بدھ، 30 اپریل، 2025

فیس سیونگ سے فیس چینج تک



فیس سیونگ سے فیس چینج تک

تحریر : دلپذیر

2019 

سے 2025 تک کا عرصہ برصغیر کے سیاسی، عسکری اور سفارتی منظرنامے میں کئی اہم موڑ لے کر آیا۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات جنہیں کبھی "نارملائزیشن" کی امید سے جوڑا جاتا تھا، وہ ایک بار پھر "سیکیورٹی اسٹیٹ بنام پاپولر نیشنلزم" کی کھائی میں جا گرے۔ 2019 میں جب پلوامہ کے واقعے نے سرخیوں میں جگہ بنائی اور بالاکوٹ پر حملے کی خبر آئی، تو خطے میں جنگ کے بادل اچانک چھا گئے۔ عالمی قوتوں نے بیچ بچاؤ کر کے معاملات کو کسی حد تک "سفارتی طور پر طے" کروا دیا، لیکن اس حل کو "فیس سیونگ" کے نام پر یاد رکھا گیا۔

ہندوستان کو اپنی عوامی خواہشات کے سامنے ایک کامیاب کارروائی کا دھوکہ دینا تھا، اور پاکستان کو عالمی دباؤ سے بچنے کے لیے ایک عقلی راستہ اختیار کرنا تھا۔ دونوں ممالک نے اپنے اپنے تئیں ایک چالاکی کا مظاہرہ کیا، لیکن اس چالاکی کا انجام آنے والے برسوں میں واضح ہو گیا۔

پاکستان میں  یہ آواز بھی سنائی دی: "ہمارے پاس تو ٹینک میں تیل ڈالنے کے پیسے بھی نہیں ہیں"۔ یہ ایک جملہ تھا، مگر درحقیقت پوری ریاست کی معاشی ناتوانی اور عالمی تنہائی کا عکاس تھا۔ لیکن وقت کے پہیے نے پلٹا کھایا ہے۔ وہ 2019 تھا، اب 2025 ہے۔ منظرنامہ یکسر مختلف ہے۔
سپہ سالار اگلے مورچوں پر جوانوں کے ساتھ کھڑا ہے، جوانوں کا مورال بلند ترین سطح پر ہے۔ ماضی کی ہزیمتیں — 1971، کارگل، اور پلوامہ — آج ایک یاد دہانی بن چکی ہیں کہ صرف عسکری تیاری کافی نہیں، قومی وژن اور اقتصادی خودمختاری بھی لازم ہے۔

2019 

میں بھارت میں مودی کی پاپولسٹ سیاست نے خطے کو بحران کی جانب دھکیلا، اور آج بھی ویسا ہی رجحان نظر آ رہا ہے۔ کشمیر کے مسئلے کا جواب بلوچستان میں دینے کے نعرے ایک بار پھر فضا میں گونج رہے ہیں۔ مودی حکومت کی انتخابی حکمتِ عملی ہمیشہ "دشمن تراشی" پر مبنی رہی ہے، جہاں پاکستان کو ایک آسان ہدف بنا کر عوامی حمایت حاصل کی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان کا مسئلہ، بھارت کے مسئلے سے مختلف ہے۔ ہم ایک احسان زیاں، قومی بحران، اور مسلسل دھوکے کے کرب سے گزر چکے ہیں۔ ہماری عوام اب جنگ سے زیادہ امن، اور دشمنی سے زیادہ ترقی کی خواہاں ہے۔

پاکستانی عوام کا شعور بدل چکا ہے۔ وہ جان چکے ہیں کہ ہر چند سال بعد ایک مصنوعی بحران کھڑا کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں جو بھی معمولی ترقی ہوتی ہے، وہ راکھ ہو جاتی ہے۔ یہی شعور ہے جس نے ایک پاپولر لیڈر کو قید خانے تک پہنچا دیا۔ قوم اب پاپولزم سے تھک چکی ہے۔
مگر بھارت کی عوام شاید ابھی اس منزل تک نہیں پہنچی۔ ورنہ کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتیں مودی کے جنگی بیانیے کا حصہ نہ بنتیں۔ بھارت ایک ایسے سیاسی جال میں پھنس چکا ہے جہاں "قوم پرستی" اور "جنگی ہیجان" کی آڑ میں اصل مسائل پر پردہ ڈالا جا رہا ہے۔

مودی حکومت عوام کو شیر پر سوار ہونے کا منظر دکھا رہی ہے، مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ شیر سے اترنے کے بعد کیا ہو گا۔ بھارت کے میڈیا اور سیاسی قوتیں اپنے ہی جال میں پھنسی ہوئی ہیں۔ وہ خطے کے امن کو داؤ پر لگا کر وقتی سیاسی فائدہ اٹھا رہے ہیں، لیکن یہ آگ صرف سرحد کے اِس پار نہیں رکے گی۔

مودی کو 2019 میں جو فیس سیونگ دی گئی، اس کا خمیازہ آج تک بھگتا جا رہا ہے۔ سفارتی چالاکی کے پردے میں اصل ایشوز کو دبا دینا، نہ صرف ریاستی کمزوری کی علامت ہوتا ہے، بلکہ وہ کمزوری کل کو سیاسی بھوت بن کر واپس آتی ہے۔ اب بھی فون بج رہے ہیں، پیغامات آ رہے ہیں: "کچھ کر گزرو، مگر فیس سیونگ دے دو"۔
لیکن اس بار حالات مختلف ہیں۔

روڈ پر بیٹھا ریڑھی بان، دکان دار، طالب علم، سرکاری ملازم، وزیر اعظم، ٹینک کا ڈرائیور، اور خود سپہ سالار — سب ایک بات پر متفق نظر آتے ہیں: اب یا کبھی نہیں۔ وہ گولی جو ہم نے گھاس کھا کر بنائی تھی، شاید اب وقت آ گیا ہے کہ اس کا مصرف دیکھا جائے — نہ اس لیے کہ ہم جنگ چاہتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ روز روز کے بحران، دھمکیوں، اور فریبوں سے نجات صرف ایک واضح موقف سے ممکن ہے۔

یقیناً، اس تالاب میں کچھ ایسے مینڈک بھی ہیں جو بار بار پھدک پھدک کر یہ بتاتے ہیں کہ مودی تو پاگل ہے، تم تو ہوش سے کام لو، کوئی راستہ نکالو، فیس سیونگ دے کر معاملہ رفع دفع کرو۔ لیکن سوال یہ ہے: 2019 کی فیس سیونگ اگر 2025 میں گلے کا طوق بن چکی ہے، تو کیا 2025 کی فیس سیونگ زہر کا پیالہ نہیں بنے گی؟

پاکستان کو اب فیس سیونگ کی سیاست سے باہر آ کر فیس چینج کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ قوموں کی بقا "سیاسی سمجھوتوں" میں نہیں، بلکہ اپنے وژن اور اصولوں پر ڈٹ جانے میں ہے۔
جنگ نہ سہی، مگر جنگ سے زیادہ خطرناک وہ امن ہے جس کی بنیاد جھوٹ اور وقتی فائدے پر ہو۔


منگل، 29 اپریل، 2025

اللہ کا دوست


 اس اللہ کے ولی کوساری دنیا جانتی ہے کیا آپ بھی جانتے ہیں؟


اسے پاکستان نے اعلی ترین شہری اعزاز ہلال امتیاز سے نواز تو اعزاز کے ساتھ ملنے والی رقم جو ایک کروڑ روپے بنتی تھی
اس رقم کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ تحقیقات اسلامی کو یہ کہتے ہوئے دیا کہ اگر اس فانی دنیا میں یہ اعزاز وصول کیا تو پھر باقی رہنے والی زندگی کے لئے کیا بچے گا.



اس نے 1994ء میں کنگ فیصل ایوارڈ کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرایا کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے لکھا ہے لہذا مجھ پر میرے دین کو خراب نہ کریں.


ااس نے فرانس کی نیشنیلٹی کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دی کہ مجھے اپنی مٹی اور اپنے وطن سے محبت ہے.


اس کے ہاتھ پر 40000 غیر مسلموں نے کلمہ طیبہ پڑھا.


یہ 22 زبانوں کا ماہر تھا اور 84 سال کی عمر میں تھائی سیکھ لی تھی.


اس نے مختلف زبانوں میں 450 کتابیں اور 937 علمی مقالے لکھے.

وہ اپنے برتن اور کپڑےخود دھوتا تھا.





یہ وہ عظیم مصنف جس نے حدیث کی اولین کتاب جو 58 ہجری میں لکھی گئی تھی جسے
صحیفہ ہمام بن منبہ کہا جاتا ہے
اس عظیم حدیثی و تاریخی دستاویز کو انہوں نے
1300
سال بعد جرمنی میں برلن لائبریری سے دریافت کیا اور تحقیق کے بعد شائع کرایا.


اتنا نیک شخص جس نے قرآن مجید کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ و تفسیر لکھا اس شاہکار ترجمے کے بیسوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں.


ایک ایسا عاشق رسول جس نے "تعارف اسلام " کے نام سے ایک شاہکار کتاب لکھی جس کتاب کے دنیا کی 22 زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں.


ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی تھی،آپ 1908 میں حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے،
آپ نے 1933ء میں جرمنی کیبون یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد وہیں عربی اور اردو کے استاد مقرر ہوئے.

آپ 1946ء میں اقوام متحدہ میں ریاست حیدرآباد کے نمائندہ (سفیر) مقرر ہوئے۔


1948
میں سقوط حیدر آباد اور انڈیا سے ریاست کے جبری الحاق پر سخت دلبرداشتہ ہوئے اور جلاوطنی کی زندگی اختیار کی اور جلا وطنی کے دوران "حیدرآباد لیبریشن سوسائٹی" کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی.

1950
میں پاکستان کا پہلا قانونی مسودہ بن رہا تھا تو آپ سے رابطہ کیا گیا آپ پاکستان تشریف لائے. آپ نے 1952 سے 1978 تک ترکی کی مختلف جامعات میں پڑھایا 1980
میں جامعہ بہاولپور میں طلبہ کو خطبات دیے جنہیں بعد ازاں خطبات بہاولپوری کے نام سے شائع کیا گیا یہ عظیم علمی اور فکری شخصیت 17 دسمبر 2002 کو امریکی ریاست فلوریڈا میں انتقال کر گئی.
ڈاکٹر محمد حمیداللہ کہنے کو ایک فرد تنہا لیکن کام کئی جماعتوں سے زیادہ کر گئے،اللہ تعالی انہیں غریق رحمت کرے.

پیر، 28 اپریل، 2025

پیشگوئی: ماضی، حال اور مستقبل


پیشگوئی ہمیشہ سے انسانی تجسس کا مرکز رہی ہے۔ قرآن، بائبل، اور دیگر الہامی کتب میں متعدد پیشگوئیاں وقتاً فوقتاً سچ ثابت ہوتی رہی ہیں۔ بنیادی طور پر پیشگوئی دو اقسام کی ہوتی ہے: الہامی، جو انبیاء یا اولیاء کو خدا کی طرف سے عطا ہوتی ہے؛ اور علمی یا سائنسی، جو مشاہدے اور اندازے پر مبنی ہوتی ہے۔

اسلامی تاریخ میں کئی بزرگوں نے الہامی انداز میں پیشگوئیاں کیں، جن میں حضرت نعمت اللہ ولیؒ کا نام نمایاں ہے۔ آپ کی فارسی نظم میں برصغیر میں انگریزوں کی آمد، مسلمانوں کی غلامی، پاکستان کا قیام، اور اسلام کے احیاء کی حیرت انگیز تفصیل موجود ہے۔ آپ لکھتے ہیں:

"آئیں گے مشرق سے شیر دل جوان،
دین کا ہوگا پھر روشن نشان"

آج فلسطین و کشمیر میں جو بیداری دکھائی دے رہی ہے، وہ انہی اشارات کی تعبیر معلوم ہوتی ہے۔

دوسری طرف القدس کے مسئلے پر دنیا کی مسیحی قیادت، خصوصاً ویٹیکن، اسرائیلی قبضے کی مخالف نظر آتی ہے۔ پوپ فرانسس نے یروشلم کو "تمام ادیان کے لیے مشترکہ مقدس شہر" قرار دیا۔ فلسطینی مسیحی راہب عطا اللہ حنا نے تو یہاں تک کہا:
"ہم مسجد اقصیٰ کے دفاع میں مسلمانوں کے ساتھ ہیں۔"

اسلامی احادیث کے مطابق، آخری زمانے میں حضرت عیسیٰؑ کا نزول ہوگا، جو امام مہدیؑ کے ساتھ مل کر دجال اور اس کے پیروکاروں (جن میں اکثریت یہودی ہوگی) کے خلاف قیادت کریں گے۔ یہ پیشگوئی عیسائی صحیفوں میں بھی پائی جاتی ہے، جہاں حضرت مسیحؑ "آخری جنگ" میں بدی کو شکست دیں گے۔

دنیا جس تیزی سے بدل رہی ہے، اور ظلم و عدل کے نئے محاذ کھل رہے ہیں، ان میں یہ پیشگوئیاں ایک آئینہ ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم ان اشاروں کو پہچان کر تیاری کرتے ہیں یا تاریخ کا دھارا ہمیں خود بہا لے جاتا ہے۔

اتوار، 27 اپریل، 2025

ایک سچا انسان

 

علم کی دو بنیادی اقسام ہیں: ایک وہ علم جو محنت، جستجو اور کوشش سے حاصل کیا جاتا ہے، اور دوسرا وہ جو اللہ کی خاص عطا کے طور پر دل کی آنکھوں کو روشن کرتا ہے۔ پہلا علم ڈگریوں، اسناد اور رسمی تعلیم کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، جب کہ دوسرا علم براہِ راست الہام و بصیرت کا نتیجہ ہوتا ہے، جو دل کی گہرائیوں میں اتر کر انسان کو حقیقت کا مشاہدہ کراتا ہے۔

ہم اللہ کے برگزیدہ رسولوں کے علم پر لب کشائی کی جسارت نہیں کرتے، کیونکہ وہ علم الہٰی کی براہ راست امانت ہے۔ تاہم، علی ابن ابی طالبؓ کے علم پر بات کرنا ممکن ہے، کیونکہ ان کے دہن سے نکلے ہوئے گوہر بار، حکمت سے بھرپور، اور عقل و شعور کو جھنجوڑنے والے اقوال آج بھی کتابوں میں جگمگا رہے ہیں، اور  انسانیت  

کو راہ دکھا رہے ہیں۔

حضرت علی نے ولی اللہ کی کچھ نشانیاں بتائی تھی ولی اللہ وہی ہوتا ہے جو علم و عمل کا جامع ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ جاہل اور لاعلم کو اپنا دوست نہیں بناتا۔ ولایت کے لیے حقیقت شناس اور باعمل ہونا شرط ہے۔ جب علم و عمل کا نور دل میں اتر جائے تو پھر اللہ کی عطا کا دروازہ کھلتا ہے۔

یہ بات عشروں برس پرانی ہے، جب ایک ہندوستانی نے ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے بارے میں کہا: "ڈاکٹر اسرار سچے انسان ہیں۔" یہ جملہ میرے لیے باعثِ حیرت و تجسس بنا۔ ایک غیر مسلم کی زبان سے ایک قرآنی اسکالر کی سچائی کا اعتراف میرے دل میں ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو قریب سے جاننے کی جستجو پیدا کر گیا۔ میں ان کے حلقہ احباب سے قریب ہوا، ان کی تحریروں کا مطالعہ کیا، ان کی تقریریں سنیں۔

اگرچہ ان کے بعض سیاسی نظریات میری طبیعت سے ہم آہنگ نہ ہو سکے، تاہم میرے دل نے یہ گواہی دی کہ یہ شخص بے غرض، مخلص اور سچائی کا پرستار ہے۔ اسی سوچ نے مجھے مجبور کیا کہ میں ان کی ہر بات کو تنقیدی نظر سے جانچوں، مگر سچائی کی روشنی ہمیشہ غالب رہی۔

 ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد میں نے ان کے لیے دل کی گہرائیوں سے مغفرت کی  دعا کی مگر یہ دعا  اللہ کے حضور درجات کی بلندی میں بدل گئی

  میں نے اپنی آنکھوں سے ان کی پیش گوئیوں کو حقیقت بنتے دیکھا تھا۔ وہ سچا انسان اب اپنے سچے رب کے حضور ہے۔ ان کی کئی پیش گوئیاں — خصوصاً یہ کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان آئندہ جنگ پانی کے مسئلے پر ہوگی اور میدان کارزار کشمیر ہوگا — آج قریب الوقوع محسوس ہوتی ہیں۔


ہفتہ، 26 اپریل، 2025

بی بی پاک دامن

 

بی بی پاکدامنؒ — لاہور کی روحانی اور تاریخی نشانی

لاہور، جو صدیوں سے علم، روحانیت اور محبت کا مرکز رہا ہے، اپنے دامن میں بے شمار اولیاء اللہ کی قبروں اور خانقاہوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ انہی بزرگ ہستیوں میں بی بی پاکدامنؒ کا نام نہایت عقیدت سے لیا جاتا ہے۔ ان کا مزار آج بھی محبت، عقیدت اور روحانی سکون کا سرچشمہ ہے۔


بی بی پاکدامنؒ کا تاریخی پس منظر

تاریخی روایات کے مطابق، بی بی پاکدامنؒ کا اصل نام بی بی رقیہؓ تھا۔ آپ اہلِ بیتؑ میں سے تھیں اور حضرت امام موسیٰ کاظمؑ کی اولاد یا قریبی رشتہ دار سمجھی جاتی ہیں۔ بعض روایات میں ان کے ساتھ دیگر خواتین کا بھی ذکر ملتا ہے، جن کی تعداد 35 سے 40 بتائی جاتی ہے۔
یہ نیک بیبیاں عباسی خلافت کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے اپنے وطن (عراق) سے ہجرت کر کے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں آئیں۔ آخر کار لاہور کو اپنا مسکن بنایا۔ یہاں انہوں نے نہایت سادگی، پردے اور عبادت میں زندگی گزاری۔

"پاکدامن" لقب کا پس منظر

آپ کی پاکیزگی، عبادت گزاری، اور دنیا سے بے رغبتی دیکھ کر اہلِ لاہور نے انہیں "بی بی پاکدامن" کا لقب دیا۔ "پاکدامن" کا مطلب ہے وہ عورت جس کا دامن ہر طرح کی آلائش سے پاک ہو۔

لاہور میں آمد اور قیام

کہا جاتا ہے کہ جب بی بی پاکدامنؒ اور ان کی ساتھی بیبیاں لاہور پہنچیں تو یہ شہر ایک غیر مسلم اکثریتی بستی تھا۔ وہ یہاں ایک نسبتاً پر سکون جگہ پر قیام پذیر ہوئیں۔ ان کی شبانہ روز عبادات، ذکر الٰہی، اور صبر و شکر کی کیفیت نے اردگرد کے ماحول پر گہرا اثر ڈالا۔

روایات کے مطابق، بی بی پاکدامنؒ اور ان کے ساتھیوں نے اپنی زندگی کو گوشہ نشینی میں گزارتے ہوئے دینِ اسلام کے پیغام کو اپنی سیرت اور کردار سے عام کیا۔ انہوں نے کبھی ظاہری دعوت نہیں دی، بلکہ اخلاق و کردار سے لوگوں کے دل جیتے۔

شہادت یا وفات؟

کچھ پرانی روایات کے مطابق بی بی پاکدامنؒ اور ان کے ساتھیوں کو مقامی مخالفین نے شہید کر دیا تھا، جب کہ بعض دیگر روایات کے مطابق وہ طبعی موت مریں۔
بی بی پاکدامنؒ کی قبر کا مقام وہی ہے جہاں آج ان کا مشہور مزار واقع ہے۔ تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ یہ جگہ صدیوں سے زیارت گاہ ہے اور اسے صوفیاء، درویشوں اور عام مسلمانوں کی عقیدت حاصل رہی ہے۔


مزار کی تعمیر و توسیع

بی بی پاکدامنؒ کے مزار کی موجودہ شکل کئی بار مرمت اور توسیع کے عمل سے گزری۔
مغل دور میں، اور بعد میں سکھ حکمرانوں کے زمانے میں بھی، مزار کی حفاظت کا اہتمام کیا گیا۔ سکھ دور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس مقام کو خصوصی تحفظ فراہم کیا تھا، کیونکہ مقامی لوگ اسے روحانی مقام تسلیم کرتے تھے۔

مزار کے اندرونی حصے میں ایک قدیم برگد کا درخت بھی ہے جسے مقامی روایات میں بڑی روحانی اہمیت دی جاتی ہے۔ زائرین مزار پر چادریں چڑھاتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں اور نذر نیاز پیش کرتے ہیں۔

جمعہ، 25 اپریل، 2025

اگر بھارت پاکستان کا پانی روک دے...!

 


اگر بھارت پاکستان کا پانی روک دے...!

جنوبی ایشیا کی سیاست میں پانی اب بارود کی طرح خطرناک ہو چکا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا تھا، جسے دنیا کے کامیاب ترین آبی معاہدوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
لیکن اگر بھارت آج اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے حصے کا پانی روک لے، تو اس کے نتائج محض ایک علاقائی تنازع نہیں، بلکہ پاکستان کے وجود پر براہِ راست حملہ ہوں گے۔

سوچیے! پاکستان کی زراعت کا انحصار دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں پر ہے۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی زمینیں اسی پانی سے زندہ ہیں۔ اگر بھارت ان دریاؤں پر بند باندھ کر یا پانی روک کر پاکستان کو خشک سالی میں دھکیل دے تو سب سے پہلے ہماری زرعی معیشت دھڑام سے نیچے گرے گی۔ گندم، چاول، کپاس اور گنا جیسی بنیادی فصلیں تباہ ہو جائیں گی، اور ملک کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہو گا۔

صرف اتنا ہی نہیں، پانی کی بندش کا مطلب بجلی کی بندش بھی ہے۔ منگلا اور تربیلا جیسے ڈیم پانی کے بغیر بے جان ہو جائیں گے۔ بجلی کی پیداوار میں نمایاں کمی آئے گی، جس کا براہ راست اثر صنعت، تجارت اور روزگار پر پڑے گا۔
جب صنعتیں رکیں گی، جب کھیت سوکھیں گے، تو بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ناگزیر ہو گا۔

دوسری طرف، شہری علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی کمی ایک نئی انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔ اسپتالوں میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا سیلاب آ جائے گا۔ بچے، بزرگ اور خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔

اور یاد رکھیے، جب پیاس بڑھتی ہے تو احتجاج کی چنگاری شعلوں میں بدل جاتی ہے۔ پانی کی قلت پاکستان کے اندرونی امن کو تہہ و بالا کر سکتی ہے۔ دیہی اور شہری علاقوں میں بدامنی پھیل سکتی ہے۔
یہ صورتحال پاکستان کے سیاسی استحکام کو بھی خطرے میں ڈال دے گی۔

بین الاقوامی سطح پر بھی معاملہ آسان نہ ہو گا۔ اگر بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی کی، تو پاکستان عالمی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے، لیکن عدالتی کارروائی سست ہوتی ہے، جب کہ زمین پر لوگ پانی کے لیے تڑپ رہے ہوں گے۔
خطے میں جنگ کا خطرہ بڑھ جائے گا، کیونکہ پاکستان پانی کے لیے ہر حد تک جا سکتا ہے۔

اصل سوال یہ ہے: کیا بھارت سمجھتا ہے کہ پانی کی بندش کا بوجھ صرف پاکستان پر پڑے گا؟
نہیں! پانی کی جنگ کی آگ پورے برصغیر کو جلا سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک سمجھداری سے کام لیں، اور انڈس واٹر ٹریٹی جیسے معاہدوں کی پاسداری کریں۔

کیونکہ پانی زندگی ہے — اور زندگی پر سیاست نہیں کی جا سکتی۔

تاریخ کروٹ لینے والی ہے



دنیا میں کچھ جرائم بارود سے کیے جاتے ہیں، اور کچھ خاموشی سے —  پانی، جو زندگی کا استعارہ ہے، جب ہتھیار بن جائے تو یہ صرف کھیتوں کو نہیں، انسانیت کو بھی ویران کر دیتا ہے۔

پاکستان کی زمین، جو دریاؤں کے سائے میں پروان چڑھی، آج ایک ایسے خطرے کی دہلیز پر کھڑی ہے جس کا تعلق  پانی  سے ہے۔
اگر بھارت، سیاسی یا انتقامی سوچ کے تحت، اپنے علاقے سے نکلنے والے دریاؤں — جہلم، چناب، سندھ — کا پانی پاکستان کی طرف روکنے کی کوشش کرے، تو یہ محض معاہدے کی خلاف ورزی نہیں، انسانیت کے خلاف  جرم ہو گا۔پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی تاریخ نئی نہیں۔

بلکہ انسانیت کے ماتھے پر سب سے گہرا داغ کربلا میں لگا تھا —
جب نہرِ فرات کو بند کر دیا گیا۔
حسینؑ کے ننھے علی اصغر کی پیاس صرف جسمانی نہیں تھی، وہ پیاس انصاف کی تھی، شرافت کی تھی، اور انسانیت کی آخری سانس تھی۔

پانی روکا گیا… اور تاریخ نے کروٹ بدلی تھی۔ 


جمعرات، 24 اپریل، 2025

کبوتر




کبوتر: قدرت کا ہوشیار قاصد

کبھی آسمان پر پرواز کرتا ایک معصوم سا کبوتر دیکھا ہے؟ شاید آپ نے اسے صرف ایک عام پرندہ سمجھا ہو، لیکن حقیقت اس سے کہیں زیادہ حیران کن ہے! کبوتر نہ صرف خوبصورتی اور محبت کی علامت ہیں بلکہ ذہانت، وفاداری اور حیران کن صلاحیتوں کے مالک بھی ہیں۔
دماغی صلاحیتیں: آئینے میں پہچان اور یادداشت کا کمال

کبوتر وہ نایاب پرندہ ہے جو آئینے میں اپنی شبیہ پہچان سکتا ہے — یہ صلاحیت صرف چند جانوروں کو حاصل ہے۔ یہی نہیں، وہ مختلف چہروں اور تصویروں کو طویل عرصے تک یاد بھی رکھ سکتے ہیں، یہاں تک کہ دوسرے کبوتروں میں فرق بھی پہچان سکتے ہیں۔
راستہ شناس: ہزاروں میل دور سے گھر واپسی

کبوتروں کی "ہومنگ" صلاحیت ایک معجزہ لگتی ہے۔ چاہے انھیں کتنی ہی دور چرا لیا جائے، وہ سینکڑوں میل دور سے اپنے آشیانے کا راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں — جیسے ان کے ذہن میں گوگل میپ انسٹال ہو!
بصارت، سماعت اور پرواز: حیرتوں بھری دنیا

ان کی نظر نہ صرف تیز ہے بلکہ وہ سطحوں کو 3D میں دیکھ سکتے ہیں۔ ان کی سماعت بھی غیر معمولی ہے، جو انسانوں کے سننے کی حد سے کہیں کم فریکوئنسی والی آوازوں کو بھی سن سکتی ہے۔ پہاڑ کی چوٹی سے یہ سینکڑوں میل دور سے ہواؤں کی سرگوشی سن لیتے ہیں، اور 26 میل دور تک دیکھ سکتے ہیں۔

کبوتروں کی پرواز بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ ایک دن میں سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پندرہ سو سے سترہ سو کلومیٹر کا سفر طے کر سکتے ہیں! ان کے دس ہزار پر، تیرہ انچ کی لمبائی، اور چھے سو دھڑکنیں فی منٹ ان کی طاقتور بناوٹ کا ثبوت ہیں۔
تاریخ کے قاصد: میدانِ جنگ میں ہیرو

پانچ ہزار سال پہلے یونانیوں نے کبوتروں کو پیغام رسانی کے لیے تربیت دینا شروع کیا۔ جنگ عظیم اول اور دوم میں بھی یہ خاموش سپاہی بن کر اُبھرے۔ ایک کبوتر، جس کا نام "چر آمی" (Cher Ami) تھا، زہریلی گیسوں سے بچتا ہوا، سینے اور ٹانگ پر گولیاں کھا کر بھی پیغام پہنچا گیا اور کئی زندگیاں بچا گیا۔ اسے اعزازی میڈل سے نوازا گیا — کیا انسان ایسا کارنامہ انجام دے سکتا ہے؟
محبت، ہمدردی اور ایثار

کبوتر صرف ذہین نہیں، دل والے بھی ہیں۔ کھانے کے وقت اگر کوئی بچہ پاس ہو، چاہے وہ ان کا ہو یا نہیں، یہ اسے دانہ کھلا دیتے ہیں۔ نر اور مادہ دونوں برابر کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ ایک نر کبوتر کی محبت اور وفاداری بھی قابلِ مثال ہوتی ہے۔
آج بھی خدمات جاری

فرانس، چین، اسرائیل، سویڈن اور دیگر ممالک میں آج بھی کبوتر فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ کبوتر ریس ایک مہنگی تفریح بن چکی ہے — سب سے مہنگا کبوتر 2,25,000 ڈالر میں فروخت ہوا!
روحانی اہمیت

اسلام، ہندو مت، سکھ مت اور بدھ مت — ہر بڑے مذہب میں کبوتروں کو دانہ ڈالنا باعثِ ثواب سمجھا جاتا ہے۔ یہ پرندے صرف زمین پر نہیں، دلوں میں بھی جگہ رکھتے ہیں۔

کبوتر کو اب صرف "پرندہ" کہنا شاید اس کی توہین ہو۔ وہ تو ایک ذہین، باوفا، خاموش قاصد ہے — جو صدیوں سے انسان کے ساتھ چل رہا ہے، کبھی چھاؤں، کبھی پیغام، کبھی دعا بن کر۔

تسلسل /مسلسل



 کائنات کے نظام میں تسلسل ایک بنیادی اصول ہے۔ سورج روز طلوع ہوتا ہے، رات ہر دن کے بعد آتی ہے، اور موسموں کی گردش کبھی نہیں رُکتی۔ یہی تسلسل فطرت کا حسن بھی ہے اور طاقت بھی۔ اسی تسلسل کی ایک شاندار مثال ہے: "پانی کا مسلسل بہاؤ سخت چٹان میں سے راستہ بنا لیتا ہے" — یہ صرف ایک قدرتی مشاہدہ نہیں بلکہ انسان کے لیے ایک عظیم درس ہے کہ اگر کوشش لگاتار ہو، تو کامیابی یقینی ہے، چاہے سامنے چٹان جیسی رکاوٹ ہی کیوں نہ ہو۔

تسلسل: کامیابی کی کنجی

پانی میں کوئی ظاہری سختی یا طاقت نہیں ہوتی، لیکن اس میں ایک خوبی ہے — وہ رکتا نہیں۔ نہ تھکتا ہے، نہ پیچھے ہٹتا ہے۔ نرم ہو کر بھی وہ چٹان کو کاٹ دیتا ہے، لیکن صرف ایک شرط پر: مسلسل بہنے کی شرط پر۔

انسان کی زندگی میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ کامیابی اُنہی کے قدم چومتی ہے جو وقتی ناکامیوں سے گھبرا کر رک نہیں جاتے، بلکہ پانی کی طرح بہتے رہتے ہیں، حالات سے الجھتے رہتے ہیں، اور وقت کے ساتھ اپنے لیے نئی راہیں نکال لیتے ہیں۔

قرآن کی روشنی میں: صبر اور تسلسل

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صبر اور استقامت کو بارہا کامیابی کی شرط قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ"
(العنکبوت 29:69)
اور جو لوگ ہمارے راستے میں جدوجہد کرتے ہیں، ہم ضرور انہیں اپنی راہیں دکھاتے ہیں، اور بے شک اللہ نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔

یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ جدوجہد مسلسل ہو تو رہنمائی بھی آتی ہے اور منزل بھی۔ یعنی وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو ٹھہرے نہیں رہتے، جو مشکلات کے باوجود چلتے رہتے ہیں۔

حضرت موسیٰؑ کا واقعہ بھی ہمیں یہی سکھاتا ہے۔ جب بنی اسرائیل سمندر کے کنارے بے بس کھڑے تھے، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو حکم دیا کہ لاٹھی سمندر پر مارو۔ اور پھر سمندر چٹان کی مانند دو حصوں میں بٹ گیا:

"فَانفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ"
(الشعراء 26:63)
تو سمندر پھٹ گیا اور ہر حصہ ایک بڑے پہاڑ کی مانند ہو گیا۔

یہ محض معجزہ نہیں تھا بلکہ صبر، یقین اور تسلسل کے بعد آنے والی فتح کی علامت تھی۔

بائبل کی روشنی میں: نہ رکنے کی تلقین

بائبل میں بھی یہی پیغام موجود ہے۔
پولس رسول فرماتے ہیں:

نیکی کرتے کرتے تھک نہ جاؤ، کیونکہ اگر ہم باز نہ آئیں تو وقت پر ہم اس کا پھل ضرور پائیں گے۔

یہ آیت تسلسل کی روح ہے۔ جب ہم تھکتے نہیں، جب ہم باز نہیں آتے، تبھی ہمیں پھل ملتا ہے۔ حضرت ایوبؑ کی زندگی اسی تسلسل کا نمونہ ہے — بیماری، غم اور تنہائی کے باوجود اُنہوں نے صبر نہیں چھوڑا، اور آخرکار اللہ نے انہیں دُگنا انعام دیا۔

 بہتے رہنے والا کبھی ہارتا نہیں

پانی کی طاقت اُس کی روانی میں ہے، اُس کے بہنے میں ہے۔ اگر وہ رُک جائے تو بدبودار ہو جاتا ہے، لیکن اگر وہ بہتا رہے تو زرخیزی، تازگی اور راستہ دونوں لے آتا ہے۔

اسی طرح، انسان کو بھی اپنی زندگی کے مقصد کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ رک جانا، تھک جانا، اور ہار مان لینا صرف ناکامی کی طرف لے جاتا ہے۔
جو بہتا ہے، وہ منزل پاتا ہے۔ جو رکتا ہے، وہ پتھر بن جاتا ہے۔

لہٰذا، کامیابی کا راز طاقت میں نہیں، تسلسل میں ہے۔ یہی قرآن کا درس ہے، یہی بائبل کی ہدایت، اور یہی فطرت کی گواہی۔

بدھ، 23 اپریل، 2025

اللہ آخر چاہتا کیا ہے


عملی زندگی میں  فخر کی روش عام ہو چکی ہے۔ کسی کو اپنے لباس پر فخر ہے کسی کو معاشرت پر تو کوئی قبیلہ کو اپنا فخر سمجھتا ہے اب توسنتے ہیں ہمیں مسلمان ہونے پر فخر ہے -  اسلامی تعلیمات کی روح اطاعت میں پوشیدہ ہے، فخر میں نہیں۔
دین کی اصل روح اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مکمل اطاعت ہے۔ اس کے برعکس، کہیں یہ نہیں فرمایا گیا کہ دین پر فخر کرو یا اس کی بنیاد پر دوسروں کو کمتر جانو۔
رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں فتح مکہ بڑا واقعہ تھا ۔ اس موقع پر کسی نے بھی فخر کا اظہار نہ کیا بلکہ سر سجدے میں تھے یہ منظر اس بات کی علامت ہے کہ طاقت، عزت اور اختیار بھی اگر مل جائے تو بندگی کا تقاضا جھکنا ہے، نہ کہ فخر کرنا۔
بدقسمتی سے آج امتِ مسلمہ کے اندر فخر اور تعصب نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔
بات لباس ، قبیلے ، سواری اور مسلک سے ہوتے ہوئے اسلام تک پہچ چکی ہے ۔ فخر ایک ایسا فریب ہے جو نہ صرف فرد کو حقیقت سے دور کرتا ہے بلکہ سماج کو انتشار اور نفرت کی طرف لے جاتا ہے۔ یہی فخر شیطان کا پہلا گناہ تھا، جس نے کہا: "أنا خير منه" (میں اس سے بہتر ہوں) — اور ہمیشہ کے لیے لعنت کا حقدار ٹھہرا۔
دوسری جانب اطاعت ایک ایسی خصلت ہے جو اللہ کی قربت کا راستہ ہے۔ یہ بندے کو اس کے اصل مقام، یعنی عبدیت، تک پہنچاتی ہے۔ یہی وصف ہمیں اللہ کے محبوب بندوں میں شامل کرتا ہے۔
اسلام کی سربلندی اس میں نہیں کہ ہم اس پر فخر کریں، بلکہ اس میں ہے کہ ہم اس کی اطاعت کریں۔  ہماری اطاعت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے ہے نہ کہ زبانی فخر کہ ہم مسلمان ہیں ۔ فخر ایک خول ہے جس میں بند ہو کر انسان اپنے خیالات کا ہی اسیر رہتا ہے جبکہ اطاعت ایسا خیمہ ہے جو ہوا دار بھی ہے اور باران کی رجمت سے بھیگتا بے تو اس کی نمی اندر تک محسوس ہوتی ہے ۔


آپ اس نیت سےقرآن کا مظالعہ کریں کہ کہ 
"اللہ آخر چاہتا  کیا ہے" 
تو جواب ملے گا
"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ"
(النساء: 59)
یعنی ’’اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔‘
 فخر خود فریبی ہے
جبکہ اطاعت مقصد حیات ہے 

پیر، 21 اپریل، 2025

دو نظریے، دو راستے



آج کے فکری، سماجی اور مذہبی انتشار سے بھرپور ماحول میں یہ سوال اکثر ذہن میں گونجتا ہے: کیا ہم یقین پر ہیں یا تعصب پر؟ دونوں کی شکلیں بظاہر ایک سی لگتی ہیں، مگر ان کی بنیادیں، نتائج اور اثرات زمین آسمان کا فرق رکھتے ہیں۔ ایک روشنی کی طرف لے جاتا ہے، تو دوسرا اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے۔

یہ سوال صرف ایک فرد کا نہیں، پورے معاشرے کا ہے — بلکہ پوری انسانیت کا۔

یقین کیا ہے؟

یقین سچائی پر مبنی اعتماد ہے۔ یہ تب پیدا ہوتا ہے جب انسان دلیل، مشاہدہ، علم، تجربہ اور شعور کی بنیاد پر کسی بات کو مانتا ہے۔ یقین ایک متحرک عمل ہے؛ یہ جمود نہیں لاتا بلکہ سوچنے، سیکھنے اور بہتر کرنے کا جذبہ بیدار کرتا ہے۔

قرآن میں حضرت ابراہیمؑ کی مثال موجود ہے، جنہوں نے بچپن سے ہی سوال کیے:
"یہ میرا رب نہیں ہو سکتا، یہ تو ڈوب جاتا ہے..."
یہ یقین عقل کے ذریعے پیدا ہوا، اور خدا کی تلاش کا سفر اُنہیں توحید کی حقیقت تک لے گیا۔ ان کا یقین تقلیدی نہیں، تحقیقی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں "ابو الانبیاء" کا درجہ ملا۔

تعصب کیا ہے؟

تعصب، یقین کا بگڑا ہوا روپ ہے۔ یہ بغیر تحقیق، دلیل یا کھلے ذہن کے کسی رائے یا عقیدے کو محض جذبات، روایات یا وراثت کی بنیاد پر قبول کرنا ہے۔ تعصب کی جڑیں اکثر خوف، انا، یا شناخت کے عدم تحفظ میں پیوست ہوتی ہیں۔

تعصب کی ایک کلاسیکی مثال مکہ کے کفار کی ہے، جنہوں نے نبی کریم ﷺ کی دعوت کو اس لیے رد کیا کہ وہ ان کے باپ دادا کے دین کے خلاف تھی۔
"ہم وہی کریں گے جو ہمارے بزرگ کرتے آئے ہیں..."
یہی تعصب تھا جس نے انہیں حق سے محروم کر دیا۔

یقین اور تعصب: معاشرتی اثرات

یقین معاشروں کو جوڑتا ہے، علم کو فروغ دیتا ہے، اور انسانی رویوں میں برداشت اور محبت پیدا کرتا ہے۔
دوسری طرف تعصب نفرت، تفرقہ، جمود اور بربادی لاتا ہے۔

آج بھی مذہبی انتہا پسندی، نسل پرستی، سیاسی فرقہ واریت — یہ سب تعصب کی ہی شکلیں ہیں۔ سوشل میڈیا نے جہاں معلومات کو عام کیا ہے، وہیں تعصبات کو بھی کئی گنا تیز کر دیا ہے۔

ایک رائے رکھنے والا دوسرے کی بات سننے کا روادار نہیں۔ لوگ دلیل سے زیادہ جذبات پر فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ صورتحال معاشرتی زوال کی علامت ہے۔

یقین: ترقی کی بنیاد

جب یقین سچائی اور تحقیق پر ہو، تو وہ علم کی نئی راہیں کھولتا ہے۔
ابنِ سینا، الرازی، جابر بن حیان — ان سب کے کارنامے یقین کی طاقت سے ہی ممکن ہوئے۔
یقین انسان کو سکون دیتا ہے، دل کی گہرائیوں میں اُترتا ہے، اور اسے اندرونی مضبوطی فراہم کرتا ہے۔ یہی وہ کیفیت ہے جو صوفیا، اولیاء، اور محققین کی زندگیوں میں نظر آتی ہے۔

تعصب: خطرناک جمود  

تعصب نہ صرف فرد کو بند ذہن کا حامل بناتا ہے، بلکہ پورے معاشرے کو ذہنی غلامی میں جکڑ دیتا ہے۔

آج اگر ہم سچ کو تسلیم کرنے کے بجائے "یہ ہمارے نظریے کے خلاف ہے" کہہ کر رد کر دیتے ہیں، تو ہم علم کی نہیں، صرف اپنی ضد کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں۔

کیا ہم یقین پر ہیں یا تعصب پر؟

یہ سوال ہمیں خود سے روز پوچھنا چاہیے:

  • کیا میں دلیل سنتا ہوں؟

  • کیا میں اپنی رائے بدلنے کو تیار ہوں اگر سچ سامنے آئے؟

  • کیا میں اختلاف کو برداشت کرتا ہوں؟

  • کیا میں صرف اس لیے کسی بات کو مانتا ہوں کہ میرے بزرگ یا گروہ نے کہا ہے؟

اگر ان سوالات کے جواب "ہاں" میں ہیں — تو خوش آئند بات ہے، ہم یقین پر ہیں۔
اگر "نہیں" — تو ہمیں رک کر، سوچ کر، اپنی سوچ پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔


یقین انسان کو آزاد کرتا ہے، اور تعصب اسے قید کر دیتا ہے۔
یقین دل کو کھولتا ہے، تعصب دل کو بند کر دیتا ہے۔
یقین سچائی کا دروازہ ہے، تعصب صرف انا کی دیوار۔


سایوں کے پیچھے بھاگتی زندگی

 



ہم میں سے اکثر نے زندگی میں کبھی نہ کبھی کوئی ایسی شے محسوس کی ہے جو وہاں نہیں تھی— کوئی سایہ، کوئی آواز، کوئی ہیولا۔ اور پھر اس "محسوس شدہ حقیقت" کو ہم وہم کا نام دے کر یا تو نظر انداز کر دیتے ہیں، یا پھر اس کے پیچھے ایک پوری کہانی بُن لیتے ہیں۔

وہم صرف ایک تصور نہیں، ایک کیفیت ہے— اور بعض اوقات ایک مکمل طرزِ زندگی بن جاتا ہے۔

میرے حلقہ احباب میں ایک صاحب نے حال ہی میں پریشان ہو کر بتایا کہ ان کے 22 سالہ بیٹے کو کئی دنوں سے اپنے کمرے میں اور کبھی کبھی گھر میں کوئی "ہیولا نما" شے دکھائی دیتی ہے۔ کبھی وہ انسانی شکل میں ہوتی اور کبھی کسی ناقابلِ بیان، مہیب صورت میں۔ والدین سخت پریشان تھے— دم درود سے لے کر ماہر نفسیات تک ہر دروازہ کھٹکھٹا چکے تھے، لیکن افاقہ نہیں ہو رہا تھا۔

تب ہمارے ایک تجربہ کار دوست نے بڑی سادہ سی بات کی۔ کہنے لگے: "اس نوجوان کو چاہیے کہ وہ رات کو 9 بجے ہر حال میں سوجائے، اور جو بھی کام رات کو کرتا ہے وہ صبح کر لیا کرے۔" بظاہر یہ مشورہ سادہ لگا، لیکن اس پر عمل ہوتے ہی نوجوان کے ہیولے غائب ہو گئے۔

یہ کوئی جادو نہ تھا، بلکہ انسانی دماغ کا کمال تھا۔ نیند کی کمی، مسلسل تنہائی، اور دماغ پر سکرینز کی روشنی— یہ سب مل کر ایسے "وہم" پیدا کر دیتے ہیں جو انسان کو سچ سے زیادہ حقیقی لگنے لگتے ہیں۔

ہمارے ہاں بدقسمتی سے وہم کو اکثر روحانیت، عاملوں اور جنات سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ کسی کو بخار ہو تو نظرِ بد، کسی کی ترقی رک جائے تو بندش، اور اگر کوئی نوجوان چپ چاپ بیٹھا ہو تو "کچھ تو ہے۔"
یہی کچھ تاریخ میں بھی ہوتا آیا ہے۔ سیلم (Salem) کی چڑیلوں کی مشہور مہم ہو، یا قدیم بادشاہوں کا اپنے مشیروں کو شک کی بنیاد پر قتل کر دینا— ہر جگہ وہم نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو زنگ آلود کر دیا۔

اسلام ہمیں وہم سے بچنے کا واضح درس دیتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
"اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔" (سورہ الحجرات: 12)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔"

وہم صرف ایک سوچ نہیں، ایک زنجیر ہے جو انسان کے اعتماد کو جکڑ لیتی ہے۔ ہم اپنے مسائل کا حل ڈھونڈنے کے بجائے ان کی وجہ کسی "غیبی" قوت کو دے دیتے ہیں، اور یوں خود کو عمل سے بری الذمہ سمجھنے لگتے ہیں۔

اگر وہ نوجوان رات کو جلد سونے سے ٹھیک ہو سکتا ہے، تو ہم سب بھی سادہ، متوازن زندگی اپنا کر بہت سے ذہنی سایوں سے نجات پا سکتے ہیں۔

وہم کا علاج فلسفہ یا عملیات میں نہیں، بلکہ نظم، علم، نیند، سادہ زندگی اور اللہ پر یقین میں ہے۔ ہم جتنا جلد یہ سیکھ لیں، اتنا بہتر۔

61 ہارلے صتریٹ راولپنڈی



 "تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی" — یہ جملہ جب بھی ذہن میں آتا ہے، تو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نام بے اختیار ذہن پر دستک دیتا ہے: آغا محمد یحییٰ خان۔ یہ وہ جرنیل تھا جس نے ایک خودمختار قوم کی باگ ڈور سنبھالی اور بدترین سیاسی ناپختگی، ذاتی کمزوریوں اور اقتدار کے نشے میں ایک ایسا فیصلہ کیا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ سقوطِ مشرقی پاکستان صرف ایک جغرافیائی سانحہ نہ تھا، بلکہ یہ ہماری اجتماعی سوچ، رویے اور حکمرانی کی ناکامی کا اعتراف بھی تھا۔ یحییٰ خان نے اقتدار جنرل ایوب خان سے 1969 میں سنبھالا۔ ابتدا میں یوں لگا جیسے وہ واقعی ایک راست باز جرنیل ہے، جو پاکستان کو جمہوری عمل کی طرف لے جائے گا۔ 1970 میں ملک کے پہلے عام انتخابات کروانا یقیناً ایک بڑا فیصلہ تھا۔ مگر اصل آزمائش اُس وقت شروع ہوئی جب عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں واضح اکثریت حاصل کی، اور یحییٰ خان کے لیے اقتدار کی قربانی دینا مشکل ہو گیا۔ یحییٰ خان نے اقتدار عوامی نمائندوں کو سونپنے کے بجائے بندوق کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔ آپریشن سرچ لائٹ کے نام پر ہزاروں بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ لاکھوں افراد نے اپنی جان، مال اور عزت گنوائی۔ بنگالیوں کے لیے یحییٰ خان کا نام آج بھی ظلم، جبر اور استبداد کی علامت ہے۔ وہ اسے ایک ایسا مغرور اور بے رحم حکمران مانتے ہیں، جس نے عوامی مینڈیٹ کو کچل کر پاکستان کو دو لخت کر دیا۔ یہی نہیں، بلکہ حمود الرحمٰن کمیشن نے بھی یحییٰ خان کو اس قومی المیے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ رپورٹ کے مطابق وہ ایک اقتدار پرست، غیر سنجیدہ اور بدعنوان شخص تھا۔ کمیشن نے اس کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی سفارش کی، مگر افسوس! طاقتور حلقوں کے درمیان حساب کبھی پورا نہیں ہوتا۔ یحییٰ خان کی شخصیت کا تضاد یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر چین اور امریکہ کے مابین سفارتی تعلقات قائم کرنے میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا، مگر اندرونِ ملک وہ ایک ناکام حکمران، بے سمت لیڈر اور اخلاقی دیوالیہ پن کی مثال ثابت ہوا۔ بنگلہ دیش میں آج بھی تعلیمی نصاب اور عوامی بیانیے میں یحییٰ خان کو ایک ظالم فاتح اور جمہوریت کش آمریت کی علامت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ وہ انہیں یاد آتا ہے تو آنکھوں میں نفرت اور دل میں درد اُمڈ آتا ہے۔ یحییٰ خان کا انجام بھی عبرت ناک تھا — اقتدار سے محرومی کے بعد اپنے ہی گھر 61 ہارلے سٹریٹ میں نظر بندی، عوامی بے زاری، اور بالآخر خاموشی سے موت۔ نہ عزت، نہ معافی، نہ دفاع۔ یہ ایک جنرل کی کہانی ہے، جو سپاہی تو اچھا تھا، مگر حکمران بننے کی صلاحیت اس میں نہ تھی۔ آج جب ہم جمہوریت، آئین اور اداروں کی بالادستی کی بات کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ ماضی کے ان کرداروں کا جائزہ لیں جن کی شخصی غلطیوں نے قومی زخموں کو جنم دیا۔ یحییٰ خان کی کہانی ہمارے لیے آئندہ کے لیے ایک عبرت ہے، شرط صرف یہ ہے کہ ہم سبق لینا چاہیں۔

سُمیترا سنگھ کی حیران کن کہانی



1968 

کے قریب، ضلع اٹاوہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں انگد کا نگلا میں سُمیترا سنگھ پیدا ہوئیں۔ والد کا سایہ نہ تھا، ماں کا بھی جلد انتقال ہو گیا، سو سُمیترا نے بچپن کزن کے ساتھ گزارا اور وہیں سے کچھ پڑھنا لکھنا سیکھا۔

تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی شریف پورہ کے جگدیش سنگھ سے ہوئی۔ تین سال بعد ایک بیٹا پیدا ہوا، مگر اسی دوران سُمیترا پر عجیب کیفیت طاری ہونے لگی۔ وہ بے ہوش ہو جاتیں، آنکھیں الٹی ہو جاتیں، دانت بھینچ لیتیں اور کبھی خود کو "سنتوشی ماتا" یا کسی دوسری روح کا حامل بتاتیں۔ علاج کی ہر کوشش ناکام رہی۔

پھر 19 جولائی 1985 کو ایک ایسا لمحہ آیا جس نے سب کو چونکا دیا۔ سُمیترا اچانک بے ہوش ہو گئیں، سانس اور نبض بند، چہرہ زرد۔ سب نے سمجھا وہ مر چکی ہیں۔ مگر چند منٹ بعد وہ زندہ ہو گئیں—مگر اب وہ "سُمیترا" نہیں تھیں۔ ہوش میں آتے ہی خود کو "شیوا تریپاٹھی" کہنے لگیں، ایک ایسی خاتون جسے ان کے سسرالیوں نے قتل کیا تھا۔

نئی شناخت، نئی یادداشت

سُمیترا نہ اپنے شوہر کو پہچانتی تھیں، نہ بیٹے کو۔ البتہ وہ شیوا کے خاندان، دوستوں، بچوں اور یہاں تک کہ روزمرہ تفصیلات تک سے واقف تھیں—جیسے شیوا کی زرد ساڑھی، ہاتھ کی گھڑی، محلے کے نام اور حتیٰ کہ اسکول کا پتہ۔

ان کی شخصیت، بول چال، لباس، عادات سب بدل گئے۔ وہ اپنے اصل شوہر کو کمتر سمجھتیں، اور صرف "شیوا" کہلانا پسند کرتیں۔ بعد میں انہوں نے جگدیش اور اپنے بیٹے کو قبول تو کیا، مگر شیوا ہونے کا دعویٰ کبھی نہیں چھوڑا۔

تحقیقات اور حیران کن انکشافات

یہ غیر معمولی کیس محققین ایان اسٹیونسن اور ڈاکٹر ستونت پاسریچا کی نظر میں آیا۔ انہوں نے 1985 سے 1987 تک دونوں خاندانوں، علاقوں اور گواہوں سے کئی بار ملاقات کی، اور نتیجہ یہ نکالا کہ سُمیترا نے کم از کم 19 ایسی باتیں کہیں جو شیوا کے قریبی لوگوں کے سوا کوئی نہیں جان سکتا تھا۔

مزید تحقیق میں انکشاف ہوا کہ سُمیترا نے واقعے سے پہلے کبھی مکمل ہندی نہیں سیکھی تھی، مگر اب وہ رواں دستخط اور تحریریں لکھنے لگی تھیں، بالکل شیوا کی طرح۔

مابعد زندگی کا بیان

سُمیترا کا کہنا تھا کہ مرنے کے بعد انہیں یم راج کے دربار میں لے جایا گیا، جہاں دیوی سنتوشی ماتا کی مداخلت پر انہیں سات سال کے لیے واپس زمین پر بھیجا گیا—شیوا کی روح کے ساتھ۔

علمی و نفسیاتی بحث

ماہرین اس واقعے کو "ری پلیسمنٹ ری انکارنیشن" یعنی بغیر موت کے روح کی تبدیلی کہتے ہیں۔ کچھ نے اسے نفسیاتی کیفیت یا ممکنہ طور پر سماجی پوزیشن بہتر بنانے کی کوشش بھی قرار دیا۔ تاہم تحقیقات اس بات پر متفق تھیں کہ سُمیترا نے کبھی بھی یہ دعویٰ ترک نہیں کیا کہ وہ شیوا ہیں۔

خاتمہ

سُمیترا 1998 میں اور ان کے شوہر 2008 میں وفات پا گئے۔ ان کی زندگی کا یہ پہلو—جنم نو یا قبضہ؟—آج بھی انسانی شعور، روح اور زندگی کے بعد کے سوالات کو جنم دیتا ہے۔

جو لوگ مزید تفصیل جاننا چاہیں ۔ اس لنک پر کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں

https://psi-encyclopedia.spr.ac.uk/articles/sumitrashiva-replacement-reincarnation-case

بدبخت کو موت بھی نہیں آتی



انسانی جذبات میں ایک جذبہ ایسا بھی ہے جو نظر نہیں آتا، مگر اندر ہی اندر روح کو جلا کر خاکستر کر دیتا ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو دوسروں کی خوشی، کامیابی، دولت یا حسن کو دیکھ کر دل میں چبھن کی صورت جاگتا ہے۔ یہ چبھن بظاہر خاموش ہوتی ہے، لیکن انسان کو اندر ہی اندر کھا جاتی ہے۔ یہی وہ کیفیت ہے جسے حسد کہا جاتا ہے — اور اسی لیے کہا گیا ہے:

انسانی تاریخ میں اگر جھانکا جائے تو حسد نے نہ صرف افراد کو بلکہ پوری قوموں کو برباد کیا ہے۔ رشتے ناتوں میں دراڑیں ڈالیں، اور دلوں میں زہر گھولا۔ قابیل کا ہابیل کو قتل کرنا انسانی تاریخ کا پہلا قتل تھا، اور اس کے پیچھے محرک حسد ہی تھا۔

دنیا کے ہر بڑے مذہب نے حسد کو بُرا اور تباہ کن قرار دیا ہے:

تورات میں کہا گیا:

"تو اپنے پڑوسی کے گھر کا لالچ نہ کر... اور نہ کسی چیز کا جو اس کی ہو۔"

انجیل کہتی ہے:

"پرامن دل جسم کو زندگی دیتا ہے، لیکن حسد ہڈیوں کو گلادیتا ہے۔"

بھگوت گیتا میں ہے:

"جو سب کے لیے خیر خواہ ہو، حسد سے پاک ہو، وہی میرا سچا بھکت ہے۔"

قرآن پاک میں سورہ الفلق میں ارشاد ہوتا ہے:

"اور حسد کرنے والے کے شر سے، جب وہ حسد کرے، میں پناہ مانگتا ہوں۔"

احادیثِ مبارکہ

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔"

اہلِ علم کی نظر میں

حسد کے بارے میں مفکرین نے بھی کڑی تنقید کی ہے:

ارسطو نے کہا:

"کسی کی خوشی کو دیکھ کر جو درد دل میں ہو، وہی حسد ہے۔"

فرانسس بیکن کے مطابق:

"حسد سب سے بدترین جذبہ ہے۔"

حضرت علیؓ فرماتے ہیں:

"حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔"

شیخ سعدیؒ نے کہا:

"حسد علم سے پیدا ہو تو علم وبال بن جاتا ہے۔"

ایک مسلسل پیچھا کرنے والا سایہ

حسد نہ دن دیکھتا ہے، نہ رات، نہ موسم، نہ موقع۔ یہ چھٹی نہیں کرتا — نہ جمعہ، نہ اتوار، نہ تعطیلات۔ ہر وقت، ہر لمحہ یہ انسان کا پیچھا کرتا ہے۔ اور اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو یہ انسان کو جیتے جی مار دیتا ہے۔

بدبخت کو موت بھی نہیں آتی — 

اتوار، 20 اپریل، 2025

میں ڈرتا ہوں

 



جب علم، عمل سے خالی ہو جائے

یہ بظاہر علم کا دور ہے۔ ہر طرف کتابیں چھپ رہی ہیں، تقاریر ہو رہی ہیں، منبر گونج رہے ہیں، ڈگریاں تقسیم کی جا رہی ہیں، اور ہر سڑک و گلی میں اقوالِ زریں جگمگا رہے ہیں۔ مگر افسوس، دل و دماغ پر سنّاٹا چھایا ہے۔ کردار زبانوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے،عمل، شخصیت کی اصل علامت، بےرنگ ہو چکے ہیں۔

علم کی گونج تو ہے، لیکن عمل کی روشنی ندارد۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے چشمہ تو ہے مگر اس کے کنارے خشک ہیں، اور پیاسے راہ بھول چکے ہیں۔ یہی وہ وقت ہے جب قرآن ہمیں جھنجھوڑتا ہے:

"پھر تمہارے دل سخت ہو گئے، تو وہ پتھروں کی مانند ہو گئے یا اس سے بھی زیادہ سخت۔ اور بعض پتھر ایسے ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں، اور بعض ایسے ہیں جو پھٹ پڑتے ہیں، پھر ان سے پانی نکل آتا ہے، اور بعض ایسے ہیں جو اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔ اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں۔"
(سورۃ البقرہ، آیت 74)

یہ آیت فقط بنی اسرائیل کی سرگزشت نہیں، بلکہ آج کے مسلمان کا عکس ہے۔ وہ شخص جو علم تو رکھتا ہے، مگر اس کے دل پر نہ خدا کا خوف ہے، نہ عمل کی رمق۔ جس کی زبان پر دین کی باتیں ہیں، مگر اس کے قدم گناہوں کی راہ پر رواں ہیں۔ جو دوسروں کو نصیحت کرتا ہے، مگر خود اس پر عمل کرنے سے قاصر ہے۔

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

"قیامت کے دن ایک پڑھے لکھے کو لایا جائے گا، جس نے علم حاصل کیا، قرآن پڑھا، سکھایا، مگر اس پر خود عمل نہ کیا۔ تو اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔"
(صحیح مسلم)

امام حسن بصریؒ کی بصیرت افروز بات ہمارے دلوں کو جھنجھوڑتی ہے:

"علم بغیر عمل پاگل پن ہے، اور عمل بغیر علم گمراہی۔"

آج ہم نے جھوٹ، غیبت، خیانت، حسد، ریاکاری، اور خودغرضی جیسے عیوب کو معمولی سمجھ کر اپنی شخصیت کا حصہ بنا لیا ہے۔ یہی وہ گناہ ہیں جو دل کو سخت، کردار کو کھوکھلا، اور معاشرے کو مفلوج کر دیتے ہیں۔

ابنِ خلدون نے سچ کہا تھا:

"جب کسی قوم کے صاحبان علم،  علم رکھتے ہوں مگر کردار نہ ہو، تو اس قوم کا زوال یقینی ہو جاتا ہے۔"

آج ہم اسی خطرناک موڑ پر کھڑے ہیں۔ استاد، مبلغ ، لیڈر کا قول اس کے فعل سے میل نہیں کھاتا، واعظ کی زندگی اس کی تقریر کی نفی کرتی ہے، اور رہنما کے فیصلے اس کی زبان سے متضاد ہوتے ہیں۔ ہم نے علم کو صرف رٹنے، بولنے اور سنانے کی چیز بنا دیا ہے، عمل کو زندگی سے نکال پھینکا ہے۔ دل ایسی زمین بن چکے ہیں جن پر نہ نصیحت اثر کرتی ہے، نہ عبادت۔

مسئلہ صرف اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی بھی ہے۔ ہم میں سے اکثر کا رویہ یہ بن چکا ہے
"میری ایک چھوٹی سی بدعملی سے کیا فرق پڑے گا؟"
مگر یہ سوچ دراصل بگاڑ کی جڑ ہے۔ معاشرہ افراد سے بنتا ہے، اور جب ایک فرد خود کو درست کرتا ہے، تو ایک چراغ جلتا ہے، جو اور چراغوں کو روشن کر سکتا ہے۔ بہتری کا آغاز خود سے ہی ممکن ہے۔

علم دراصل وہ چراغ ہے جو تبھی روشنی دیتا ہے جب اس میں عمل کا تیل ہو۔ اگر یہ تیل نہ ہو تو علم، اندھیرے کو اور گہرا کر دیتا ہے۔ اور بےعمل ، صاحب علم، وہ پہلا شخص ہوگا جو قیامت کے دن اپنے ہی علم کی آگ میں جھلسے گا۔

شیخ سعدی نے کہا تھا

"میں دو ہستیوں سے ڈرتا ہوں: ایک اللہ سے، دوسرا اُس شخص سے جو اللہ سے نہیں ڈرتا۔"

آج ہمیں رک کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہمارے دل اس قابل رہ گئے ہیں کہ اللہ کے خوف سے لرزیں؟ یا ہم ان پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہو چکے ہیں جن کی مثال قرآن نے دی؟ اگر ہاں، تو وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے دلوں کو نرم کریں، اپنی نیتوں کو خالص کریں، اور علم کو عمل سے جوڑیں۔

۔کیونکہ یہی وہ راہِ مستقیم ہے جس پر چل کر انسان سرخرو ہو سکتا ہے 

اقبال کی فریاد بھی پڑھ لیں:

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نوری ہے نہ ناری ہے

ہفتہ، 19 اپریل، 2025

ماضی کے آئینے میں قید معاشرہ

 


ماضی کے آئینے میں قید معاشرہ

تحریر: دلپذیر

ہر قوم کا ماضی اُس کی پہچان کا ستون، اُس کے شعور کا دریا، اور اُس کی اجتماعی یادداشت کا خزانہ ہوتا ہے۔ یہ ماضی کبھی عروج کی داستانیں سناتا ہے، کبھی زوال کے اسباق۔ مگر جب کوئی معاشرہ صرف انہی بیتے دنوں میں اُلجھ کر رہ جائے، تو حال کی حقیقتیں اور مستقبل کے امکانات اُس کی نظر سے اوجھل ہونے لگتے ہیں۔ تب ماضی چراغِ راہ نہیں رہتا—وہ ایک چمکتا ہوا قید خانہ بن جاتا ہے، جہاں فکر کی پرواز ساکت ہو جاتی ہے۔

ہماری تاریخ میں سنہری باب موجود ہیں۔ عباسی دور میں بغداد کی "بیت الحکمت" علم و تحقیق کا ایک ایسا مرکز تھی جہاں مختلف مذاہب کے علما اکٹھے بیٹھ کر سائنس، فلسفہ، طب اور ریاضی پر تحقیق کرتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب خوارزمی الجبرا کی بنیاد رکھ رہے تھے، ابن الہیثم روشنی اور بصریات پر تجربات کر رہے تھے، اور ابن سینا "القانون" جیسی طبی کتابیں لکھ رہے تھے جو صدیوں تک یورپ کی جامعات میں پڑھائی جاتی رہیں۔

اسی طرح اندلس، جہاں قرطبہ کی لائبریریاں اور غرناطہ کے تعلیمی مراکز علم کا سمندر بن چکے تھے، تہذیب، رواداری اور تخلیقی قوت کی عظیم مثال تھے۔ مسلمان معلم فقہ و حدیث کے ساتھ ساتھ فلکیات، موسیقی، فنِ تعمیر، اور طب میں بھی مہارت رکھتے تھے۔

لیکن آج ہم اُن کارناموں کو آگے بڑھانے کے بجائے اُن کا ماتم کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ "جب ہم حکمران تھے..."، یا "ہم نے سائنس ایجاد کی تھی..."۔ سوال یہ ہے کہ ہم آج کیا کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے علم کی وہ مشعل نئی نسل کو تھمائی ہے؟ کیا ہم نے تحقیق و اجتہاد کی وہ روش برقرار رکھی ہے؟

ہمارے خطیب، مقرر، دانشور، اور بعض دینی رہنما آج بھی ماضی کی عظمت پر خطبے دیتے ہیں، مگر حال کی سائنس کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ زمین کو چپٹا قرار دینا، سورج کو ساکن کہنا، اور سائنسی ایجادات کو بدعت سمجھنا—یہ رویے اُسی ماضی پرستی کی علامت ہیں، جو ترقی کا سب سے بڑا دشمن ہے۔

برصغیر کی تحریکِ آزادی بھی ماضی کا ایک روشن باب ہے۔ سر سید احمد خان نے تعلیم کی شمع روشن کی، اقبال نے خودی اور تجدیدِ فکر کی دعوت دی، اور قائداعظم محمد علی جناح نے اصول پسندی، قانون اور فہم و فراست کے ساتھ ایک قوم کو بیدار کیا۔ مگر آج اُن کی بصیرت کے بجائے صرف تصویریں، اقوال اور قومی تقاریر باقی رہ گئی ہیں۔

سچ یہ ہے کہ ماضی کو دیوتا بنا کر پوجنا فکر کا زوال ہے۔ ہم نے لاوڈ اسپیکر کو کفر کہا، پرنٹنگ پریس کو حرام سمجھا، اور ٹیلی ویژن کو فتنہ قرار دیا۔ آج جب دنیا مصنوعی ذہانت، بائیوٹیکنالوجی، اور خلائی تحقیق کے میدان میں دوڑ رہی ہے، ہم آج بھی پرانی فتووں میں الجھے بیٹھے ہیں۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ماضی سے سبق ضرور لیں، مگر اس میں قید نہ ہو جائیں۔ نوجوانوں کو صرف داستانیں نہ سنائیں، اُنہیں سوال کرنے، تحقیق کرنے، اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیں۔ اقبال نے فرمایا تھا:

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

یہ "نم" صرف ماضی کی یاد میں آنکھ نم کرنے سے نہیں آتا۔ یہ نم تحقیق، تخلیق، اور تدبر سے آتا ہے۔ اگر ہم نے آج کے سوالوں کے جواب نہ دیے، تو کل ہماری نسلیں بھی صرف بیتے وقت کی تصویریں سجانے میں مصروف رہیں گی، کچھ نیا نہ سوچ سکیں گی۔

تاریخ بنانے والی اقوام آگے دیکھتی ہیں۔ جو صرف پیچھے دیکھیں، وہ آخرکار ماضی کا حصہ بن جاتی ہیں—خاموش، بےآواز، اور عبرت ناک۔

قران میں سب سے زیادہ ذکر کیا گیا پیغمبر



قرآنِ کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر 136 مرتبہ مختلف مقامات پر آیا ہے، جو کسی بھی نبی کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ ان کا ذکر متعدد سورتوں میں ہوا، جن میں:

  • سورہ اعراف میں 28 بار

  • سورہ شعراء میں 18 بار

  • سورہ قصص میں 18 بار

  • سورہ طہ میں 16 بار

  • سورہ انعام میں 10 بار

  • سورہ یونس اور سورہ مائدہ میں 8، 8 بار

  • سورہ بقرہ میں 6 بار شامل ہے

یہ بات حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حیات مبارکہ کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح ان کے واقعات قرآن مجید میں بار بار دہرائے گئے تاکہ امت کے لیے سبق اور رہنمائی کا ذریعہ بن سکیں۔

نسب اور پیدائش

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نسب یوں بیان کیا جاتا ہے: موسیٰ بن عمران بن لاوی بن یعقوب علیہ السلام۔ آپ کی پیدائش حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات کے تقریباً 100 سال بعد مصر میں اُس وقت ہوئی جب فرعون نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا اور ان پر ظلم و ستم کی انتہا کر رکھی تھی۔

فرعون کا ظلم اور بنی اسرائیل کی حالت

فرعون نے بنی اسرائیل کو کمزور کر کے مختلف طبقات میں تقسیم کر دیا۔ ان سے جبری مشقت لی جاتی، زمین و جائیداد رکھنے کا حق نہ تھا، اور سرکاری عہدے ان کے لیے ممنوع تھے۔ ہفتے میں صرف ایک دن کی چھٹی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کوششوں سے ممکن ہوئی، جو ان مظلوموں کے لیے ایک بڑی سہولت تھی۔

ولادت اور بچپن

فرعون کے حکم پر بنی اسرائیل کے نومولود لڑکوں کو قتل کیا جا رہا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے تین ماہ تک آپ کو چھپایا، پھر اللہ کے حکم سے ایک صندوق میں ڈال کر دریائے نیل کے حوالے کر دیا۔ وہ صندوق فرعون کے محل کے قریب جا پہنچا، جہاں فرعون کی بیوی آسیہ نے آپ کو اپنی اولاد کے طور پر پال لیا۔ "موسیٰ" قبطی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے "پانی سے نکالا گیا"۔

تعلیم و تربیت اور مصر سے ہجرت

فرعون کے محل میں پروان چڑھنے والے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ آپ قوی جسم، شجاع اور نڈر شخصیت کے مالک تھے۔ ایک دن جب ایک مصری ایک بنی اسرائیلی کو مار رہا تھا، تو آپ نے مداخلت کی اور مصری مارا گیا۔ یہ واقعہ آپ کی مصر سے مدین کی طرف ہجرت کا سبب بنا۔

مدین میں قیام اور شادی

مدین میں آپ کی ملاقات حضرت شعیب علیہ السلام کی دو بیٹیوں سے ہوئی جو کنویں سے پانی بھر رہی تھیں۔ آپ نے ان کی مدد کی، جس کے بعد حضرت شعیب علیہ السلام نے آپ کو اپنے گھر بلایا اور بعد ازاں اپنی بیٹی کا نکاح آپ سے کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے وہاں دس سال قیام کیا اور شعیب علیہ السلام کے جانوروں کی دیکھ بھال کی۔

نبوت اور فرعون سے مقابلہ

چالیس سال کی عمر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت عطا ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے ساتھ فرعون کے پاس جائیں اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ کریں۔ فرعون نے انکار کیا، اور جب متعدد معجزات دیکھے، تب بھی ایمان نہ لایا۔ آخرکار، اللہ کے حکم سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو مصر سے نکالا۔ سمندر کو اللہ نے ان کے لیے راستہ بنا دیا، اور فرعون اپنے لشکر سمیت غرق ہو گیا۔

بنی اسرائیل کی سرگردانی اور تورات کا نزول

مصر سے نکلنے کے بعد، حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر صحرائے سینا کی طرف روانہ ہوئے، جہاں آپ کو کوہِ طور پر تورات عطا ہوئی۔ لیکن بنی اسرائیل نے سونے کے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی، جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سخت سرزنش کی۔ ان کی مسلسل نافرمانیوں کے سبب اللہ تعالیٰ نے انہیں چالیس سال تک صحرا میں بھٹکنے کی سزا دی۔

وفات

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں بنی اسرائیل کو اللہ کی اطاعت کی تاکید کی۔ آپ کی وفات صحرائے سینا میں ہوئی، اور آپ کی قبر کا مقام اللہ تعالیٰ نے پوشیدہ رکھا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حیات طیبہ ہمیں صبر، استقامت، عدل، جرات اور اللہ پر کامل توکل کا درس دیتی ہے۔ 

جمعہ، 18 اپریل، 2025

چائے والا

 


" ایک تاجر، ایک سبق، اور 100 دن کی رفاقت"

ان دنوں میں ایک امریکی  سافٹ ویئر کی مارکیٹنگ کرتا تھا۔ میں اس سافٹ ویئر کو مختلف کاروباری مراکز میں متعارف کرواتا، دکانداروں کو قائل کرتا اور ان کے سسٹمز کو کمپیوٹرائز کرنے میں مدد دیتا۔ راولپنڈی کے مشہور تجارتی مراکز جیسے سٹی صدر روڈ، نرنکاری بازار اور راجہ بازار میں میرے متعدد گاہک تھے۔

انہی میں سے ایک تاجر ایسے تھے جن سے میری پیشہ ورانہ وابستگی وقت کے ساتھ ایک جذباتی اور سیکھنے کا رشتہ بن گئی۔ وہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے، مگر ان کی کاروباری ذہانت، خلوص اور معاملہ فہمی غیر معمولی تھی۔ میں نے انہیں سافٹ ویئر خریدنے پر آمادہ کیا، اور ان کے سٹور کو مکمل طور پر کمپیوٹرائز کرنے کا آغاز کیا۔

کچھ ہفتے، کچھ مشاہدے:

شروع کے چند ہفتوں میں ہی مجھے احساس ہوا کہ میں صرف ایک دوکان کے ساتھ نہیں، بلکہ ایک سوچ کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔ وہ تاجر نہ صرف کاروبار کے ماہر تھے بلکہ انسان شناس بھی تھے۔
ان کی دوکان تو شام کے اوقات میں بند ہو جاتی، مگر میں اکثر ان کے دو ملازمین کے ساتھ دیر تک سسٹم کی ترتیب، اسٹاک کی ڈیجیٹل فہرست اور بلنگ کے خودکار طریقہ کار پر کام کرتا رہتا۔

 میں نے محسوس کیا کہ کچن میں چائے بناے  والا ایک نوجوان بھی ہر روز آخر وقت تک وہیں رکا رہتا ہے۔ وہ خاموشی سے کام کے ماحول کو سیکھ رہا ہوتا، جیسے اسے بھی کچھ نیا حاصل کرنا ہو۔

معاہدے کی تکمیل اور الوداعی عشائیہ:

میرا ان سے معاہدہ 100 دن کا تھا۔ میں نے اپنے حصے کا کام مکمل کیا اور اجازت لینے پہنچا۔ مگر انھوں نے مجھے روک کر بتایا کہ  میرے اعزاز میں عشائیے کا انتظام کیا گیا ہے۔

اس عشائیے میں ان کے ساتھ کام کرنے والے تمام 38 افراد شریک تھے۔ وہ ایک خوشگوار اور غیر رسمی محفل تھی۔ ہر چہرے پر محبت اور احترام جھلک رہا تھا۔

ایک سادہ شخص کی بڑی باتیں:

عشائیے کے اختتام پر وہ تاجر خود کھڑے ہوئے اور اپنے بارے میں بات کرنا شروع کی —
انہوں نے بتایا کہ وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے، تعلیم مکمل نہ کر سکے، مگر محنت کو کبھی کمزور نہ پڑنے دیا۔ "میں نے ہمیشہ کام کو اپنا سمجھ کر کیا" — انہوں نے کہا،

"جب میں نے ہوٹل میں برتن  تب بھی خود کو اس ہوٹل کا حصہ سمجھا۔ جب میں نے کسی کے ساتھ مل کر پرچون چلائی، تب بھی ایسے کام کیا جیسے یہ میری دکان ہو۔ ہارڈوئر کی دوکان چلائی تو اپنی سمجھ کر چلائی۔"


"کام کو اپنا سمجھ کر کرنا انسان کو ذمہ دار بناتا ہے، اور جب انسان ذمہ دار ہو جاتا ہے تو کامیابی کی سیڑھیاں خود بخود اس کے قدموں میں بچھنے لگتی ہیں۔"

یہ جملہ میرے دل میں اتر گیا۔
میں تو انہیں ایک سافٹ ویئر سکھانے آیا تھا، مگر وہ مجھے زندگی کا سب سے قیمتی اصول سکھا گئے۔



چائے بناے والا لڑکا اج بھی اسی سٹور پر کام کر ہا ہے ۔ مگر اب وہ چائے نہیں بناتا بلکہ ستور کے اکاونٹ دیکھتا ہے ۔  

یہ کیسے ممکن ہوا ۔ میں نے پوچھا ۔ اس کا جواب تھا"ہمارے حاجی صاحب نے پہلے دن ہی مجھے کہا تھا ۔ اس دوکان کو اپنا سمجھ کر کام کرنا" 6 ماہ تک میں سوچتا رہا اپنی دوکان سمجھ کر کام کروں گا تو بھی مجھے چائے ہی بنانا ہے ۔ مگر میں نے جب اس دوکان کو اپنا سمجھنا شروع کیا تو مجھے احساس ہوا کہ مجھ پر کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں ۔ میں نے ذمہ داریاں قبول کرنا شروع کیں تو میں حاجی صاحب کے ذینی طور پر قریب ہوتا چلا گیا ۔

تم نئے آنے والوں کو کیا ہدائت دیتے ہو " وہی جو حاجی صاحب نے مجھے پہلے دن دی تھٰی  

"کام کو اپنا سمجھو، پھر دیکھو تم کتنے اہم ہو جاتے ہو"

سوشل میڈیا پر مختلف خطوں میں مقبول موضوعات کا تجزیاتی جائزہ

 

سوشل میڈیا پر مختلف خطوں میں مقبول موضوعات کا تجزیاتی جائزہ
(تحریر: ڈی اے جنجوعہ)

سوشل میڈیا موجودہ دور کی ایک طاقتور حقیقت بن چکا ہے۔ ہر خطے میں اسے مختلف انداز سے استعمال کیا جاتا ہے۔ جہاں کہیں یہ اظہارِ رائے کا ذریعہ ہے، وہیں کہیں یہ تفریح، معلومات، کاروبار یا معاشرتی بیداری کا وسیلہ بھی ہے۔ دنیا کے ہر خطے کے لوگ اپنی ثقافت، حالات، رجحانات اور ضروریات کے مطابق سوشل میڈیا پر مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں۔
اس مضمون میں ہم چین، جاپان، برصغیر (پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش)، یورپ، افریقہ اور امریکہ کے سوشل میڈیا رجحانات کا جائزہ لیں گے۔


چین میں سوشل میڈیا کا رخ

چین میں سوشل میڈیا سخت حکومتی نگرانی اور سنسرشپ کے باوجود انتہائی فعال ہے۔ WeChat، Weibo، Douyin جیسے پلیٹ فارمز عام ہیں۔ یہاں سوشل میڈیا پر درج ذیل موضوعات نمایاں ہوتے ہیں:

  • ٹیکنالوجی اور اختراعات: مصنوعی ذہانت، سمارٹ سٹیز، روبوٹکس وغیرہ۔

  • صحت، خوراک، اور طرزِ زندگی پر مشورے اور معلوماتی ویڈیوز۔

  • قومی وقار اور ثقافتی ورثہ کی تشہیر۔

  • برانڈز اور پروڈکٹس کے ریویوز۔


جاپان میں سوشل میڈیا کا انداز

جاپان میں سوشل میڈیا نہایت مہذب، تخلیقی اور مخصوص ذوق کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ Twitter، Instagram، Line اور YouTube وہاں کے نمایاں پلیٹ فارمز ہیں۔

  • انیمے، مینگا اور گیمنگ سے متعلق پوسٹس بہت مقبول ہیں۔

  • ٹیکنالوجی اور الیکٹرانکس پر معلوماتی اور ریویو ویڈیوز۔

  • Minimal lifestyle، ذہنی سکون، اور خود انحصاری جیسے موضوعات بھی خاصی توجہ حاصل کرتے ہیں۔

  • سفر، کھانے اور مقامی ثقافت کی خوبصورتی سوشل میڈیا پر اجاگر کی جاتی ہے۔


برصغیر پاک و ہند میں مقبول رجحانات

پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں سوشل میڈیا ایک مکمل دنیا ہے جہاں سیاست، تفریح، تعلیم، اور معاشرتی مسائل سبھی موضوعات پر بحث ہوتی ہے۔

  • سیاست: جماعتوں کی کارکردگی، لیڈرز کی تقاریر، عوامی ردِ عمل۔

  • شوبز، کرکٹ، اور مزاحیہ مواد: ڈرامے، فلمیں، میمز، اور کھلاڑیوں کے گرد گفتگو۔

  • سماجی و مذہبی موضوعات: مذہبی مواقع، دعائیں، اصلاحی پیغامات۔

  • تعلیم و روزگار: امتحانات، نوکریاں، اسکالرشپس۔

  • مزاحیہ ویڈیوز اور شارٹ فارمیٹ مواد کا سیلاب۔


یورپ میں سوشل میڈیا کا زاویہ

یورپی اقوام سوشل میڈیا کو علم، معاشرتی شعور اور ثقافتی اظہار کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

  • ماحولیاتی تحفظ: کلائمیٹ چینج، گرین انرجی، ماحولیاتی تحریکیں۔

  • انسانی حقوق اور سماجی انصاف: مساوات، اقلیتوں کے حقوق، آزادی اظہار۔

  • آرٹ، موسیقی، ادب اور ثقافتی سرگرمیاں۔

  • سفر اور لائف اسٹائل پر تصویری بلاگز اور وڈیوز۔


افریقہ میں سوشل میڈیا کا کردار

افریقی ممالک میں سوشل میڈیا ترقی اور بیداری کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔

  • تعلیم و تربیت: طلبہ کے لیے مواقع، تعلیمی پلیٹ فارمز۔

  • مقامی کاروبار اور نوجوان انٹرپرینیورز کی تشہیر۔

  • موسیقی، رقص اور ثقافت کا فروغ۔

  • سیاسی شعور اور کرپشن کے خلاف آواز۔


امریکہ میں سوشل میڈیا کی جہتیں

امریکہ میں سوشل میڈیا صرف اظہارِ رائے ہی نہیں بلکہ رجحانات پیدا کرنے کا پلیٹ فارم ہے۔ Facebook، Instagram، TikTok، Twitter اور YouTube یہاں کے بڑے پلیٹ فارمز ہیں۔

  • سیاسی مباحثے، نسلی مساوات، اور سماجی تحریکیں۔

  • ٹیکنالوجی، اسٹارٹ اپس، ڈیجیٹل مارکیٹنگ سے متعلق مواد۔

  • سیلیبرٹیز، فلم، میوزک اور انفلوئنسر کلچر۔

  • مینٹل ہیلتھ، سیلف ہیلپ، اور لائف کوچنگ۔


خلاصہ

دنیا کے مختلف خطوں میں سوشل میڈیا کا استعمال ان کے معاشرتی، ثقافتی اور فکری پس منظر کے مطابق ہوتا ہے۔

  • چین اور جاپان میں نظم، جدیدیت اور ٹیکنالوجی غالب ہے۔

  • برصغیر میں سیاست، مذہب، تفریح اور تعلیم پر توجہ ہے۔

  • یورپ میں شعور، ماحول، فن اور مساوات۔

  • افریقہ میں تعلیم، ثقافت اور ترقی۔

  • امریکہ میں اظہارِ رائے، رجحانات کی قیادت اور سیلیبرٹی کلچر۔

سوشل میڈیا آج صرف بات چیت کا ذریعہ نہیں بلکہ دنیا کے مختلف چہروں کو دکھانے والا آئینہ بن چکا ہے۔ ہر پوسٹ، ہر ویڈیو، اور ہر ہیش ٹیگ اس معاشرے کی ایک جھلک ہے جہاں سے وہ پیدا ہوتا ہے۔