بدھ، 18 جون، 2025

ایران بمقابلہ اسرائیل: مزاحمتی نظریے کا تقابلی جائزہ




مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں اگر کوئی دو ریاستیں سب سے زیادہ ایک دوسرے کے مخالف دھارے پر کھڑی ہیں، تو وہ ایران اور اسرائیل ہیں۔ یہ دشمنی صرف سفارتی یا عسکری سطح تک محدود نہیں بلکہ ایک گہری نظریاتی، مذہبی اور تہذیبی تقسیم کی نمائندہ ہے۔
ایک طرف ایک ایسی یہودی ریاست ہے جس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد ظلم و ستم کی کوکھ سے جنم لیا، تو دوسری طرف ایک قدیم تہذیب کا وارث ایران، جو 1979 کے انقلاب کے بعد مغربی سامراج کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔

ایران کی تاریخ ہزاروں برس پر محیط ہے۔ کوروش اعظم کی ہخامنشی سلطنت سے لے کر صفوی حکمرانوں تک، ایران نے ایک تہذیب، ایک قوم، اور ایک شناخت کے طور پر دنیا پر گہرا اثر ڈالا۔
اسرائیل جدید ریاست ہے، مگر اس کی بنیادیں یہودی عقیدے اور دیاسپورا کی صدیوں پرانی امید پر رکھی گئیں — ایک ایسی سرزمین جہاں یہودی اپنے مذہب، قوم اور شناخت کے ساتھ محفوظ رہ سکیں۔

مگر یہاں اصل بات صرف تاریخی تسلسل کی نہیں، بلکہ نظریاتی ترجیح کی ہے۔ ایران نے اسلامی انقلاب کے بعد اپنے بیانیے کو سامراج مخالف مزاحمت میں ڈھال لیا — اسرائیل اس بیانیے میں "غاصب ریاست" کی علامت ہے۔
دوسری طرف، اسرائیل کا بیانیہ "بقا ہر قیمت پر" ہے — چاہے وہ جنگ ہو، نیوکلیئر تیاری ہو یا پراکسی خطرات کا سدِ باب۔

اسرائیل کا رقبہ چھوٹا سہی، مگر عسکری اعتبار سے وہ خطے کی سب سے جدید اور منظم فوجی طاقت ہے۔ 
F-35
 جیسے جنگی طیارے، آئرن ڈوم دفاعی نظام، اور نیوکلیئر ہتھیار — یہ سب اس کی حفاظت کی چھتری بن چکے ہیں۔
ایران کے پاس نیوکلیئر بم نہیں، مگر اس کا بیلسٹک میزائل پروگرام، سپاہِ پاسداران، اور پراکسی نیٹ ورک (جیسے حزب اللہ، حماس، حوثی) اسے ایک "زمینی طاقت" بناتا ہے۔
اگر اسرائیل "فضائی اور ٹیکنالوجی کی برتری" کا ترجمان ہے تو ایران "نظریاتی اور زمینی اثر" کا حامل ہے۔
ایران کا نعرہ ہے: "مرگ بر اسرائیل"
اسرائیل کا نعرہ ہے: "Never Again"
ایک مزاحمت کو فرض سمجھتا ہے، دوسرا اپنی بقا کو مقدس مانتا ہے۔
ایران فلسطینی کاز کو ایک مذہبی فریضہ اور شیعہ–سنی اتحاد کی بنیاد سمجھتا ہے۔
اسرائیل اسے دہشت گردی کی پشت پناہی تصور کرتا ہے۔
یہ اختلاف جغرافیہ یا حکمتِ عملی کا نہیں، بلکہ اخلاقی اور مذہبی برتری کے دعوے کا ہے۔
اسرائیل مغرب کی آنکھ کا تارا ہے۔ امریکہ، یورپ، برطانیہ، خلیجی عرب ریاستیں — سب کے سب یا تو اس کے 
حلیف ہیں یا اس کی  دشمنی سے پرہیز کرتے ہیں۔
ایران چین، روس، بھارت شام اور عراق میں اثر رکھتا ہے، مگر
موجودہ کشیدہ حالات میں بھارت نے اسے زبردست دھوکہ دیا ہے تو عراق اور شام بھی اس کا ساتھ دینے سے 
 ۔  عاجز پائے گئے ہیں
البتہ پاکستان دل و وسائل کے ساتھ ایران کےساتھ کھڑا ہے
 اسے عالمی پابندیوں، معاشی مشکلات، اور داخلی احتجاجات کا سامنا ہے۔
پھر بھی ایران عالمی منظرنامے سے غائب نہیں — وہ خطے کی ہر جنگ میں موجود ہے، چاہے پردے کے پیچھے۔
 یہ صرف دشمنی نہیں، دو الگ دنیاؤں کا تصادم ہے
اسرائیل اور ایران کا تنازع دراصل ایک تہذیبی جنگ ہے۔
ایک طرف ایک سیکولر، یہودی قوم پرست ریاست ہے جس کی بنیاد بقا پر ہے۔
دوسری طرف ایک مذہبی انقلابی ریاست ہے جس کی بنیاد مزاحمت پر ہے۔
کیا یہ تصادم کبھی ختم ہو گا؟
کیا کبھی ایسا دن آئے گا جب تل ابیب اور تہران ایک دوسرے کو صرف دشمن کے طور پر نہیں، ایک انسانی وجود کے طور پر دیکھیں گے؟
شاید نہیں — کیونکہ جب دشمنی نظریاتی ہو، تو جنگ میدان میں نہیں، ذہنوں میں ہوتی ہے… اور وہ طویل ہوتی ہے۔

"یہ لڑائی زمین کی نہیں، نظریے کی ہے۔
اور نظریہ کبھی میزائلوں سے نہیں مرتا… صرف فہم سے بدلتا ہے۔"




اسرائیل: خواب، حقیقت یا عالمی سیاست کا المیہ






چند ریاستیں اپنے وجود سے زیادہ اپنی تخلیق کے عمل میں چھپی کہانیوں سے جانی جاتی ہیں، اور اسرائیل ان میں سرِفہرست ہے۔ یہ ریاست نقشے پر تو 1948 میں ابھری، مگر اس کا نظریہ، منصوبہ، اور مالی و عسکری بنیادیں کئی دہائیوں بلکہ صدیوں پہلے رکھی جا چکی تھیں۔ آج اسرائیل ایک ایٹمی طاقت، ٹیکنالوجی کا مرکز، اور مغربی دنیا کا اسٹریٹیجک حلیف ہے، مگر اسی وقت فلسطینیوں کے لیے یہ ایک خونچکاں المیہ بھی ہے۔
خواب سے ریاست تک کا سفر

صہیونیت محض ایک تحریک نہیں تھی، یہودی بقا کا منصوبہ بھی تھی۔ جب یورپ میں یہودیوں پر مظالم بڑھے، خاص طور پر نازی جرمنی کے ہاتھوں ہولوکاسٹ کی تباہی کے بعد، تو عالمی رائے عامہ ایک "یہودی وطن" کے حق میں ہموار ہوئی۔ برطانیہ نے بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے اس خواب کو عملی شکل دینے کی راہ ہموار کی، اور بالآخر 1948 میں اقوامِ متحدہ کے فیصلے سے اسرائیل کی ریاست وجود میں آ گئی۔

اسی دن فلسطین کے لیے تباہی کا آغاز ہوا — لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، اور ان کا وطن اجنبی ہاتھوں میں چلا گیا۔
اسرائیل کا مقدمہ
اسرائیل تین بنیادوں پر اپنا مقدمہ دنیا کے سامنے رکھتا ہے:
 مذہبی بنیاد — کہ یہ زمین خدا کی عطا ہے،
 تاریخی بنیاد — کہ یہاں کبھی داؤد و سلیمان کی سلطنتیں تھیں،
 سیاسی بنیاد — کہ ایک جمہوری، جدید، اور خودمختار قوم کو بقا کا حق ہے۔

دنیا کے بڑے طاقتور ممالک، خصوصاً امریکہ اور یورپی ممالک، ان دعووں کو قانونی و اخلاقی جواز فراہم کرتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا تین ہزار سال پرانی تاریخ یا مذہبی دعوے آج کی دنیا میں زمین کا قانونی قبضہ ثابت کرتے ہیں؟

دولت اور طاقت کا گٹھ جوڑ
اسرائیل کی بقا میں دولت نے اہم کردار ادا کیا۔ یورپ اور امریکہ میں موجود سرمایہ دار یہودی خاندان، خصوصاً روتھ شیلڈز اور دیگر صہیونی ادارے، ریاست اسرائیل کے قیام سے بہت پہلے مالیاتی بنیادیں رکھ چکے تھے۔ آج بھی امریکہ ہر سال اسرائیل کو 4 ارب ڈالر کی فوجی امداد دیتا ہے۔
اسرائیل نے ٹیکنالوجی، اسلحہ سازی، سائبر سیکیورٹی، اور زراعت میں حیران کن ترقی کی ہے — یہاں دولت اور سائنس ایک نظریاتی مشن کا ایندھن بن چکے ہیں۔

اسرائیل کے اتحادی: ایک مضبوط نیٹ ورک
دنیا کے کئی ممالک اسرائیل کے خفیہ یا اعلانیہ اتحادی ہیں:
 امریکہ: سب سے بڑا عسکری و سفارتی محافظ
 یورپی ممالک: اسلحہ و ٹیکنالوجی میں شریک
 بھارت: دفاعی خرید و فروخت اور سفارتی قربت
 خلیجی عرب ریاستیں: یو اے ای، بحرین، مراکش، سوڈان نے ابراہیمی معاہدے کے ذریعے تعلقات قائم کر لیے
 سعودی عرب: خاموش حمایت، مگر سیاسی مفادات کا توازن برقرار
اور فلسطین؟
فلسطینی اس تمام سیاسی گیم میں ایک زخم زدہ قوم ہیں۔ ان کے پاس نہ وہ دولت ہے، نہ وہ اسلحہ، نہ وہ سفارتکاری جو اسرائیل کے پاس ہے۔ اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے بعد مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا، اور وہاں آج بھی فوجی، آبادیاتی اور معاشی دباؤ قائم ہے۔
عالمی برادری خاموش ہے، اور امتِ مسلمہ اختلافات میں الجھی ہوئی ہے۔

 ریاست یا نظریہ؟
اسرائیل ایک ریاست ہے، مگر اس سے بھی بڑھ کر ایک نظریہ ہے — ایک ایسا بیانیہ جو مذہب، تاریخ، جدیدیت، اور بقا کے جواز کو یکجا کرتا ہے۔ یہی بیانیہ اسے طاقت دیتا ہے، اور یہی بیانیہ اسے اخلاقی کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے۔

یہ کہانی صرف زمین کی نہیں، شناخت کی ہے
یہ صرف سفارت کی نہیں، تاریخ، عقیدے اور مستقبل کے خواب کی بھی ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کا تنازع آج بھی جاری ہے  اور شاید کل بھی جاری رہے۔

"بعض ریاستیں سرحدوں سے پہچانی جاتی ہیں،
بعض نظریات سے
اسرائیل دونوں میں شمار ہوتا ہے۔"


منگل، 17 جون، 2025

"امریکہ لڑے گا، چین تجارت کرے گا!"




دنیا کی دو بڑی طاقتیں — چین اور امریکہ — مشرقِ وسطیٰ کے ایک ممکنہ نئے محاذ کی جانب دیکھ رہی ہیں، جہاں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک طرف چین نے ایران میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے، تو دوسری طرف امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا حلیف اور مالیاتی معاون ہے۔ سوال یہ ہے: کیا ان کے معاشی مفادات انہیں اس جنگ میں براہِ راست گھسیٹ سکتے ہیں؟
چین کی ایران میں سرمایہ کاری

چین اور ایران نے 2021 میں ایک پچیس سالہ معاشی اور تزویراتی معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت چین ایران میں توانائی، مواصلات، بندرگاہوں، ریلویز، اور دیگر انفراسٹرکچر پر مبینہ طور پر 400 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کرے گا۔ ایران عالمی پابندیوں کے باعث چین کو رعایتی نرخوں پر تیل بیچتا ہے، اور چین ایران کا سب سے بڑا تیل خریدار بن چکا ہے۔
مزید برآں، ایران چین کے "بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو" میں ایک مرکزی سنگ میل ہے، جو ایشیا کو یورپ اور افریقہ سے جوڑنے کی چینی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ تاہم امریکی پابندیوں کے باعث چینی کمپنیوں کی اکثریت ایران میں محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے، اور بیشتر منصوبے صرف کاغذوں کی حد تک محدود ہیں۔
امریکہ کی اسرائیل میں سرمایہ کاری

امریکہ ہر سال اسرائیل کو 3.8 ارب ڈالر کی فوجی امداد دیتا ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان 10 سالہ دفاعی معاہدے کا حصہ ہے۔ جدید میزائل سسٹمز جیسے آئرن ڈوم، ڈیویڈز سلِنگ اور ایرو میزائل چین کی مدد سے تیار کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ ٹیکنالوجی، سائبر سیکیورٹی، بایوٹیک اور ڈیفنس انڈسٹری میں بھی بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی فوجی موجودگی کا ایک اہم مرکز بھی ہے، جہاں مشترکہ فوجی مشقیں اور نگرانی کے نظام موجود ہیں۔
کیا مالی مفادات ان کو جنگ میں کھینچ لائیں گے؟
امریکہ

امریکہ کا اسرائیل سے عسکری و سفارتی تعلق اتنا گہرا ہے کہ کسی بڑی جنگ کی صورت میں امریکہ کا میدان میں اترنا بعید از قیاس نہیں۔ اندرونی سیاسی دباؤ، اسرائیل نواز لابی، اور دفاعی صنعت کے مفادات اس امکان کو مزید تقویت دیتے ہیں۔
تاہم امریکہ کے معاشی مفادات بھی دائو پر لگ سکتے ہیں، کیونکہ اگر جنگ مشرق وسطیٰ سے آگے بڑھ گئی تو عالمی مارکیٹ میں افراتفری پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود، امریکہ کے لیے اسرائیل کا تحفظ اس کے علاقائی تسلط کی علامت ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی خطرے میں مداخلت سے گریز نہیں کرے گا۔
چین

اس کے برعکس چین نے اب تک خود کو مشرقِ وسطیٰ کی جنگی سیاست سے دور رکھا ہے۔ وہ ایران میں سرمایہ کاری ضرور کر رہا ہے، لیکن وہ ایران کا فوجی حلیف نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین نے گزشتہ برسوں میں اسرائیل کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات مضبوط کیے ہیں، خاص طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں۔
چین کی کوشش ہو گی کہ وہ اس تنازعہ کو سفارتی طریقے سے سلجھائے، تاکہ نہ صرف اس کے اقتصادی منصوبے محفوظ رہیں بلکہ وہ دنیا کے سامنے ایک امن پسند طاقت کے طور پر بھی ابھرے۔
نتیجہ

امریکہ اور چین دونوں کی مشرقِ وسطیٰ میں سرمایہ کاری موجود ہے، مگر ان کا رویہ مختلف ہے۔ امریکہ کا جھکاؤ اسرائیل کی عسکری حمایت کی طرف ہے، جبکہ چین کا مفاد اقتصادی استحکام اور سفارتی بیلنس میں ہے۔
اگر جنگ بھڑکتی ہے تو امریکہ براہ راست میدان میں آ سکتا ہے، لیکن چین پسِ پردہ رہ کر مفادات کا تحفظ کرے گا۔
"امریکہ لڑے گا، چین تجارت کرے گا!"

قاہرہ سے امن کی کوشش



عنوان: قاہرہ سے امن کی کوشش — ایک مشترکہ مؤقف کی فتح

تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

مشترکہ مفادات اور عالمی امن کے تقاضے کب ایک ساتھ یکجا ہوتے ہیں؟ شاذ و نادر۔ مگر جون 2025 میں دنیا نے ایک ایسی مثال دیکھی، جہاں خطے کی سیاست، تاریخی تلخیاں اور باہمی اختلافات کو پیچھے چھوڑ کر 21 ممالک نے ایک زبان ہو کر جنگ کے خلاف آواز بلند کی۔ یہ آواز قاہرہ سے اٹھی، اور اس کے معمار تھے مصر کے وزیر خارجہ، سمیح شکری۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان تیزی سے بڑھتی ہوئی کشیدگی، فضائی حملوں اور جوابی میزائل حملوں نے عالمی سطح پر خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ ایسے میں جب اقوام عالم خاموش تماشائی بنی ہوئی تھیں، مصر نے سفارت کاری کا علم بلند کیا اور عرب، اسلامی اور افریقی دنیا کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔

قاہرہ میں ہونے والی سفارتی ملاقاتوں کے بعد، سمیح شکری کی قیادت میں ایک متوازن، اصولی اور بین الاقوامی قوانین سے ہم آہنگ مشترکہ قرارداد تیار کی گئی جس پر درج ذیل 21 ممالک نے دستخط کیے:


مصر


سعودی عرب


ترکی


قطر


اردن


متحدہ عرب امارات


پاکستان


بحرین


الجزائر


موریطانیہ


لیبیا


عراق


کویت


عمان


سوڈان


صومالیہ


جبوتی


کوموروس


برونائی


چاڈ


گیمبیا

یہ قرارداد نہ صرف اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتی ہے بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ سب سے اہم بات، اس میں فوری جنگ بندی، علاقائی خودمختاری کا احترام، اور مشرق وسطیٰ کو ایٹمی و تباہ کن ہتھیاروں سے پاک خطہ بنانے کی اپیل شامل ہے۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان اس تنازعے میں اب تک جو زبانی جمع خرچ ہو رہا تھا، اس قرارداد نے اسے ایک عملی سفارتی رخ دے دیا ہے۔ یہ ایک غیرجانبدارانہ، اصولی اور انسان دوست مؤقف کی نمائندگی ہے۔ مصر کی قیادت میں یہ 21 ممالک صرف مسلم دنیا کی نمائندگی نہیں کر رہے تھے، بلکہ وہ ایک ایسے وژن کا اظہار کر رہے تھے جس میں جنگ کی نہیں، امن کی جیت ہو۔

اس قرارداد کا عالمی سطح پر خیرمقدم کیا گیا ہے، خصوصاً چین اور دیگر نیوٹرل ریاستوں نے اس اقدام کو مثبت پیشرفت قرار دیا ہے۔ سمیح شکری کی سفارتی چابکدستی نے ثابت کر دیا کہ اگر نیت صاف ہو اور قیادت مضبوط، تو بات چیت، سفارت کاری اور اصولی مؤقف سے وہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں جو بندوق کبھی نہیں لا سکتی۔

دنیا ایک اور تباہ کن جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ قاہرہ سے اٹھنے والی یہ صدا شاید اُس نئے مشرق وسطیٰ کی نوید ہو، جہاں بات امن کی ہو، اور فیصلے قوموں کی اجتماعی دانش سے ہوں۔

ایران میں بچوں کے ہسپتال پر حملہ







جنگ کی اپنی ہی زبان ہوتی ہے۔ بارود، تباہی، لاشیں، اور جلتے ہوئے خواب۔ لیکن جب جنگ کی زد میں ہسپتال آ جائیں، جب مریضوں اور بچوں کی چیخیں میزائلوں کی آوازوں میں دب جائیں، تو یہ محض جنگ نہیں رہتی، بلکہ انسانیت کا قتل عام بن جاتی ہے۔

ایسا ہی ایک افسوسناک واقعہ حالیہ دنوں ایران کے دارالحکومت تہران میں پیش آیا، جہاں "حکیم چلڈرن ہسپتال" کو اسرائیلی حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ اس ہسپتال میں صرف بیمار بچے زیرِ علاج تھے۔ ان کے ہاتھوں میں بندوقیں نہیں تھیں، ان کے سروں پر جنگی ہیلمٹ نہیں تھے۔ وہ بچے تھے، کمزور، بیمار، اور معصوم۔ مگر شاید جدید جنگوں میں معصومیت سب سے بڑا جرم بن چکا ہے۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق ہسپتال کی عمارت کے باہر میزائل یا ڈرون حملہ کیا گیا۔ اگرچہ عمارت کے اندر براہ راست کوئی جانی نقصان رپورٹ نہیں ہوا، مگر خوف، دہشت، اور سراسیمگی کا جو ماحول پیدا ہوا، وہ کسی زخمی یا مقتول سے کم نہیں۔ بچوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا، طبی عملہ ہڑبڑا گیا، اور ماں باپ کے چہروں پر خوف نے ڈیرے ڈال دیے۔

ایران نے اس حملے کو جنگی جرم قرار دیا ہے اور عالمی برادری سے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ، عالمی ادارہ صحت (WHO)، اور دیگر بین الاقوامی ادارے حسبِ معمول "تشویش" کا اظہار کرتے نظر آئے، مگر عملی اقدامات کہیں دکھائی نہیں دیے۔ طبی ادارے بین الاقوامی قانون کے تحت خصوصی تحفظ رکھتے ہیں۔ ان پر حملہ، کسی بھی قانون اور ضمیر کے مطابق، ناقابلِ قبول جرم ہے۔

لیکن یہاں سوال صرف اسرائیل یا ایران کا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا واقعی دو طبقات میں تقسیم ہو چکی ہے؟ ایک وہ جو طاقتور ہیں اور کچھ بھی کر گزریں تو دنیا صرف "مذمت" کرتی ہے، اور دوسرے وہ جو کمزور ہیں اور اگر سانس بھی اونچی لیں تو دہشت گرد قرار پاتے ہیں۔

جب بچوں کے ہسپتال پر حملہ ہو، اور دنیا خاموشی سے تماشہ دیکھتی رہے، تو سمجھ لیجیے کہ انسانیت کا جنازہ پڑھا جا چکا ہے۔ اسرائیل اور ایران کی اس کشیدگی میں اگر عالمی ضمیر نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں تو اگلا نشانہ کوئی اور ملک، کوئی اور شہر، یا کوئی اور بچہ ہو سکتا

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے

فلسطین میں معصوم بچوں کو منطم طریقے سے مارنے پر اسرائیل کا ہاتھ کسی نے نہیں پکڑا۔ اب یہ اس کی جنگی حکمت عملی بن گئی ہے کہ مخالفین کے بچوں کو مارڈالو