غزہ کی مساجد مین اب بھی اذان کی صدا گونجتی ہے، یہ سرزمین محض ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ ایمان، قربانی اور استقامت کی علامت ہے۔ فلسطینی عوام کا اپنے وطن سے روحانی، مذہبی اور تاریخی تعلق اتنا گہرا ہے کہ سات دہائیوں کی آگ اور خون کی بارش بھی اسے کمزور نہ کر سکی۔
نو اکتوبر 2025، دوپہر دو بجے—دنیا نے ایک نیا منظر دیکھا۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان طویل اور خونی جنگ کے بعد ایک نازک مگر امید بھرا معاہدہ نافذ ہوا۔ اس کے تحت 400 ٹرک امدادی سامان غزہ میں داخل ہونے لگے، یرغمالیوں کی رہائی کا سلسلہ شروع ہوا، اور شہری آبادیوں سے اسرائیلی فوج کے انخلا کی خبریں آنے لگیں۔ برسوں کے بعد، ملبے کے درمیان کچھ چہروں پر زندگی کی ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔ غزہ کے لوگ جو بچ گئے، انہوں نے اس معاہدے کو امن کی پہلی سانس قرار دیا۔
لیکن امن کی یہ سانس کتنی نازک ہے، یہ صرف وہ جانتے ہیں جنہوں نے 724 دنوں تک موت کے سائے میں زندگی گزاری۔ دو برس سے زائد عرصے میں 92 فیصد اسکول تباہ ہو گئے، 63 یونیورسٹیاں مٹی کا ڈھیر بن گئیں، اور باقی تعلیمی ادارے بھی ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں ۔۔ 62 فیصد لوگ اپنے گھروں اور زمینوں کے دستاویزی ثبوت کھو چکے ہیں۔ تین لاکھ سے زیادہ جانیں قربان ہو چکیں، اور 50 ہزار بچے بھوک اور بیماری کے ہاتھوں زندگی اور موت کے درمیان جھول رہے ہیں۔ یہ وہ چہرے ہیں جن پر کسی دنیاوی معاہدے کا نام تحریر نہیں، مگر ان کی خاموشی سب سے بڑا الزام ہے۔
سیاسی منظر بھی پیچیدہ ہے۔ نیتن یاہو کا دو ریاستی حل سے انکار عرب و مسلم دنیا میں اتحاد کی نئی لہر پیدا کر رہا ہے۔ ٹونی بلیر کے بارے میں عرب حکمرانوں کا کہنا ہے کہ وہ "جنگی مجرم" ہے، ایک اسرائیلی وزیر نے کھلے عام کہا کہ "یرغمالیوں کی رہائی کے بعد حماس کو ختم کر دیا جائے گا" — یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ جنگ بندی کے پیچھے اب بھی انتقام کی آنچ باقی ہے۔
اس کے برعکس، بین الاقوامی منظرنامے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خوداعتمادی اور آٹھ ممالک کی شمولیت نے اس معاہدے کو وقتی طور پر مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔ مگر اقوام متحدہ اور علمی برادری کا کہنا ہے کہ حقیقی امن انصاف اور جواب دہی کے بغیر ممکن نہیں۔ ماضی کے معاہدے دیرپا ثابت نہیں ہوئے، اس لیے دنیا کے لیے یہ ایک آزمائش ہے کہ کیا وہ اس بار انصاف کے ساتھ امن کو جوڑ سکتی ہے یا نہیں۔
غزہ کی داستان سیاست کی نہیں، انسانیت کی ہے۔ قحط نے جسم سوکھا دیے، مگر روح کو زندہ رکھا۔ انسان کا سر پھول جاتا ہے، ہڈیوں سے گوشت غائب ہو جاتا ہے، مگر بچے پھر بھی اپنے ٹوٹے کھلونوں سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی امید ہے، جو اس ملبے میں بھی زندہ ہے۔ حماس اور فلسطینی عوام نے معاہدہ قبول کیا، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مزاحمت صرف گولی سے نہیں، یقین سے جیتی جاتی ہے۔ یہ فتح تحفے میں نہیں ملی؛ یہ خون، صبر اور قربانی سے حاصل کی گئی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس فتح کو کیسے دیکھے گی؟ اگر انصاف نہ ہوا، اگر جنگی جرائم کی نشاندہی اور احتساب نہ کیا گیا، تو یہ امن محض وقتی خاموشی بن کر رہ جائے گا۔ اگر اس موقع کو انصاف، تعمیر نو اور انسانی وقار کے ساتھ جوڑا گیا، تو یہی معاہدہ ایک نئے دور کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
غزہ آج بھی سانس لے رہا ہے—زخمی، کمزور، مگر زندہ۔ وہاں کے لوگوں نے ثابت کیا ہے کہ امید کو مارا نہیں جا سکتا۔ ان کی آنکھوں میں اب بھی ایک روشنی باقی ہے، وہ روشنی جو ملبے کے بیچ سے پھوٹتی ہے، جو دنیا کو یاد دلاتی ہے کہ امن صرف طاقت سے نہیں، انصاف سے قائم ہوتا ہے۔ اور جب انصاف قائم ہو جائے گا، تب شاید فلسطین کی زمین پر پہلی بار حقیقی امن کا سورج طلوع ہوگا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں