مثبت اور منفی سوچ
“انسان اپنی سوچ کا عکس بن کر جیتا ہے؛
روشنی ذہن میں ہو تو اندھیرا بھی راستہ بن جاتا ہے۔”
زندگی میں محرومیاں ہوں یا آسائشیں، دونوں انسان کے اندر ایک خاص ذہنی زاویہ پیدا کرتی ہیں — ایک ایسا مائنڈسیٹ جو وقت کے ساتھ اُس کی پہچان بن جاتا ہے۔ دولت، شہرت اور آرام اگرچہ زندگی کو سہولت دے سکتے ہیں، مگر سکون اور وقار کا تعلق ہمیشہ سوچ کے معیار سے ہوتا ہے۔
ہم روز دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص مال و دولت میں ڈوبا ہوا ہے مگر دل کے سکون سے محروم ہے، اور کوئی تنگدست اپنی خودداری کے باعث بادشاہوں کی طرح جیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل دولت مثبت سوچ ہے، اور اصل غربت منفی سوچ۔
مثبت سوچ انسان کو حالات سے اوپر اٹھا دیتی ہے۔ وہ رکاوٹ کو سبق سمجھتا ہے، اور محرومی کو تربیت۔ وہ جانتا ہے کہ زندگی کا ہر موڑ ایک نیا پیغام رکھتا ہے۔ یہی سوچ اُسے مایوسی کے اندھیروں میں بھی امید کی روشنی دکھاتی ہے۔
اس کے برعکس، منفی سوچ انسان کو آسائشوں کے باوجود قید کر دیتی ہے۔ وہ ہر نعمت میں کمی ڈھونڈتا ہے، ہر خوشی میں اندیشہ۔ مایوسی، شک اور خوف اس کے ذہن پر قابض رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اپنی ہی سوچ کا غلام بن جاتا ہے۔
اصل غلامی جسم کی نہیں، ذہن کی ہوتی ہے۔
جو اپنے مائنڈسیٹ کا غلام بن جائے، وہ کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔ مگر جو اپنی سوچ کا مالک ہو جائے، وہ محرومی میں بھی مطمئن رہتا ہے۔
زندگی دراصل وہی دکھاتی ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر نگاہ میں روشنی ہو تو اندھیرا بھی جمال بن جاتا ہے، اور اگر نظر میں منفی سوچ چھا جائے تو روشنی بھی بوجھ لگتی ہے۔
لہٰذا سوال یہ نہیں کہ ہمارے پاس کیا ہے، بلکہ یہ ہے کہ ہم کیا سوچتے ہیں۔
کیونکہ انسان اپنی سوچ کے رنگ میں ڈھل کر جیتا ہے —
اور جو اپنی سوچ کو سنوار لے، وہی دراصل زندگی جیتا ہے۔
سدا مثبت سوچیں اور خوش رہیں۔۔۔
دعا گو
دلپزیرجنجوعہ

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں