جمعہ، 20 جون، 2025

لبنان — مذہب، مزاحمت اور مشرقِ وسطیٰ کا آئینہ




لبنان، عرب دنیا کا ایک چھوٹا مگر تاریخی، سیاسی اور مذہبی لحاظ سے پیچیدہ ملک ہے۔ اس کی گلیاں نہ صرف رومن اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں بلکہ فلسطینیوں کے آنسوؤں سے بھی بھیگی ہوئی ہیں۔ یہ محض ایک ریاست نہیں، بلکہ ایک ایسا رنگین مگر پیچیدہ کینوس ہے جس پر تاریخ، مذہب، جنگ، سیاست، قوم پرستی اور بین الاقوامی طاقتوں کی لکیریں واضح دکھائی دیتی ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کا پیرس — ماضی کی ایک جھلک
کبھی لبنان کو "مشرق وسطیٰ کا پیرس" کہا جاتا تھا۔
یہاں کی امریکی یونیورسٹی پورے خطے میں علم کی روشنی بانٹتی تھی۔
لبنانی کھانے اور ضیافتیں لمحات کو یادگار بناتی تھیں، فیشن کا انداز پورے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی ایشیا پر اثر انداز ہوتا تھا،
ادب و صحافت ٹرینڈ سیٹ کرتے تھے۔
آج وہی لبنان اجڑا ہوا ہے۔
انسان زندگی کو گھسیٹ رہے ہیں، عمارتیں خود اپنے ماضی پر نوحہ کناں ہیں، اور معاشرت اپنے ہی بکھرے ہوئے ٹکڑوں پر گریہ کناں۔
اگر مشرقِ وسطیٰ کو سمجھنا ہے تو لبنان کوسمجھنا  ہوگا — کیونکہ لبنان وہ آئینہ ہے جس میں عرب دنیا کی داخلی کشمکش، مذہبی تقسیم، اور عالمی سازشوں کا عکس صاف نظر آتا ہے۔
تاریخی تناظر — سلطنتوں سے خانہ جنگی تک
تاریخ کی ابتدا: صور و صیدا کا کردار
قدیم بندرگاہی شہر صور اور صیدا تہذیب کے گہوارے تھے، جہاں سمندری تجارت نے تاریخ رقم کی۔
یہ خطہ وقت کے ساتھ رومی، بازنطینی، صلیبی اور عثمانی سلطنتوں کا حصہ بنتا گیا۔
خلافت عثمانیہ سے فرانسیسی قبضے تک
لبنان صدیوں تک خلافت عثمانیہ کا حصہ رہا۔
پہلی جنگِ عظیم کے بعد فرانس نے اسے شام سے الگ کر کے "گریٹر لبنان" کی شکل دی۔
فرانسیسی اثر نے یہاں کی مسیحی اشرافیہ کو سیاسی طور پر مضبوط کیا — جس کے اثرات آج تک باقی ہیں۔
سیاسی بندوبست اور خانہ جنگی
اقتدار کی مذہبی تقسیم
لبنان نے 1943 میں آزادی حاصل کی، لیکن اقتدار کی تقسیم مذہبی بنیادوں پر کی گئی:
صدر: مارونی عیسائی
وزیراعظم: سنی مسلمان
پارلیمانی اسپیکر: شیعہ مسلمان
یہ نظام وقتی طور پر توازن کا ذریعہ تو بنا، مگر لمبے عرصے میں شدید اختلافات کا بیج بو گیا۔
خانۂ جنگی کا دور — خون اور سازشیں

1975
 سے 1990 تک لبنان شدید خانہ جنگی کا شکار رہا۔
اس جنگ میں فلسطینی، عیسائی ملیشیاز، شیعہ گروہ، اسرائیل اور شام سب کسی نہ کسی طور پر شامل تھے۔
1982 
کا اسرائیلی حملہ اور حزب اللہ کی پیدائش

1982 
میں اسرائیل نے فلسطینی تنظیم 
PLO
 کو نکالنے کے لیے لبنان پر حملہ کیا اور بیروت تک قبضہ کر لیا۔
اسی کے ردِعمل میں حزب اللہ کی بنیاد پڑی — جو آج اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔
1976
 سے 2005 تک شام لبنان پر اثر انداز رہا۔
خانہ جنگی کے دوران شام نے مداخلت کی، جس سے وقتی امن قائم ہوا۔
مگر 2005 میں وزیرِاعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد عوامی دباؤ کے نتیجے میں شام کو اپنی افواج واپس بلانی پڑیں۔
فرقہ واریت اور سیاست کا شکنجہ
لبنان کی آبادی 18 مذہبی فرقوں پر مشتمل ہے، جیسے:
مارونی، کیتھولک، آرتھوڈوکس عیسائی
سنی، شیعہ، دروز
اور دیگر اقلیتی گروہ
یہ صدیوں سے امن سے رہ رہے تھے، مگر اسرائیل نے اس سماجی تنوع کو فرقہ واریت میں بدل دیا۔
ہر فرقہ اپنی ملیشیا، میڈیا اور حتیٰ کہ اپنی خارجہ پالیسی رکھتا ہے۔
نتیجتاً، لبنان ایک مکمل ریاست نہیں، بلکہ ایک "معاہداتی ملک" بن گیا — جو گروہی سمجھوتوں پر قائم ہے۔
حزب اللہ لبنان کا سب سے بااثر، منظم اور مسلح گروہ ہے۔
یہ اسرائیل کی نظر میں دہشتگرد، مگر لبنانی عوام کی نظر میں "مقدس مزاحمت" ہے۔
امریکہ، اسرائیل اور یورپی ممالک اسے دہشتگرد قرار دے چکے ہیں،
جبکہ لبنان میں یہ عوامی حمایت رکھتا ہے۔
اسرائیل حزب اللہ کے وجود کو ختم کرنا چاہتا ہے۔
اسی لیے اس نے حزب اللہ کو عالمی سطح پر "دہشتگرد تنظیم" کے طور پر پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی —
اور اس کے کئی رہنما چن چن کر قتل کیے گئے۔
لبنان میں حزب اللہ کا اثر اس قدر ہے کہ امن قائم کرنے کے لیے وہی واحد طاقت دکھائی دیتی ہے —
مگر اسرائیل کی دشمنی کی وجہ سے امن بھی ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے۔
لبنان آج — ایک قوم، کئی خواب
زخم خوردہ ریاست، جاگتی ہوئی نسل
لبنان وہ ملک ہے جو:
تہذیب کا مرکز تھا
مزاحمت کی علامت بنا
اور سیاست کا قیدی بن چکا ہے
آج یہاں حکومت کمزور، عوام منقسم اور مستقبل غیر یقینی ہے۔
مگر لبنانی نوجوان اب جنگ سے تھک چکے ہیں۔
وہ نہ بیرونی اثرات چاہتے ہیں، نہ مذہبی تقسیم — صرف امن، تعلیم، روزگار اور شناخت کی خواہش رکھتے ہیں۔
لبنان کا نچوڑ — دل میں حزب اللہ، دماغ میں مغرب، روح میں فلسطین
لبنان نہ مکمل آزاد ہے، نہ مکمل غلام۔
یہ مشرق وسطیٰ کی:
سب سے خوبصورت
سب سے زخمی
اور سب سے الجھی ہوئی ریاست ہے۔
یہ ملک خود اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے — اور دنیا صرف تماشا دیکھ رہی ہے۔
اسرائیل نے کو کچھ اٌنے ہمسائے لبنان کے ساتھ کیا ہے وہ وہی کچھ دوسرے ہماسئیوں ہی نہیں ،شرق وسطی کے تمام ممالک کے ساتھ کرنا چاہتا ہے ۔ 

India and Israel's Silent Game in the Gulf






Without Borders — India and Israel's Silent Game in the Gulf
By: Dilpazir Ahmad Janjua

The Persian Gulf — long seen as the world’s energy artery — is no longer just about oil tankers, trade routes, and naval chokepoints. In the digital age, it has quietly become the theatre of a new kind of warfare: one fought not with fighter jets or boots on the ground, but with spyware, cyberattacks, and intelligence operatives in suits.

And behind this invisible front line are two increasingly intertwined players: India and Israel.
Iran: Target Number One

Since the 1979 Islamic Revolution, Iran has been viewed by many regional and global powers as a destabilizing force. Its Revolutionary Guards, influence over proxy groups like Hezbollah and the Houthis, and resistance to Western-backed order have made it the focal point of espionage activity.

Iranian scientists have been assassinated. Nuclear facilities have been hacked. Its intelligence services have reported repeated infiltration. For Tehran, this isn’t random sabotage — it’s a well-orchestrated campaign of containment.

And leading that campaign is Israel’s feared intelligence agency, Mossad.
Israel’s Deep Penetration

Over the last two decades, Mossad has pulled off some of the boldest operations on Iranian soil. In 2020, top Iranian nuclear scientist Mohsen Fakhrizadeh was assassinated near Tehran — reportedly by a remote-controlled weapon. Before that, the infamous Stuxnet cyberattack — jointly attributed to Israel and the U.S. — disrupted centrifuges at Iran’s Natanz nuclear facility.

Dozens of Iranian officials have since been arrested, accused of feeding sensitive information to Israeli handlers. Iran's sovereignty, it seems, is under high-tech siege.
India in the Gulf: A Quiet Operator

India, often seen as a neutral power juggling ties with both Tehran and the Gulf monarchies, is quietly emerging as a major player in this regional intelligence matrix — not least due to its close and growing security partnership with Israel.

Since 2017, India and Israel have signed a series of cybersecurity and defense cooperation agreements. India’s RAW operatives receive Israeli training and technology, and reports suggest that India has leveraged Israeli spyware — most infamously Pegasus — not only for domestic surveillance but also in collaboration with Gulf regimes.

And there's a demographic dimension to this too. With over 8.5 million Indian nationals living across Gulf countries, India has access to a massive, embedded diaspora — some of whom are allegedly involved in passive data gathering or surveillance operations, often unknowingly.
Gulf States: Allies or Enablers?

The Abraham Accords (2020) opened the door for formal Israeli integration into Gulf security systems. Today, Israeli advisors, tech firms, and surveillance infrastructure are quietly becoming part of defense architecture in countries like the UAE and Bahrain.

India, already a major economic and defense partner of these same states, appears to be synchronizing its efforts with Israel — forming what analysts are beginning to call a "shadow alliance" against Iranian influence.
Tehran’s Alarm Bells

Iran has been vocally critical of this growing India-Israel-Gulf nexus. Officials in Tehran accuse Israel of engineering cyberattacks and targeted killings, criticize Gulf monarchies for "hosting the enemy," and have even detained Indian nationals under suspicion of espionage linked to Israeli interests.

For Iran, this isn't just a security threat — it's an ideological and geopolitical challenge to its regional identity and ambitions.
The Real Question

So what are we witnessing? A pragmatic security coalition? Or a slow erosion of sovereignty in exchange for political stability?

Have Gulf rulers, in trying to counter Iran, handed their digital borders over to foreign powers?

Or has Iran's own posturing left its neighbors with little choice but to lean on external intelligence partners?

Whatever the answer, one thing is certain: the Gulf is no longer just an oil zone — it’s an active front in a silent war.
And in this war, the wounds may take years to show, but the damage is already underway.


اسرائیل ،، تاریخی سچائی




عنوان: برطانیہ نے اسرائیل کی بنیاد رکھی، امریکہ نے پروان چڑھایا — تاریخ کی ایک سچائی

اسرائیل کی تخلیق کوئی حادثہ نہیں، بلکہ ایک طویل المدتی سیاسی منصوبہ تھا جس کا آغاز برطانوی سامراج نے کیا اور جسے بعد ازاں امریکہ نے عالمی طاقت کے ایوانوں تک پہنچایا۔ یہ منصوبہ صرف جغرافیائی تبدیلی نہیں بلکہ ایک نظریاتی، سیاسی اور عسکری جنگ کا آغاز تھا، جس کی جڑیں بیسویں صدی کے آغاز سے قبل کی صہیونی تحریک، جنگ عظیم اول، بالفور اعلامیہ، اور ہولوکاسٹ جیسے واقعات میں پیوست ہیں۔
برطانیہ کا کردار — ابتدا کی اینٹ
سال 1917 میں برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے صہیونی رہنما لارڈ روتھشیلڈ کو ایک خط لکھا، جو بعد میں بالفور اعلامیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس میں برطانیہ نے یہ وعدہ کیا کہ وہ فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک "قومی وطن" کے قیام کی حمایت کرے گا۔ اس وقت فلسطین برطانوی نوآبادیاتی نظام کے تحت تھا، اور سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد اس علاقے پر برطانیہ کا مکمل کنٹرول تھا۔
برطانیہ نے یہودیوں کو نہ صرف زمین دی، بلکہ ان کی آباد کاری، دفاع، اور اداروں کے قیام میں بھرپور معاونت کی۔
برطانیہ کی تھکن، امریکہ کی مداخلت
جنگ عظیم دوم کے بعد فلسطین میں عربوں اور یہودیوں کے درمیان فسادات شدت اختیار کر گئے۔ برطانیہ اس بحران سے نمٹنے میں ناکام ہو گیا اور بالآخر 1947 میں اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں پیش کیا۔ یہاں سے امریکہ کی براہ راست مداخلت کا آغاز ہوا۔
امریکہ کا کردار — پشتیبان اور محافظ
14 مئی 1948 کو جیسے ہی ڈیوڈ بن گوریان نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا، امریکہ نے صرف 11 منٹ بعد اسے تسلیم کر لیا۔ یہ کوئی سادہ سفارتی اقدام نہیں تھا، بلکہ ایک بڑے اسٹریٹیجک پلان کی شروعات تھی۔
صدر ہیری ٹرومین نے اسرائیل کو نہ صرف سفارتی تحفظ دیا، بلکہ مالی، عسکری اور سیاسی امداد کی بنیاد بھی رکھی، جو آج تک جاری ہے۔ اسرائیل کو جدید ہتھیار، انٹیلیجنس، اقوام متحدہ میں ویٹو پاور کے ذریعے تحفظ — یہ سب امریکہ کی جانب سے فراہم کیے گئے۔
تاریخی واقعات سے جھانکتی سچائی
بالفور اعلامیہ: یہ محض ایک سفارتی خط نہیں تھا، بلکہ روتھشیلڈ خاندان کے عالمی مالیاتی اثرورسوخ کا مظہر بھی تھا۔ اس اعلامیہ نے یہودی ریاست کے قیام کی بنیاد رکھ دی، اور فلسطینیوں کے لیے ایک مسلسل جدوجہد کا آغاز ہوا۔
صدر ٹرومین کا دباؤ: وائٹ ہاؤس میں موجود مشیروں نے اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم کرنے کی مخالفت کی، لیکن امریکہ میں مضبوط یہودی لابی اور ووٹ بینک کے دباؤ نے ٹرومین کو فیصلہ لینے پر مجبور کیا۔ ٹرومین نے کہا تھا:
"I am doing what I believe is right, even if it costs me the next election."
برطانوی فوجی کا تبصرہ: فلسطین سے انخلاء کے وقت ایک برطانوی کمانڈر نے کہا:
"We are leaving a war that we started, but its fire will now be fueled by others."
آج کی دنیا میں عکس
آج اسرائیل دنیا کی ایک جدید ترین فوجی طاقت ہے، جسے سالانہ اربوں ڈالر کی امریکی امداد حاصل ہے۔ امریکی اسلحہ، سفارتی تحفظ، اور میڈیا پر اثرورسوخ نے اسرائیل کو صرف زندہ ہی نہیں رکھا بلکہ اسے مشرق وسطیٰ کی ایک ناقابلِ شکست ریاست بنا دیا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسرائیل کا قیام بیسویں صدی کی عالمی سیاست کا سب سے چالاک اور خطرناک تجربہ تھا۔ برطانیہ نے ایک خواب کی تکمیل کا آغاز کیا، اور امریکہ نے اسے تعبیر تک پہنچایا — لیکن اس خواب کی قیمت لاکھوں فلسطینیوں نے بے گھری، خون اور قربانیوں سے ادا کی۔
یہ ایک ایسی کہانی ہے جو صرف تاریخ نہیں، آج کا سیاسی منظرنامہ بھی سمجھنے میں مدد دیتی ہے ۔

جمعرات، 19 جون، 2025

شام — نبی کریم ﷺ کی نگاہ میں (3)




شام — انبیاء، اولیاء اور قربانیوں کی سرزمین

شام... محض ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ روحانیت، نبوت، ولایت اور قربانی کی وہ زمیں ہے جو صدیوں سے اللہ والوں، اہلِ عرفان، اور انبیائے کرامؑ کے قدموں کا بوسہ لیتی آئی ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جسے نبی کریم ﷺ نے "برکت والی زمین" قرار دیا، جہاں کے لیے دعا کی، جہاں انبیاء نے زندگی بسر کی، اور جہاں اسلام نے اپنی روحانی روشنی سے دنیا کو منور کیا۔
بلادِ شام 
بعثتِ محمدی ﷺ کے وقت بلاد الشام کا مفہوم آج کے شام تک محدود نہ تھا، بلکہ اس میں موجودہ شام، لبنان، اردن، فلسطین، اسرائیل، عراق کے مغربی علاقے، اور ترکی کے کچھ جنوبی حصے شامل تھے۔ یہ خطہ انبیاء کی سرزمین تھا، اور آج بھی ان کے آثار اور مزارات اس کی مٹی کو مقدس بنائے ہوئے ہیں۔
احادیث میں شام کی روحانی عظمت
رسولِ اکرم ﷺ نے شام کے لیے فرمایا:
"شام برکت والی زمین ہے"
(سنن ابی داؤد)
"فرشتے شام پر اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں"
(صحیح بخاری)
"حضرت عیسیٰؑ کا نزول دمشق کے مشرقی سفید مینار پر ہوگا"
(صحیح مسلم)
"دجال شام و عراق کے درمیان ظاہر ہوگا"
(مسند احمد)
ان ارشادات میں شام کو محض ایک علاقہ نہیں بلکہ قربِ قیامت کے اہم ترین واقعات کا مرکز قرار دیا گیا ہے۔
نبی اکرم ﷺ کا شام سے تعلق
نبی کریم ﷺ نے اپنی جوانی میں بصریٰ، حلب اور دمشق کے تجارتی سفر کیے۔ آپ ﷺ کا سفر بصریٰ میں راہب بحیرا سے ملاقات کا ذریعہ بنا — جس نے آپ ﷺ میں نبوت کی علامات پہچانیں۔
وفات سے قبل آپ ﷺ نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کی قیادت میں شام کی طرف لشکر روانہ کیا، گویا آپ ﷺ نے شام کے دروازے پر امت کی اگلی تاریخ لکھنے کا آغاز کیا۔
شام میں مدفون اسلامی ہستیاں
شام کی روحانی عظمت کا سب سے بڑا ثبوت وہاں موجود صحابہ، تابعین، اولیاء، اور اہلِ بیت کے مزارات ہیں:
دمشق:
حضرت ابودرداءؓ — جلیل القدر صحابی، فقیہ اور زاہد
حضرت بلال حبشیؓ — مؤذنِ رسول ﷺ (روایت ہے کہ شام میں انتقال ہوا، مدفن دمشق میں ہے)
حضرت اویس قرنیؓ — مشہور تابعی، جن سے نبی کریم ﷺ نے صحابہ کو دعا کی تلقین کی
حضرت عبداللہ بن جعفرؓ — دامادِ رسول ﷺ
حضرت ام کلثومؓ بنت علیؓ — حضرت علیؓ کی بیٹی
حلب:
حضرت زین العابدینؒ — امام سجاد، کچھ اقوال کے مطابق مختصر قیام کے بعد شہادت کے بعد ان کا جلوس حلب سے گزرا
حضرت خولہؓ بنت حسین — روایت ہے کہ کربلا کے قافلے کی اسیر خواتین میں شامل تھیں، حلب کے نواح میں مدفن ہے
حمص:
حضرت خالد بن ولیدؓ — سیف اللہ، اسلام کے عظیم جرنیل
حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ — عشرہ مبشرہ میں شامل، شام کے پہلے گورنر
بصریٰ:
حضرت معاویہ بن ابوسفیانؓ — بانی خلافتِ امویہ، دمشق میں مدفون
حضرت ہندہؓ بنت عتبہ — صحابیہ، حضرت معاویہؓ کی والدہ
خلافتِ راشدہ سے خلافتِ امویہ تک
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں شام کی فتوحات کا آغاز ہوا
حضرت خالد بن ولیدؓ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کی قیادت میں یرموک کی فیصلہ کن جنگ لڑی گئی
حضرت عمرؓ کے عہد میں بیت المقدس اور دمشق اسلامی سلطنت میں شامل ہوئے
سن اکسٹھ ہجری میں خلافتِ امویہ قائم ہوئی، اور دمشق دارالخلافہ بنا
دمشق — علم، عرفان اور خلافت کا گہوارہ
اموی دور میں دمشق نہ صرف سیاسی مرکز تھا بلکہ علم، تصوف، فقہ، حدیث، اور روحانی تربیت کا مرکز بھی۔
یہاں کے مدرسے، خانقاہیں، کتب خانے اور علمی حلقے صدیوں تک دنیا کی رہنمائی کرتے رہے۔
جدید شام: خانہ جنگی اور روحانی ورثے پر حملہ
خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد فرانسیسی قبضے نے روحانی اور دینی اداروں کو کمزور کیا
دو ہزار گیارہ سے شام میں خانہ جنگی جاری ہے — لاکھوں شہید، شہر کھنڈر، اور مزارات کی بے حرمتی
احمد الشراع — اسرائیلی حمایت یافتہ حکمران
 دو ہزار چوبیس میں احمد الشراع کو اسرائیل و امریکہ کی حمایت سے صدر بنایا گیا۔
مزارات پر حملے، مدارس کی بندش، اور دین پسند طبقات کی جلاوطنی میں اضافہ ہوا
شام — آج بھی نور کا مرکز
آج اگرچہ شام کی گلیاں ملبے سے بھری ہیں، مساجد خالی اور کتب خانے خاموش ہیں — لیکن حضرت بلالؓ کی اذان کی بازگشت، حضرت خالدؓ کی شمشیر کی گونج، اور حضرت ابودرداءؓ کی دعاؤں کی روشنی اب بھی اس سرزمین پر سایہ کیے ہوئے ہے۔
یہ وہی زمین ہے جہاں حضرت عیسیٰؑ کا نزول ہوگا،
یہی وہ مٹی ہے جسے نبی کریم ﷺ نے برکت والی قرار دیا،
یہی وہ وادیاں ہیں جہاں آخری معرکے لڑے جائیں گے۔
شام ۔۔۔۔ جہاں آسمان جھکتا ہے
شام صرف ایک ملک نہیں —
یہ ماضی کا چراغ ہے، حال کی آزمائش ہے، اور مستقبل کی بشارت ہے۔
یہ وہ زمین ہے جسے جتنا روندھا جائے، اتنا ہی اس کا نور ابھرتا ہے۔
انبیاء کے قدموں کی خاک، اولیاء کی دعائیں، صحابہ کی قربانیاں —
یہ سب شام کے آسمان کو جگمگاتے رہیں گے۔

شام کی کہانی (2)



شام اور اسرائیل — ایک سلگتی سرحد سے آگے کی کہانی

شام اور اسرائیل کا تعلق محض دو ریاستوں کی جغرافیائی کشمکش نہیں، بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے قلب میں دھڑکتا ہوا ایک ایسا زخم ہے جو سات دہائیوں سے نہ صرف شام کی قومی روح کو زخمی کر رہا ہے بلکہ پورے خطے کے امن، استحکام اور وحدت کو مسلسل چیلنج کر رہا ہے۔ اس تنازعے کی بنیادیں ماضی کی تاریخ میں گہری پیوست ہیں، اور اس کی گونج آج بھی دمشق کی ویران گلیوں، گولان کی خاموش چوٹیوں، اور اقوامِ متحدہ کی بے اثر قراردادوں میں سنائی دیتی ہے۔
اسرائیل کا قیام — شام کے زخموں کی شروعات
سن 1948 میں جب اسرائیل نے فلسطینی سرزمین پر قبضہ کر کے ریاست کے قیام کا اعلان کیا، تو شام ان اولین ممالک میں شامل تھا جس نے سفارتی مخالفت کی تھی اور اس ردعمل کے پیچھے ایک تاریخی، ثقافتی اور انسانی رشتہ تھا۔
صدیوں سے فلسطین شام کا حصہ رہا تھا۔ دونوں سرزمینوں کے درمیان خونی رشتے، تجارتی روابط اور روحانی تعلقات موجود تھے۔ فلسطین میں "نقبہ" کے نام پر جو قیامت ٹوٹی، جس میں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکالا گیا، ان کے اثاثے لوٹے گئے، اور انہیں دربدر کیا گیا — وہ سب کچھ شام کے عوام کے دل میں خنجر کی طرح پیوست تھا۔
شام نے فلسطینیوں سے اخوت اور ہمدردی کو اپنی خارجہ پالیسی کا مرکز بنایا۔ اور اعلان کیا کہ اسرائیل کے ۔ اقدامات غیر قانونی ، غیر اخلاقی اور بین الاقوامی قوانیں کی کھلی خلاف ورزی ہے
اس موقع پر اسرائیل نے موقف اپنایا کہ اسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے اور جو ممالک اس کے وجود کے لیے ان پر
Preemptive strike
کا اسرائیل کو حق حاصل ہے ۔ مغربی ممالک نے اسرائیل کے اس حق کو تسلیم کیا ا یہ وہی حق ہے جو اب اسرائیل نے ایران کے خلاف جارحیت کر کے
اپنایا ہے ۔
گولان کی پہاڑیاں — دفاعی حصار، قومی غیرت
انیس سو سڑسٹھ کی چھ روزہ جنگ دراصل اسی اجتماعی خوف کا اظہار تھی جس میں عرب دنیا کو یقین ہو چلا تھا کہ اگر آج فلسطین چھینا گیا ہے، تو کل ان کے اپنے دروازے بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔
اس جنگ میں اسرائیل نے مغربی حمایت کے سائے تلے شام کے انتہائی اہم علاقے — گولان کی پہاڑیوں — پر قبضہ کر لیا۔ یہ پہاڑیاں محض ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ شام کے دفاع، آبی وسائل اور عسکری توازن کا مرکز تھیں۔ ان کا چھن جانا شام کے لیے ایک ذاتی سانحہ تھا، جو قومی غیرت اور خودمختاری پر حملے کے مترادف تھا۔
شام نے اقوامِ متحدہ سمیت عالمی اداروں سے انصاف کی اپیل کی، مگر جلد ہی یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی کہ اسرائیل مغرب کا وہ لاڈلا ہے جس کے خلاف نہ کوئی قرارداد اثر رکھتی ہے، نہ کوئی قانون۔
اس کے بعد شام نے عراق اور مصر کے ساتھ اتحاد قائم کیا، جس کا نتیجہ 1973 کی رمضان جنگ کی صورت میں نکلا۔ شامی افواج نے ابتدائی طور پر حیرت انگیز پیش قدمی کی، اور گولان کے کچھ حصے واپس لیے۔ مگر مغربی امداد نے ایک بار پھر اسرائیل کو طاقتور بنا دیا، اور شام کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔
آج بھی گولان کی پہاڑیاں شام کے لیے صرف زمین کا ایک ٹکڑا نہیں، بلکہ قومی غیرت، قدرتی وسائل، اور مسلسل مزاحمت کی علامت ہیں۔
پراکسی جنگیں — خفیہ مداخلت اور کھلا کھیل
انیس سو بیاسی سے دو ہزار چھ تک کا عرصہ شام اور لبنان کی سرزمین پر پراکسی جنگوں کا دور رہا۔ اسرائیل نے خطے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے نہ صرف براہِ راست عسکری حملے کیے بلکہ شام کے اندرونی معاملات میں بھی خفیہ مداخلت کی۔
اسرائیل نے بعض شدت پسند جہادی گروہوں کو اسلحہ، انٹیلیجنس اور مالی وسائل فراہم کیے تاکہ شام کو اندر سے کمزور کیا جا سکے۔ یہ چالاک منصوبہ بندی وہ آہستہ زہر تھا جس نے شام کے سماجی تانے بانے کو بکھیر کر رکھ دیا۔
دو ہزار گیارہ میں خانہ جنگی کا آغاز اسرائیل کے لیے ایک نیا موقع بن کر ابھرا۔ ایران، حزب اللہ اور شامی حکومت کو خطرہ قرار دے کر اسرائیل نے درجنوں فضائی حملے کیے۔ ساتھ ہی بعض "معتدل باغی" گروہوں کی حمایت کی گئی، جو بعد میں شدت پسند بن کر ابھرے، مگر اسرائیل اور مغرب کے مفادات کے لیے "کارآمد" ثابت ہوئے۔
اسرائیل کا وتیَرہ ہمیشہ یہی رہا ہے: جو جرم خود کرے، اس کا الزام دوسروں پر لگا دے۔ وہ شام پر دہشت گردی کا الزام عائد کرتا ہے، مگر خود شامی سرزمین پر مسلسل دراندازی، حملے اور پراکسی کھیل کھیلتا رہا ہے۔
نئی قیادت، پرانے سوالات — احمد الشراع کا دور
بشار الاسد کے طویل اقتدار کے بعد 2023 میں احمد الشراع شام کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کے انتخاب کو مغرب اور اسرائیل نے "نئی مشرقِ وسطیٰ" منصوبے کا حصہ قرار دیا۔
ان کے دور میں
ایران اور حزب اللہ سے فاصلہ بڑھا
اسرائیل سے درپردہ روابط قائم ہوئے
مغربی امداد کے بدلے پالیسی میں نرمی اختیار کی گئی
یہ تمام اقدامات عوامی سطح پر شدید تنقید، احتجاج اور بے چینی کا سبب بنے۔ کیونکہ شامی عوام آج بھی فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیلی قبضے کے خلاف پرعزم ہیں۔
شامی عوام — زخم ابھی بھرے نہیں
اگرچہ حکومت نے پالیسی میں لچک دکھائی، مگر عوام کا دل آج بھی 1948 کے دکھ سے لبریز ہے۔
وہ گولان کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں
فلسطینیوں کی حمایت ان کی روح کا حصہ ہے
اسرائیلی اثر سے نجات ان کا نصب العین ہے
دمشق کی سڑکوں پر آج بھی وہی جذبات زندہ ہیں، جو اُس وقت تھے جب پہلی بار فلسطینی خاندان اپنا سب کچھ لٹا کر شام کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے تھے۔
ایک سلگتی ہوئی جنگ کا تسلسل
شام اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی تاریخ پچھتر برس سے زائد کی مسلسل کشمکش پر مشتمل ہے 
جنگ،
سفارت کاری،
پراکسی،
خفیہ سازشیں،
اور عالمی طاقتوں کی مداخلت 
یہ سب مل کر ایک ایسا کھیل کھیل رہے ہیں جس میں عوامی امن سب سے بڑا ہارنے والا ہے۔
جب تک:
گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے قبضے میں ہیں،
فلسطینی عدل سے محروم ہیں،
شامی خودمختاری کو تسلیم نہیں کیا جاتا —
تب تک شام اور اسرائیل کے درمیان "امن" صرف ایک فریب، ایک خوش فہمی اور ایک کاغذی خواب ہے۔
دیوار پر لکھی حقیقت:
اب 2025 میں اسرائیل کی توسیع پسندانہ جنگی حکمت عملی نے ثابت کر دیا ہے ۔ کہ اس کا پری ایمپٹو والا فارمولا نہ صرف 1948 سے کامیاب ہے بلکہ اب بھی ایران کے خلاف جارحیت کر کے اس نے ثابت کر یا ہے کہ مغرب اب بھی اس کے بینایے کو مانتا ہے اور اسے نافذ کرنے میں عملی طور پر اس کے ساتھ بھی ہے ۔