اتوار، 5 اکتوبر، 2025

کیا کھویا



اسرائیل نے فلسطینیوں پر جنگ کے نام پر جو نسل کشی مسلط کر رکھی ہے ۔ دو سالوں  میں اسرائیل نے کیا کھویا 
اسرائیل نے غزہ پر مسلط کردہ جنگ میں جو نتائج سمیٹے ہیں، وہ تاریخ میں ایک عبرت بن کر رہ جائیں گے۔ طاقت کے نشے اور غرور میں ڈوبی اس ریاست نے نہ صرف اپنی فوجی اور مالی قوت کا نقصان اٹھایا بلکہ اپنی عالمی ساکھ اور داخلی وحدت بھی کھو دی۔
سب سے پہلے اسرائیل کو انسانی نقصان اٹھانا پڑا۔ سات ہزار سے زائد فوجی ہلاک ہوئے جبکہ پچیس ہزار سے زیادہ فوجی مستقل معذوری کا شکار ہو گئے۔ یہ اعداد و شمار اسرائیلی فوج کے لیے ایک ایسی شکست ہیں جسے وہ برسوں تک بھلا نہیں پائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے سینکڑوں بکتر بند گاڑیاں، بھاری اسلحہ اور جدید ٹیکنالوجی کھو دی، وہ ٹیکنالوجی جسے وہ خطے میں اپنی برتری کی علامت سمجھتا تھا۔
مالی طور پر بھی اسرائیل کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ یہ بوجھ صرف فوجی اخراجات تک محدود نہیں رہا بلکہ اسرائیل کے ہزاروں گھروں کی تباہی اور معیشت کی جڑوں تک جا پہنچا۔ اس کے نتیجے میں اسرائیلی عوام پر مزید دباؤ بڑھ گیا اور داخلی استحکام ڈانواں ڈول ہو گیا۔
سیاسی اور سفارتی میدان میں بھی اسرائیل کو کاری ضرب لگی۔ عرب دنیا کے ساتھ معمول کے تعلقات کے خواب بکھر گئے، مصر اور اردن جیسے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات متزلزل ہو گئے اور بعض عرب ریاستوں کے ساتھ قائم خفیہ اتحاد بھی دم توڑ گئے۔ دنیا بھر میں اسرائیل کی اساطیری ساکھ، کہ وہ ایک "ناقابل شکست فوج" رکھتا ہے، زمین بوس ہو گئی۔ مغربی رائے عامہ کا اعتماد بھی اسرائیل سے چھن گیا، یہاں تک کہ بین الاقوامی برادری نے بھی اس کی جارحیت پر صبر کھو دیا۔
داخلی طور پر اسرائیل شدید بحران کا شکار ہے۔ عوام نے حکومت اور بالخصوص وزیرِاعظم نتن یاہو پر اعتماد کھو دیا ہے۔ فوجی جرنیل اور اعلیٰ کمانڈر جنگ میں مارے گئے، داخلی یکجہتی پارہ پارہ ہو گئی اور معاشرتی تقسیم گہری ہو گئی۔ اسرائیل نے اپنی نوجوان نسل کا ایک بڑا حصہ بھی اس بے مقصد جنگ میں ضائع کر دیا۔
سب سے بڑھ کر اسرائیل نے اپنی باقی ماندہ انسانیت بھی کھو دی۔ مظلوم عوام پر بمباری، معصوم بچوں کا قتل اور انسانی اقدار کی پامالی نے اسرائیل کو دنیا کے سامنے ایک وحشی ریاست بنا کر رکھ دیا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل نے اس جنگ میں سب کچھ کھو دیا: اپنی فوجی برتری، مالی قوت، سفارتی روابط، بین الاقوامی ساکھ، داخلی استحکام اور اخلاقی وجود۔ یہ وہ شکست ہے جو صرف آج تک محدود نہیں رہے گی بلکہ آنے والے برسوں میں اسرائیل کی سیاست، معیشت اور معاشرت کو کھا جائے گی۔

کوئی تبصرے نہیں: