Dilpazir Ahmad ، اردوکالم،دھرنےکی سیاست لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Dilpazir Ahmad ، اردوکالم،دھرنےکی سیاست لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 11 مارچ، 2022

دھرنے کی سیاست



فرض کریں عمران خان ایک نااہل، غیر ذمہ دار، متکبر، ضدی اور بد زبان وزیر اعظم ہے۔ یہ بھی مان لیتے ہیں عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، وزیر اعظم کا دفتر اور درجنوں ترجمان چور اور ڈاکو کا راگ مسلسل دہرائے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں سیاست سیاسی بیانیوں سے نکل کر لانگ مارچ کرتے ہوئے عدم اعتماد کی تحریک پر سانس لینے کو رکی ہی تھی کہ اسلام ٓباد میں پارلیمان کے احاطے میں موجود ممبران کے لاجز میں پولیس کا اپریشن ہو گیا۔ اپریشن کے فوری بعد وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کر کے اپوزیشن کو حکومتی طاقت سے دہمکایا۔ جمیعت العلماء اسلام کے سٹوڈنتس ونگ کے گرفتار شدہ افراد کو مگر سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی رہا کر دیا گیا۔ اس دوران کراچی سے لے کر چترال تک والی کال کے باعث ملک کی کئی شاہرائیں بند ہو گئیں۔ اور یہ سب کچھ ساٹھ منٹوں میں ہو گیا۔اس واقعے سے ملک میں سیاسی درجہ حرارت کی بلندی کا احساس کیا جا سکتا ہے۔درجہ حرارت ایک دن یا ایک ہفتے میں نہیں بڑہا۔ اپوزیشن اور حکومت میں یہ خلیج پچھلی حکومت کے ابتدائی سالوں میں ہی شروع ہو گئی تھی۔ اس دوران البتہ حکومتی اور اپوزیشن میں موجود خلیج گہری ہی ہوئی ہے اور بات پارلیمان کے ممبران کو زخمی کرنے تک پہنچ چکی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کو ملک کے لیے تحریک عدم استحکام بنا دیا گیا ہے۔

حامد میر، کہ ایک باخبر صحافی ہیں نے لکھا تھا  (عمران خان دھرنے سے اقتدار میں نہیں آئے نہ ہی دھرنے سے جائیں گے) اس جملے میں یہ حقیقت پوشیدہ ہے کہ حکومتوں کو تبدیل کرنے کے لیے جو ڈول جمہوریت کے کنویں میں ڈالا جاتا ہے اس ڈول کے پیندے میں قانونی  اور اخلاقی چھید ہیں۔

کچھ عرصہ قبل امریکہ میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں مصنف نے دعوی کیا تھا کہ پاکستانیوں کے مفادات نہائت معمولی قسم کے ہوتے ہیں۔ ملک کے اندر مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کے مفادات کس قدرنیچے آ چکے ہیں۔ اس کا اندازہ اس تگ و دود سے لگایا جا سکتا ہے۔ جو اہلیت کے ثابت کرنے میں لگایا جا رہا ہے۔ حکومتی اتحاد کے یو ٹرن اور حکومت  مخالف اتحاد کے بدلتے بیانئے نے اس  (انپڑھ اور جاہل) عوام کے سامنے سب ہی کو ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔

ادارے کسی ملک کا فخر ہوتے ہیں مگر ان کو قیادت کرنے والے افراد کسی درانی کا کردار ادا کرتے ہیں تو جونیجو جیسا فخر سڑک پر بے توقیر ہو جاتا ہے۔ہم پولیس کو بے توقیر ہوتا دیکھ سکتے ہیں نہ کسی اور ادارے کو ۔۔۔  مہروں کو کب ادراک ہو گا کہ یہ  ( انپڑھ اور جاہل )  عوام گلوبل ویلیج کی باسی ہے۔ اور مزدور کے معاوضے کی طرح انٹر نیٹ کی رفتار میں فرق تو ہو سکتا ہے مگر وہ بے خبر نہیں ہے۔