سورۃ البلد آیت 13 – غلامی کی آزادی کا پیغام"
سورۃ البلد کی آیت 13 میں ایک مختصر مگر گہرا پیغام ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے "فَكُّ رَقَبَةٍ" (گردن چھڑانا) کا حکم دیا۔ یہ جملہ نہ صرف غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دیتا ہے، بلکہ ایک بڑے معاشرتی انقلاب کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو انسانیت کی عزت اور آزادی کو تحفظ دیتا ہے۔ یہ پیغام قرآن مجید کے مجموعی اصولوں کے عین مطابق ہے، جو انسانوں کو برابری، مساوات، اور عدل کا درس دیتا ہے۔
غلامی کا نظام اور اس کا تاریخی پس منظر
غلامی، تاریخ کے ایک تاریک باب کی مانند ہے، جس میں انسانوں کو محض ملکیت سمجھا جاتا تھا۔ اسلام سے پہلے عرب دنیا میں غلامی ایک عام رواج تھی، اور غلاموں کے حقوق کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ غلام جنگوں کے قیدیوں، قرضوں میں ڈوبے افراد، یا نچلے طبقے کے لوگوں کی صورت میں ہوتے تھے۔ ان کے ساتھ ظلم و ستم روا رکھا جاتا تھا، اور انہیں صرف طاقتوروں کے مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
اسلام نے غلامی کے خلاف ایک تدریجی جدوجہد کا آغاز کیا۔ قرآن مجید میں غلاموں کے حقوق کا تحفظ اور ان کی آزادی کے لیے متعدد آیات موجود ہیں۔ سورۃ البلد کی آیت 13 میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ان کے حقوق دینے اور غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"فَكُّ رَقَبَةٍ"
(یعنی "گردن چھڑانا" یا غلاموں کو آزاد کرنا)۔
یہ آیت انسانوں کو ایک ایسی نیکی کی طرف بلاتی ہے جو نہ صرف انفرادی طور پر انسان کے لیے بہتر ہے، بلکہ پورے معاشرے کے لیے بھی ایک بہت بڑی اصلاح کا باعث ہے۔ اس آیت میں غلاموں کو آزاد کرنا ایک اعلیٰ عمل قرار دیا گیا ہے، جو اللہ کی رضا اور قربت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
اسلام میں غلاموں کے حقوق اور آزادی
اسلام نے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور انہیں آزاد کرنے کی تعلیم دی۔ نبی کریم ﷺ نے غلاموں کو انسان سمجھا اور ان کے ساتھ برابری کا سلوک کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
"تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں، جو خود کھاؤ وہی انہیں کھلاؤ، جو خود پہنو وہی انہیں پہناؤ۔"
اسلام میں غلامی کا خاتمہ فوری طور پر نہیں کیا گیا، مگر اس کا طریقہ تدریجی تھا۔ مختلف آیات اور حدیث میں غلاموں کو آزاد کرنے کو نیکی اور عبادت قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ، غلاموں کے حقوق کی حفاظت اور ان کے ساتھ عدل و انصاف کی تعلیم دی گئی۔
امریکہ اور یورپ میں غلامی کا خاتمہ
یورپ اور امریکہ میں غلامی ایک طویل عرصے تک موجود رہی۔ امریکی سماج میں غلاموں کا استحصال کیا جاتا تھا، اور ان کی زندگیوں کا بیشتر حصہ سخت محنت اور ظلم میں گزرتا تھا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ، ان معاشروں میں غلامی کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگیں۔
1863
میں ابراہام لنکن نے
"Emancipation Proclamation"
جاری کی، جس میں غلاموں کو آزاد کرنے کا اعلان کیا گیا۔
1865
میں 13ویں ترمیم
(13th Amendment)
کے ذریعے امریکہ میں غلامی کا خاتمہ کیا گیا۔
برطانیہ میں:
1807 میں Slave Trade Act
کے ذریعے غلاموں کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دی گئی۔
1833
میں
Slavery Abolition Act
کے ذریعے غلامی کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا۔
اسلام نے غلاموں کو آزادی کا پیغام دیا، مگر کئی مسلمان معاشروں میں غلامی کا نظام موجود رہا۔ خلافت عثمانیہ اور عباسیہ میں غلاموں کا استعمال مختلف کاموں کے لیے کیا جاتا تھا، اور کئی سلطنتوں میں غلام فوجیں (مثلًا: ممالیک) بھی تھیں۔ تاہم، اسلامی تعلیمات میں غلاموں کو آزاد کرنے کی اہمیت زیادہ تھی، اور اس کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے۔
آج کے دور میں کئی مسلم ممالک میں غلامی کی جدید شکلیں موجود ہیں۔ خلیجی ممالک میں کفیل نظام اور غیر ملکی مزدوروں کا استحصال عملاً غلامی کی صورت اختیار کر چکا ہے، جو انسان کے حقوق کی پامالی کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔
سعودی عرب نے 1962 میں غلامی کو غیر قانونی قرار دیا۔
موریتانیہ:
موریتانیہ دنیا کا آخری ملک تھا جس نے 1981 میں غلامی کے خلاف قانون بنایا، لیکن اب بھی وہاں نسلی غلامی کی شکایات پائی جاتی ہیں۔
مسلمان معاشروں میں غلامی کیوں نہیں ختم ہو سکی؟
غلامی کے خاتمے کی کوششیں ہر معاشرے میں مختلف عوامل کے سبب رکاوٹوں کا شکار ہوئیں۔ ایک اہم وجہ یہ تھی کہ بعض حلقے اسلامی تعلیمات کو غلط طور پر پیش کرتے ہوئے غلامی کے نظام کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ دوسری جانب، غربت، تعلیم کی کمی، اور جدید معاشی استحصال کے نظام نے غلامی کے نئے روپ کو فروغ دیا۔
قرآن مجید نے غلامی کے خاتمے کی بنیاد رکھی تھی، اور مسلمان معاشروں کو "فَكُّ رَقَبَةٍ" کے مفہوم کو سمجھنا چاہیے۔ غلاموں کو آزاد کرنے کا عمل نہ صرف ایک مذہبی فریضہ ہے، بلکہ یہ انسانیت کے لیے ایک اعلیٰ اخلاقی معیار بھی ہے۔
آج کے دور میں ہمیں اس پیغام کو اپنے معاشرتی نظام میں عملی طور پر اپنانا چاہیے، تاکہ ہر انسان کو عزت، آزادی اور انصاف مل سکے۔
اسلام نے جو اصول غلامی کے خلاف وضع کیے، انہیں ہر دور میں اپنانا ضروری ہے تاکہ معاشرتی ترقی اور انسانیت کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔