#دلپزیر، اردوکالم، وزیراععظم پربدروح لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
#دلپزیر، اردوکالم، وزیراععظم پربدروح لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ، 26 مارچ، 2022

وزیر اعظم ہاوس پر بد روح



میرا ایک ساتھی بتاتا ہے کہ اس کے گاوں میں ایک شخص نے قبرستان سے متصل زمین خریدی۔ قبرستان کی جگہ کو شامل کر کے وہاں آٹا پیسے والی چکی لگائی۔ پہلے دن ہی نیا پٹہ ٹوٹا اور اس شخص کا بازو ٹوٹ گیا۔ بزرگوں نے اس کو سمجھایا تو اس نے غصب شدہ چھوڑ کر چکی کو ذاتی جگہ منتقل کیا۔ میرا ساتھی بتاتا ہے آج بھی اس کی چکی موجود ہے۔ 

راولپنڈی میں میری رہائش گاہ سے چند قدم کے فاصلے پر ایک قبرستان ہے۔ میرے بچپن میں اس قبرستان میں ایک روح کے بھٹکنے کے قصے عام تھے۔ اس بد روح کا چشم دید شاہد تو کوئی نہ تھا مگر ہر دسویں آدمی کے کسی جاننے والے کو یہ روح ضرور نظر آتی تھی۔ یہ بدیسی روح کسی انگریز کی بتائی جاتی تھی۔ حلیہ اس کا بڑا ڈراونا تھا۔ تھری پیس سوٹ میں ملبوس ٹائی پہنے اس انگریز کا مگر سر کٹا ہوا تھا۔ 

پرانے قبرستانوں کو مسمار کر کے جب شاندار عمارتیں بن جاتی ہیں اور لوگ اس میں بس جاتے ہیں۔ تو پھر معاشرتی اختلافات جنم لیتے ہیں۔کچھ گھرانے ایسے بھی ہوتے ہیں۔ جن میں لڑائی جھگڑا روز کا مومول ہوتا ہے۔ اس معمول سے اکتا کر جب گھر کا سیانا کسی باہر کے بابے سے مشورہ کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے۔ اس  رہائش کے نیچے کبھی قبرستان تھا۔ اس قبرستان میں مدفون مردے کی کوئی بے چین روح ہے جو اس گھر پر قابض ہو کر گھر کا سکون برباد کیے ہوئے ہے۔ 

اسلام آباد کا شہر میرے دیکھتے دیکھتے بسا۔ یہ علاقہ مختلف چھوٹے چھوٹے گاوں کا مسکن تھا۔ آہستہ آہستہ گاوں مٹتے گئے اور شاندار سیکٹر تعمیر ہوتے رہے۔ اسلام آباد کا ڈی چوک اپنی سیاسی گہما گہمی کے سبب معروف ہو چکا ہے۔ اور شہراہ دستور اہم ترین سڑک ہے اسی سڑک  پر موجودایوان صدر سے چند قدم کے فاصلے پر دو قبریں اب بھی موجود ہیں جو پرانے قبرستان کی یادگار ہیں۔ پنجاب ہاوس کے قریب خیابان اقبال کے شروع میں برگد کا درخت جس پر چار سو سال پرانا ہونے کا کتبہ موجود ہے کے سائے میں بھی ایک قبر موجود ہے۔ یہاں بھی کسی زمانے میں قبرستان ہوا کرتا تھا۔ 

جب وزیر اعظم ہاوس کی بنیاد رکھی جا رہی تھی اس وقت بھی اس جگہ قبرستان ہونے کا ذکر ہوا تھا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس شاندار وزیر اعظم ہاوس میں اس کے مکمل ہونے کے پہلے دن سے لے کر آج تک کوئی ایک وزیر اعظم بھی سکون سے نہ رہ سکا۔ کسی کو نکالا گیا تو کسی کو دھتکارا گیا۔ آپ کو یاد ہو گا وزیر اعظم بننے سے پہلے عمراں خان نے اس جگہ نہ رہنے کا اعلان کیا تھا۔ اور عمران خان اس عمارت میں منتقل نہیں ہوئےاور حفظ ما تقدم کے طور پر بنی گالہ ہی میں مقیم رہے۔ اس کے باوجود ان کے اقتدار پر سیاہ بادل منڈلاکر ہی رہے۔ 

اس عمارت کے سابقہ تمام مکینوں کو (قربانی) کا مشورہ دیا جاتا رہا۔ سیاسی لوگوں میں شیخ رشید نے ہمیشہ قربانی کا ذکر کیا۔ سابقہ وزیر اعظم نواز شریف کو اونٹوں کا خون بہانے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ عمراں خان نے کئی  بار (بکروں) کی قربانی کی بلکہ  خون کو جلایا ۔ مگر بات نہ بن پائی ۔ 

 اگر سیاسی پارٹیاں اور سیاستدان اور عوام چاہیں تو ہم اس عامل کا نام بتا سکتے ہیں ۔ جو سرکاری عمارتوں پر چھائی نحوستوں کو ختم کرنے کی صلاحیت سے مالا ہے ۔ اس عامل کامل کا نام پارلیمانی لیڈر ہے ۔