حجر اسود لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
حجر اسود لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 17 مئی، 2018

حجر اسود

حجر اسود


ذی الحجہ 317 ھ کو بحرین کے حاکم ابو طاہر سلیمان قرامطی نے مکہ معظمہ پر قبضہ کرلیا۔ خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ اس سال حج بیت اللہ نہ ہوسکا، کوئی بھی شخص عرفات نہ جاسکا۔ یہ اسلام میں پہلا ایسا موقع تھا کہ حج بیت اللہ موقوف ہوگیا، اسی ابوطاہر قرامطی نے حجر اسود کو بیت اللہ سے نکالا اور اپنے ساتھ بحرین لے گیا۔ پھر بنو عباس کے خلیفہ مقتدر باللہ نے ابوطاہر کے ساتھ معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا اور تیس ہزار دینار دیئے اور حجر اسود خانہ کعبہ کو واپس کیا گیا۔ یہ واپسی 339 ھ کو ہوئی، گویا بائیس سال تک خانہ کعبہ حجر اسود سے خالی رہا۔ جب فیصلہ ہوا کہ حجراسود کو واپس کیا جائے گا تو اس سلسلے میں خلیفہ وقت نے ایک بڑے عالم محدث عبداللہ کو حجراسود کی وصولی کے لئے ایک وفد کے ساتھ بحرین بھجوایا۔ یہ واقعہ علامہ سیوطی کی روایت سے اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ جب شیخ عبداللہ بحرین پہنچے تو بحرین کے حاکم نے ایک تقریب کا اہتمام کیا جہاں حجر اسود کو اُن کے حوالہ کیا جائے گا۔ اب انہوں نے ایک پتھر جو خوشبودار تھا ، خوبصورت غلاف سے نکالا کہ یہ حجر اسود ہے اسے لے جائیں۔ محدث عبداللہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ حجر اسود میں دو نشانیاں ہیں اگر اس میں یہ نشانیاں پائی جائیں تو یہ حجر اسود ہوگا ورنہ نہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ ڈوبتا نہیں ہے، دوسری یہ کہ آگ سے بھی گرم نہیں ہوتا۔ اس پتھر کو جب پانی میں ڈالا گیا تو ڈوب گیا پھر آگ میں اسے ڈالا گیا تو سخت گرم ہوگیا یہاں تک کہ پھٹ گیا۔ محدث عبداللہ نے فرمایا یہ ہمارا حجر اسود نہیں ۔ پھر دوسرا پتھر لایا گیا اس کے ساتھ بھی یہی عمل ہوا اور وہ پانی میں ڈوب گیا اور آگ پر گرم ہوگیا، فرمایا کہ ہم اصل حجر اسود ہی لیں گے۔ پھر اصل حجراسود لایا گیا اور آگ میں ڈالا گیا تو ٹھنڈا نکلا پھر پانی میں ڈالا گیا تو وہ پھول کی طرح پانی کے اوپر تیرنے لگا تو محدث عبداللہ نے فرمایا ، ’’یہی ہمارا حجراسود ہے اوریہی خانہ کعبہ کی زینت ہے اور یہی جنت والا پتھر ہے‘‘۔ اس وقت ابوطاہر قرامطی نے تعجب کیا اور پوچھا کہ یہ باتیں آپ کو کہاں سے ملی ہیں ؟تو محدث عبداللہ نے فرمایا: یہ باتیں ہمیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی ہیں کہ حجر اسود پانی میں ڈوبے گا نہیں اور آگ سے گرم نہیں ہوگا۔ ابوطاہر نے کہا کہ یہ دین روایات سے بڑا مضبوط ہے۔ جب حجر اسود مسلمانوں کو مل گیا تو اسے ایک کمزور اونٹنی کے اوپر لادا گیا جس نے تیز رفتاری کے ساتھ اسے خانہ کعبہ پہنچا یا، اس اونٹنی میں زبردست قوّت آگئی اس لئے کہ حجراسود اپنے مرکز (بیت اللہ) کی طرف جارہا تھا لیکن جب اسے خانہ کعبہ سے نکالا گیا تھا اور بحرین لے جارہے تھے تو جس اونٹ پر لادا جاتا وہ مرجاتا حتیٰ کہ بحرین پہنچنے تک چالیس اونٹ اس کے نیچے مرگئے۔‘‘
(تاریخ مکہ للطبری)