امید ہی چھین لی تھی۔ جب امیدین چھین لی جائیں توبقول صاحب طلوع ارشاد احمد عارف ْ ایوب کتا ۔۔ہائے ہاے ْ کے نعرے گھر کے اندر معصوم نواسے بھی لگاتے ہیں۔

منگل، 18 دسمبر، 2018

اسکندر مرزا کون تھا

اسکندر مرزا
------------                                                                         
مشرقی پاکستان ملک کا سب سے بڑا صوبہ تھا، جس کی آبادی ، مغربی حصے میں شامل چاروں صوبوں کی آبادی سے زیادہ تھی ۔ علیحدگی کے وقت ملک کی آبادی کا 56٪ مشرقی پاکستان میں تھا۔اصل طاقت بیورو کریسی کے پاس تھی ۔ جب 1958 میں جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا اس وقت اسکندر مرزا پاکستان کے صدر تھے۔ اسکندر مرزا آزادی سے قبل انگریز گورنمنٹ کے ڈیفنس سیکریٹری تھے۔ پاکستان میں بھی وہ اس پوسٹ پر قائم رہے ۔ رائل ملٹری کالج سینڈہرسٹ، لندن کے گریجویٹ میجر جنرل اسکندر مرزا کے برطانوی بیوروکریسی اور برطانوی فوج کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ ان کے انڈین پولیٹیکل سروس کے منتخب ہونے میں بھی انگریز کا ان اعتماد شامل تھا ۔وہ اسسٹنٹ کمشنر سے ترقی کرتے ہوئے ملک کے سب سے بڑے عہدے پر پہنچے تھے ۔ ان کو جہاں انگریز کا اعتماد حاصل تھا وہین مقامی سرکاری عہدے داروں میں بھی ان کا اثر و رسوخ تھا اسکندر مرزا کی ایک بیوی ’ناہید‘ ابراہیم مرزا امیر تیموری کلالی کی بیٹی تھی اور ناہید کی ماں ایرانی حکمراں رضا شاہ پہلوی کی بھتیجی تھی۔ اس کے بیٹے ہمایوں مرزا کی شادی اُس وقت کے امریکی سفیر کی بیٹی سے ہوئی تھی۔کراچی مین امریکہ سفارت خانہ ان دنوں سیاسی جوڑ توڑ اور علاقائی سفارتی اور سیاسی سرگمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ایران کے شہنشاہ علاقے میں مغربی طاقتوں کے سب سے بڑے حلیف ہوا کرتے تھے۔لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جب بنگال سے تعلق رکھنے والے خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم بنے تو سکندرمرزا کو پاکستان کا گورنر جنرل بنا دیا گیا۔پھر اس عہرے کو صدر سے بدل دیا گیا۔ حتمی اختیارات صدر ہی کے پاس ہوا کرتے تھے ۔اسکندر مرزا کا خیال تھا کہ اب وہ ساری عمر صدر کے عہدے پر فائز رہیں گے۔انھوں نے جوڑ توڑ اور سیاسی عہدوں کو اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔ ملک کے اکثریتی صوبے کے سیاسی رہنماوں کو اس نے مہرے سمجھا ۔ بنگالیوں سے حسین شہید سہروردی کی برطرفی ہضم نہ ہو سکی ۔ بنگالیوں کے ذہنوں میں شکوک پیدا کر دیے گئے اور مغربی پاکستان کے لوگوں کے خلاف کے خلاف ایسے بیج بوئے جو وقت کے ساتھ ساتھ نفرت مین تبدیل ہو گئے۔مشرقی پاکستان میں کہیں بھی جاگیر داری نہ تھی ۔ بنگالی غریب اور نڈر تھے ۔ وڈیرہ شاہی انھیں مرعوب نہ کر سکی۔ مغربی پاکستان میں مجیب کو منشی کا بیٹا کہا جاتا تھا تو مشرقی پاکستان میں اس بات پر ناز کیا جاتا تھا کہ ان کا لیڈر ان ہی مین سے ہے۔بنگال کے بارے میں قائد اعظم نے ایک بار کہا تھا کہ وہ خود اپنی ذات میں ایک بر اعظم ہے۔ مگر قائد جیسا رہنمااب پاکستان میں کوئی بھی نہ تھا۔ قائد نے تو اپنا تن ، من دھن سب کچھ ہی اپنی قوم پر نچھاور کر دیا تھا۔ بنگالیوں میں سیاسی ادراک علاقے کے دوسروے لوگوں سے بڑھ کر تھا۔ یہی سبب تھا جب قائد نے ڈھاکہ میں اعلان کیا کہ بنگلہ اور اردو کی بجائے صرف اردو پاکستان کی زبان ہو گئی تو بھی قائد اعظم زندہ باد ہی کا نعرہ بلند ہوا تھا۔ قائد اعظم کے بعد 1971 تک جو بھی آیا حکمران ہی بن کر آیا۔ عوام رہنما اور حکمران کے فرق کو خوب سمجھتی ہے ۔ اسکندر مرزا اول دن سےحکمران تھا۔ اس کو دھکا دے کر اس کی کرسی پر براجمان ہونے والا ایوب خان بھی حکمران تھا۔عوام کو نظر آتا تھاسہروردی نے پاکستان اٹامک کمیشن کی بنیاد رکھی ۔ عوام جانتے تھے چین کا پہلا دورہ کس نے اور کیون کیا ہے۔عوام کو نظر آتا تھا کہ وقت کے جبر کےہاتھوں معتوب ہو کر جیل جانے والا کون ہے اور کرسی چھن جانے پر لندن چلے جانے والا کون ہے۔ اسکندر مرزا اور سہروردی مین فرق عوام کو نظر آتا تھا۔اسکندر مرزاکا وارث جنرل ایوب بنا تو عوام نے سہروردی کا وارث مجیب الرحمن کو بنا لیا۔
سال 1958 میں جنرل ایوب نے اسکندر مرزا کی کرسی پر قبضہ کر لیا تو اسکندر مرزا کو احساس ہوا کہ اس سے بنیادی غلطی یہ ہو گئی ہے کہ بیورو کریٹ ہمیشہ طاقت ور سے بنا کر رکھتا ہے ۔یہ اصول نواب سراج الدولہ کے بیورو کریٹ میر جعفر کو تو یاد تھا مگر اس کے ہونہار پڑپوتے کو یاد نہ رہا۔البتہ انگریز کو داد دینی پڑے گی کہ اس نے میر جعفر کے احسان کو یاد رکھا ہوا تھا اور جب اسکندر مرزا لندن پہنچا تو اس کی رہائش کے سارے اخراجات تا عمرانگریز نے برداشت کیے ۔ 1969میں اس کی موت پر ایران کے شہنشاہ نے برطانیہ کے کہنے پر اسکندر مرزا کی میت خصوصی طیارے سے لندن سے تہران منگائی اور تہران میں سرکاری اعزاز ک ساتھ دفن کیا۔ تہران میں اس قبر کو اس وقت سے سرکاری تحفظ حاصل ہےجب سے اس کو اکھاڑنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ اسکندر مرزا کے ہاتھون معتوب ہونے والے سید حسین شہید سہروردی کی قبر پر اج بھی بنگالی ہی نہیں پاکستانی بھی پھول چڑھاتے ہیں۔