منگل، 24 جون، 2025

دنیا کی نئی کروٹ




دنیا کی حالیہ سیاست کو اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ محض واقعات کی ایک لڑی نہیں بلکہ ایک گہری اور شعوری تبدیلی کی داستان نظر آتی ہے۔ اس تبدیلی کی سب سے نمایاں علامت امریکہ ہے — وہی امریکہ، جو کبھی دنیا کا واحد سپر پاور کہلاتا تھا، اب تنہا ہوتا جا رہا ہے اور اس کی عالمی ساکھ تماشا بن چکی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد امریکہ کی سفارتی سمت گویا اُلٹ گئی۔ انتخابی مہم میں جو لب و لہجہ اور غیر روایتی طرزِ عمل دنیا نے دیکھا، وہ اقتدار میں آنے کے بعد عملی پالیسیوں میں بھی نمایاں رہا۔ ٹرمپ نے پہلا وار اپنے قریبی پڑوسیوں پر کیا۔ میکسیکو کے ساتھ دیوار کا منصوبہ، کینیڈا کے ساتھ تجارتی معاملات میں سخت گیری، اور شمالی امریکہ کی سیاسی فضا میں تناؤ نے واضح کر دیا کہ 'سب سے پہلے امریکہ' کی پالیسی کا مطلب 'سب کے خلاف امریکہ' بننے جا رہا ہے۔

پھر یورپ کی باری آئی۔ نیٹو جیسے دہائیوں پرانے اتحاد پر کھلے عام تنقید، یورپی ممالک کو 'مفت خور' کہہ کر پکارنا، اور یوکرین جنگ کے معاملے پر غیر سنجیدہ اور متضاد بیانات نے یورپی قیادت کو سخت اضطراب میں مبتلا کر دیا۔ جرمنی، فرانس اور دیگر اتحادی امریکہ کی قیادت پر نہ صرف شکوک کا شکار ہوئے بلکہ بظاہر پہلی بار کھل کر واشنگٹن کی پالیسیوں سے فاصلہ اختیار کرنے لگے۔

ٹرمپ نے محض فوجی یا سیاسی محاذ پر نہیں بلکہ تجارتی میدان میں بھی دشمن بنائے۔ ٹیرف کی شکل میں چین سے تجارتی جنگ کا آغاز، یورپ، ترکی، حتیٰ کہ اپنے اتحادی جاپان تک کو نشانہ بنایا گیا۔ عالمی معیشت میں بے یقینی کی لہر دوڑی، اسٹاک مارکیٹس لرز گئیں، اور عالمی اداروں نے کھلے عام متنبہ کرنا شروع کر دیا کہ دنیا کس خطرناک معاشی راہ پر چل نکلی ہے۔

سب سے زیادہ ڈرامائی صورتحال مشرقِ وسطیٰ میں دیکھنے کو ملی۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کیا، پھر اس کی طرف دوستی کا اشارہ دیا، ساتھ ہی سخت پابندیاں لگائیں۔ اسرائیل کو کھلی چھوٹ دی گئی کہ وہ خطے میں جارحیت کرے۔ یہاں تک کہ ایران اور اسرائیل کی جنگ میں امریکہ نے اتنے یوٹرن لیے کہ خود مذاق بن گیا۔ کبھی جنگ کی دھمکیاں، کبھی امن کی باتیں، کبھی حملے کی تیاریاں، کبھی مذاکرات کی پیشکش۔ دنیا نے دیکھا کہ واشنگٹن اب کوئی باوقار اور مستحکم قیادت نہیں رہا، بلکہ ایک الجھا ہوا، متضاد اور ناقابلِ پیشگوئی کردار بن چکا ہے۔

اس سب کے نتیجے میں امریکہ کی وہ عالمی ساکھ، جو دوسری عالمی جنگ کے بعد بنی تھی، ریزہ ریزہ ہو رہی ہے۔ روس، چین، ترکی، ایران، لاطینی امریکہ، افریقی یونین، حتیٰ کہ یورپی یونین میں بھی امریکہ مخالف جذبات کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ آج اسرائیل اور بھارت کے علاوہ کوئی بڑا ملک ایسا نہیں جو کھل کر امریکہ کی اخلاقی حمایت پر آمادہ ہو۔

اب امریکہ نے تمام اخلاقی جواز پسِ پشت ڈال کر ایران پر براہِ راست حملہ کر دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ محض ایک اتفاق ہے؟ کیا دنیا کی سب سے بڑی عسکری اور معاشی طاقت کی قیادت واقعی ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آ سکتی ہے جو مسخرہ، مکار اور ناعاقبت اندیش ہو؟

یہاں ایک گہری حکمت اور قدرت کی چال چھپی نظر آتی ہے۔ میرے اللہ کا کھلا اعلان ہے کہ "سب سے بہتر چال چلنے والا وہی ہے۔" (القرآن)

چین کے صدر شی جن پنگ کی وہ مشہور بات یاد رکھنی چاہیے کہ:
"دنیا امریکہ کے بغیر بھی چل سکتی ہے۔"

اور آج حالات بتا رہے ہیں کہ دنیا واقعی اس سمت بڑھ رہی ہے۔ روس اور چین کی قیادت میں برِکس اتحاد مضبوط ہو رہا ہے، ڈالر کی بالادستی کو چیلنج کیا جا رہا ہے، نئی تجارتی راہیں، متبادل سفارتی پلیٹ فارمز اور سٹریٹیجک معاہدے ہو رہے ہیں۔

یہ وقت صرف تماشائی بن کر دیکھنے کا نہیں بلکہ اپنی پالیسی، سمت اور صف بندی درست کرنے کا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کو ہوش کے ساتھ اپنی جگہ بنانی ہوگی۔ دنیا ایک نئے عالمی نظام کی دہلیز پر کھڑی ہے — اور شاید یہ وہی وقت ہے جس کی خبر قرآن اور دانشمندوں نے دی تھی کہ طاقت اور قیادت ہمیشہ ایک ہاتھ میں نہیں رہتی۔


پیر، 23 جون، 2025

ٹرمپ… سپر پاور کا صدر یا اسرائیل کی کٹھ پتلی



ٹرمپ… سپر پاور کا صدر یا اسرائیل کی کٹھ پتلی

ڈونلڈ ٹرمپ جب دوسری بار امریکی صدارتی دوڑ میں کامیاب ہوا تو اس نے امریکی عوام کو امید دلا کر ووٹ لیے کہ اب امریکہ دنیا میں امن کا علمبردار بنے گا، امریکی فوج کو لاحاصل جنگوں سے نکالا جائے گا، اور معاشی خوشحالی کا راستہ کھلے گا۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ کی طاقت کو صرف امریکہ کی سرحدوں تک محدود رکھے گا اور غیر ملکی مداخلتوں کا سلسلہ ختم ہوگا۔

لیکن اقتدار سنبھالتے ہی جو منظر دنیا نے دیکھا، اس نے ثابت کر دیا کہ ٹرمپ نہ امن کا پیامبر ہے اور نہ کوئی اصولی سیاستدان بلکہ وہ بھی صیہونی اسلحہ سازوں اور اسرائیلی مفادات کے ہاتھوں میں کھیلنے والا ایک اور مہرہ ہے۔

دنیا کو اپنی طاقت دکھانے کے لیے سب سے پہلے اس نے معاشرے کے سب سے کمزور طبقے، غیر قانونی تارکین وطن کو نشانہ بنایا۔ امریکہ میں لاکھوں خاندانوں کو تقسیم کیا گیا، بچوں کو والدین سے جدا کر کے حراستی کیمپوں میں ڈال دیا گیا، اور یہ باور کرایا گیا کہ دنیا کی واحد سپر پاور اگر چاہے تو نہتے، بے بس اور کمزور لوگوں کو روند کر اپنی برتری ثابت کر سکتی ہے۔

لیکن طاقت کا مظاہرہ صرف اتنا کافی نہیں تھا۔ فلسطین میں، امریکہ کے اسلحے، مالی امداد اور سیاسی پشت پناہی سے اسرائیل نے عورتوں اور بچوں کو محصور کر کے غزہ کو قتل گاہ میں تبدیل کر دیا۔ امریکہ خاموش رہا بلکہ اقوامِ متحدہ میں اسرائیلی مظالم پر پردہ ڈالنے کے لیے اپنی ویٹو پاور کا بے دریغ استعمال کرتا رہا۔

پھر باری آئی کمزور ریاستوں کی۔ یمن، صومالیہ، عراق اور شام کو پراکسی جنگوں کے ذریعے کمزور کیا گیا۔ کہیں امریکہ براہِ راست حملہ آور ہوا، کہیں اسرائیل اور اس کے دوسرے اتحادیوں کو آگے بڑھایا گیا۔ ہر جگہ خون، بارود اور تباہی نے یہ پیغام دیا کہ امریکہ آج بھی دنیا کی سب سے بڑی تباہ کن قوت ہے۔

روس جیسی بڑی فوجی طاقت کے خلاف بھی امریکہ نے سازشوں کا دائرہ بڑھایا۔ یوکرین کی جنگ میں نیٹو اور امریکی مداخلت نے روس کو اشتعال دلایا اور یہاں تک نوبت آئی کہ روس کے اندر ہوائی اڈوں پر کھڑے جنگی طیارے تباہ کیے گئے۔ امریکہ نے دنیا کو پیغام دیا کہ وہ دشمن کے گھر کے اندر گھس کر مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

لیکن اس بار اسرائیل اور امریکہ نے جنگی تھیٹر میں بھارت کو شامل کیا۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی شدت بڑھائی اور پاکستان پر دہشتگردی کے الزامات لگا کر بین الاقوامی دباؤ بڑھانے کی کوشش کی۔ لیکن پاکستان نے نہ صرف سیاسی اور سفارتی محاذ پر بھارت کو جواب دیا بلکہ عسکری سطح پر بھی بھارت کی جارحیت کو ناکام بنا دیا۔ یوں بھارت، اسرائیل اور امریکہ کی مشترکہ چال ناکام ہوئی اور پاکستان نے دنیا کو بتا دیا کہ اسرائیلی ٹیکنالوجی اور امریکی سازشوں کے باوجود اس کی سرحدیں ناقابلِ تسخیر ہیں۔

جب ایران پر اسرائیل نے حملہ کر کے اس کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنایا تو ایران نے نہایت محتاط انداز میں جواب دیا۔ اسرائیل پر میزائل برسے اور امریکہ کو اندازہ ہوا کہ ایران کوئی عام ملک نہیں، نہ اسے لبنان یا شام سمجھا جا سکتا ہے۔ جب ایران نے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا تو امریکہ کے پاس جنگ بندی کا ڈھونگ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ بچا۔ یوں دنیا کو بتایا گیا کہ جنگ ختم ہو گئی، مگر حقیقت یہ ہے کہ صرف وقتی خاموشی ہے۔

شام میں ایک نئی چال چلی گئی۔ اسرائیل کی شہہ پر ایک مسیحی عبادت گاہ کو نشانہ بنایا گیا تاکہ مذہبی بنیاد پر شام میں نئی خانہ جنگی کی راہ ہموار کی جا سکے۔ فی الحال اس واقعے کو میڈیا سے چھپا لیا گیا ہے لیکن ہر ذی شعور جانتا ہے کہ شام کی سرزمین کو امریکہ اور اسرائیل جب چاہیں جنگ میں دھکیل سکتے ہیں۔

ٹرمپ، جو اپنے آپ کو امن کا سفیر کہتا تھا، آج ثابت کر چکا ہے کہ وہ درحقیقت اسرائیل کے اشاروں پر چلنے والا ایسا جوکر ہے جو ہر گھنٹے بعد اپنا بیان بدلتا ہے، جو وعدے کرتا ہے مگر ان پر کبھی عمل نہیں کرتا۔ نیتن یاہو جیسے بچوں کے قاتل اور انسانیت کے دشمن کی کٹھ پتلی بن کر، ٹرمپ نے نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے امن کو دائو پر لگا دیا ہے۔

اقوام عالم کے سامنے دنیا کی اکلوتی سپر پاور کے صدر کی شخصیت کا پول کھل چکا ہے ۔ کیا امریکی عوام کو بھی یہ ادراک ہو گیا ہے کہ ان کا نمائندہ امریکہ کے صدر کی بجائے ، نیتن یاہوجیسے جنگی مجرم کی کٹھ پتلی کا کرادار ادا کر رہا ہے ۔  

ٹرمپ… امن کے داعی سے جارح کا مہرہ




دنیا کی تاریخ میں طاقتور عہدے کبھی کبھی کمزور اور غیر سنجیدہ افراد کے ہاتھ آ جاتے ہیں، جن کے فیصلے نہ صرف ان کے ملک بلکہ پوری دنیا کو متاثر کرتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت اور قیادت اسی افسوسناک مثال کا عملی روپ ہے، جو اپنے متضاد بیانات، غیر مستقل مزاجی اور سیاسی کمزوری کے باعث نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کو ایک سنگین بحران کی جانب دھکیل چکے ہیں۔

ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بڑی بڑی باتیں کیں۔ انہوں نے عوام کو یقین دلایا کہ وہ امریکہ کو غیر ضروری جنگوں سے نکالیں گے، مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کریں گے، اور عالمی سیاست میں سفارت کاری کو ترجیح دیں گے۔ مگر اقتدار میں آتے ہی ان کے تمام وعدے دھوئیں میں اُڑ گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ، اسرائیل کے وزیرِاعظم بنیامن نیتن یاہو کے ہاتھوں میں ایک کٹھ پتلی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔

ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دستبرداری، فلسطین پر اسرائیلی قبضے کی حمایت، یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا متنازع فیصلہ، اور عرب دنیا میں عدم استحکام — یہ سب نیتن یاہو کی دیرینہ خواہشات تھیں جو ٹرمپ کی کمزور قیادت کے سائے میں عملی جامہ پہن گئیں۔

دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جیسے ہی پندرہ جون کو ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی امید پیدا ہوئی، اسرائیل نے تیرہ جون کو ایران پر حملہ کر دیا۔ ٹرمپ کا سیز فائر کا وعدہ ایک مذاق بن کر رہ گیا اور اگلے ہی دن ٹرمپ خود جنگ میں کود گئے۔ یہ واضح پیغام تھا کہ امریکہ اب آزاد ریاست کم اور اسرائیل کی سیاسی چالوں کا آلۂ کار زیادہ بن چکا ہے۔

یہ حقیقت صرف مشرقِ وسطیٰ تک محدود نہیں رہی۔ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں روس اور یوکرین کی جنگ بھی شدت اختیار کرتی گئی۔ جہاں توقع تھی کہ امریکہ ایک غیر جانب دار ثالثی کردار ادا کرے گا، وہاں روس نے امریکی مداخلت کا الزام لگا کر اپنے تباہ شدہ جنگی جہازوں کی ذمہ داری امریکہ پر ڈال دی۔ ٹرمپ کی کمزور حکمت عملی کے باعث عالمی سطح پر امریکہ کی ساکھ مزید متاثر ہوئی۔

جنوبی ایشیا کی صورتحال پر نظر دوڑائیں تو یہاں بھی ٹرمپ کی خارجہ پالیسی نے خطرناک اثرات مرتب کیے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھتی گئی، اور پاکستانی عوام کے ذہنوں میں یہ شک جڑ پکڑتا گیا کہ بھارت کو اسرائیل کی خفیہ مدد حاصل ہے۔ اور اسرائیل، امریکہ کی آشیر باد کے بغیر کسی خطے میں دخل اندازی نہیں کرتا۔ ماضی میں بھی بھارت اور اسرائیل کی دفاعی شراکت داری رہی ہے، مگر ٹرمپ کے دور میں اس تعاون کو غیر معمولی وسعت ملی، جس نے خطے میں طاقت کا توازن مزید بگاڑ دیا۔

ٹرمپ کی شخصیت میں نہ سیاسی بلوغت ہے، نہ عالمی سطح کی سمجھ بوجھ۔ ان کے فیصلے محض ذاتی مفادات اور وقتی سیاسی فائدے کے گرد گھومتے ہیں۔ نیتن یاہو جیسے چالاک سیاست دانوں نے ٹرمپ کی اسی کمزوری کو خوب استعمال کیا اور امریکہ کو اپنی خارجہ پالیسی کا مہرہ بنا کر رکھ دیا۔

فلسطینیوں کے ساتھ امریکہ اور اسرائیل کی وعدہ خلافیاں ایک بار پھر کھل کر سامنے آئیں۔ انیس سو سینتالیس میں فلسطینی ریاست کے قیام کا وعدہ، انیس سو سڑسٹھ میں اسرائیلی قبضہ، ہر دور میں فلسطینی عوام سے فریب اور دھوکہ، اور اب ٹرمپ کے دور میں ان کے تمام حقوق روند ڈالنے کی کھلی اجازت — یہ سب دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

سوال یہ نہیں کہ ٹرمپ کمزور صدر ہیں یا نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا دنیا اتنی سادہ لوح ہے کہ یہ حقیقت نظر انداز کرے کہ امریکہ اب ایک خود مختار سپر پاور نہیں رہا بلکہ اسرائیل کی چالاکیوں کا آلۂ کار بن چکا ہے؟

دنیا میں جب بھی کوئی طاقتور ملک کمزور قیادت کے ہاتھ آتا ہے تو اس کے اثرات صرف ایک ملک تک محدود نہیں رہتے بلکہ پوری دنیا اس کی قیمت چکاتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کی آگ، روس اور یوکرین کی کشیدگی، جنوبی ایشیا میں بڑھتا ہوا تناؤ، اور فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی — یہ سب ٹرمپ کی کمزوریوں اور اسرائیل کی چالاکیوں کا نتیجہ ہے۔


اتوار، 22 جون، 2025

ایران






ایران پر حالیہ امریکی حملے نے مشرقِ وسطیٰ کی فضا کو ایک بار پھر بارود آلود کر دیا ہے۔ یہ حملہ اچانک نہیں تھا، بلکہ ایک منظم منصوبے کا تسلسل ہے جس کا آغاز پہلے اسرائیلی اشتعال انگیزی سے ہوا، پھر یورپی یونین کے نام نہاد سفارتی مشوروں سے، اور آخر میں امریکہ کی کھلی عسکری جارحیت سے۔

ایران کو پہلے مذاکرات کے نام پر دھوکہ دیا گیا۔ یورپی یونین نے ثالثی کا لبادہ اوڑھ کر ایران کو جھوٹی امیدوں میں الجھائے رکھا۔ اسی دوران اسرائیل مسلسل اشتعال انگیز اقدامات کرتا رہا، ایرانی سائنسدانوں کے قتل، شام میں ایرانی تنصیبات پر حملے، اور پراکسی جنگوں کا میدان گرم رکھ کر تہران کو مسلسل دفاعی پوزیشن میں دھکیلتا رہا۔ ایران نے پھر بھی تحمل کا راستہ اختیار کیا اور دنیا کو یقین دلایا کہ وہ جنگ نہیں، امن کا خواہاں ہے۔

مگر امن کی امید اس وقت کرچی کرچی ہو گئی جب امریکہ نے فوردو، نطنز اور اصفہان جیسے ایران کے تین حساس ترین جوہری مراکز پر حملہ کر دیا۔ ان حملوں کا مقصد نہ صرف ایران کی ایٹمی صلاحیت پر ضرب لگانا تھا بلکہ یہ ایران کو عالمی سطح پر کمزور کرنے کی ایک کوشش بھی تھی۔

حیرت انگیز طور پر، ایران کی نیشنل نیوکلیئر سیفٹی سسٹم سینٹر نے اعلان کیا کہ ان حملوں کے باوجود کسی قسم کی تابکار آلودگی یا جوہری مواد کا اخراج نہیں ہوا، کیونکہ حساس مواد پہلے ہی محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ یہ اعلان نہ صرف ایران کی تکنیکی مہارت کا ثبوت ہے بلکہ اس کے اس دیرینہ دعوے کو بھی تقویت دیتا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا۔

ایران نے حملے کے فوری بعد جوابی کارروائی سے گریز کیا، مگر یہ گریز کمزوری نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے۔ ایرانی قیادت عوام کے جذبات سے آگاہ ہے اور انہیں اس بات پر مطمئن کیا گیا ہے کہ ردِعمل ضرور ہوگا، مگر اپنے وقت اور طریقے سے۔ آبنائے ہرمز کی بندش، امریکی اڈوں کی فہرست، اور بیلسٹک میزائلوں کی تیاری، سب کچھ ایران کی میز پر موجود ہے — بس انگلیاں ٹرگر پر نہیں رکھیں گئیں، ابھی۔

امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اگر ایران نے امریکی مفادات کو نقصان پہنچایا تو وہ "ناقابلِ برداشت قیمت" چکائے گا۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ حملہ پہلے امریکہ نے کیا ہے۔ ایران پر الزامات لگانے سے پہلے واشنگٹن کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا کہ وہ خود ایک جارح ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے کیوں آ رہا ہے۔

ایرانی مؤقف بالکل واضح ہے: جب اس کے حساس مراکز کو نشانہ بنایا گیا ہے، تو اب اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے دفاع میں کوئی بھی قدم اٹھائے۔ عراق، شام، قطر، بحرین، اور خلیج کی دیگر امریکی تنصیبات اب اس خطرے کی زد میں ہیں، جسے ایران وقتی طور پر روک رہا ہے، مگر ہمیشہ کے لیے نہیں۔

چین اور روس نے اگرچہ اب تک صرف "تحمل" کی اپیل کی ہے، مگر سفارتی محاذ پر ایران کے ساتھ کھڑے ہونے کے اشارے دے رہے ہیں۔ یہ عالمی قوتوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے — اگر اب بھی انصاف اور توازن کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو یہ تنازع ایک عالمی بحران میں بدل سکتا ہے۔

ایرانی عوام نے اپنی حکومت پر اعتماد ظاہر کیا ہے، خاص طور پر اس بات پر کہ بروقت حساس مواد کو محفوظ بنا کر ایک ممکنہ تباہی سے بچا لیا گیا۔ اب حکومت نہ صرف اپنے داخلی استحکام میں مضبوط ہے بلکہ اس کے پاس اخلاقی جواز بھی موجود ہے کہ وہ امریکہ کی اس کھلی جارحیت کا جواب دے۔

یہ سب کچھ ایک بڑی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے: ایران کو دیوار سے لگانے کی کوششیں اب ناکام ہونے والی ہیں۔ نہ اسرائیلی چالیں کارگر ہوئیں، نہ یورپی سفارت کاری، اور اب امریکی میزائل بھی ایران کے عزم کو نہیں جھکا سکے۔ ایران نے جنگ شروع نہیں کی، مگر اگر اس پر جنگ مسلط کی گئی تو وہ اسے ختم کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے — چاہے قیمت کوئی بھی ہو۔
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

ہفتہ، 21 جون، 2025

اسرائیل کے دوست




اسرائیل کے دوست

تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

دنیا میں قوموں کے تعلقات صرف معاہدات، مفادات یا وقتی ضروریات پر مبنی نہیں ہوتے، بلکہ بعض رشتے فطری ہوتے ہیں — نظریاتی ہم آہنگی، تاریخی تجربات، تہذیبی مماثلت، اور اسٹریٹجک ضروریات کے باعث بعض ممالک ایک دوسرے کے قدرتی اتحادی بن جاتے ہیں۔ اسرائیل کے معاملے میں بھی یہی صورتحال ہے۔ اگرچہ اس کی جغرافیائی حدود مشرق وسطیٰ میں واقع ہیں، لیکن اس کے قدرتی اتحادی عموماً مغربی یا غیر عرب دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم اسرائیل کے قدرتی اتحادیوں کا مفصل تجزیہ کریں گے۔
 امریکہ: اسٹریٹجک رفیق یا روحانی بھائی؟
امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا اور دیرینہ اتحادی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان فوجی، انٹیلی جنس، اقتصادی اور سائنسی تعلقات نہایت مضبوط ہیں۔ اس تعلق کی چند بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں:
یہودی لابی کا اثر: امریکہ میں یہودی برادری کا اثرورسوخ بہت گہرا ہے۔
 AIPAC
 جیسی تنظیمیں امریکی پالیسی پر براہ راست اثر ڈالتی ہیں۔
مسیحی صہیونی تحریک: ایک بڑی امریکی عیسائی آبادی عقیدے کی بنیاد پر اسرائیل کی حمایت کرتی ہے۔ ان کے نزدیک اسرائیل کی طاقت مسیحا کی آمد کے لیے لازمی ہے۔
اسٹریٹجک ضرورت: مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے لیے اسرائیل ایک مستقل عسکری اڈہ ہے، جہاں سے وہ علاقائی طاقتوں ایران، شام، اور حتیٰ کہ ترکی پر بھی نظر رکھتا ہے۔
بھارت: نظریاتی ہم آہنگی اور اسلام دشمنی کا اشتراک
اگرچہ بھارت نے 1992 میں اسرائیل سے باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کیے، مگر گزشتہ دو دہائیوں میں یہ تعلقات حیرت انگیز حد تک گہرے ہو چکے ہیں۔
اسلام مخالف بیانیہ: بھارت اور اسرائیل دونوں نے مذہبی اقلیتوں — خصوصاً مسلمانوں — کے خلاف سخت گیر رویہ اپنایا ہے۔ نریندر مودی اور بنیامین نیتن یاہو کی قیادت میں یہ رشتہ مزید مستحکم ہوا۔
دہشت گردی کے خلاف اتحاد: دونوں ممالک خود کو دہشت گردی کا شکار ظاہر کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے انسداد دہشت گردی کی ٹیکنالوجی اور تجربات شیئر کرتے ہیں۔
دفاعی تجارت: اسرائیل، بھارت کو جدید ہتھیار، ڈرون، سائبر ٹیکنالوجی، اور انٹیلیجنس سسٹمز فراہم کرتا ہے۔
 یونان اور قبرص: اسرائیل کے یورپی پڑوسی
مشرقِ وسطیٰ کے جغرافیائی قرب میں واقع یونان اور قبرص اسرائیل کے قدرتی اتحادیوں میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔
ترکی مخالف اتحاد: ترکی کے ساتھ ان تینوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں، جس کا فائدہ باہمی اشتراک میں ہو رہا ہے۔
توانائی کے منصوبے: اسرائیل، یونان اور قبرص نے مشرقی بحیرہ روم سے گیس نکالنے اور یورپ تک پہنچانے کے لیے مشترکہ پائپ لائن منصوبے بنائے ہیں۔
بحری تحفظ: یہ ممالک مل کر سمندری تحفظ، انٹیلیجنس شیئرنگ اور نیول مشقیں کرتے ہیں۔
 افریقی ممالک: نظریاتی نہیں، لیکن فائدے مند اتحادی
متعدد افریقی ممالک جیسے کینیا، یوگنڈا، ایتھوپیا، اور روانڈا اسرائیل کے ساتھ دفاعی، زرعی اور تکنیکی تعلقات رکھتے ہیں۔ ان میں کچھ بنیادی وجوہات شامل ہیں:
ترقیاتی منصوبے: اسرائیل ان ممالک کو ٹیکنالوجی، زراعت، اور پانی کی صفائی میں مدد فراہم کرتا ہے۔
اقوامِ متحدہ میں ووٹنگ سپورٹ: یہ ممالک اسرائیل کو عالمی فورمز پر ووٹ کے ذریعے فائدہ دیتے ہیں۔
 خلیجی ممالک (نئے اتحادی)
ابراہام معاہدے کے بعد متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش، اور سوڈان نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔
ایران مخالف بیانیہ: ان ممالک کے لیے اسرائیل ایک طاقتور حلیف ہے جو ایران کے خلاف عالمی سطح پر دباؤ بنا سکتا ہے۔
معاشی مفادات: ٹیکنالوجی، سائبر سکیورٹی، اور سیاحت کے شعبوں میں اسرائیل کی مہارت ان ممالک کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
امریکی دباو: امریکہ نے ان ممالک پر سفارتی دباؤ ڈال کر اسرائیل سے تعلقات قائم کرائے۔

اسرائیل کے " اتحادی" صرف وہ ممالک نہیں جو اس سے سفارتی یا عسکری تعلقات رکھتے ہیں، بلکہ وہ ہیں جو
نظریاتی طور پر اسلام دشمنی میں شریک ہیں،
ایران مخالف بیانیے کے حامل ہیں،
امریکہ کی عالمی حکمت عملی کا حصہ ہیں،
یا پھر اسرائیلی ٹیکنالوجی اور عسکری طاقت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

اسرائیل آج ایک ایسا ملک بن چکا ہے جو اپنے فطری اتحادیوں کے ساتھ مل کر نہ صرف مشرق وسطیٰ کی سیاست بلکہ عالمی جغرافیہ پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔