منگل، 7 اکتوبر، 2025

مزاکرات کا دوسرا دن




شرم الشیخ میں مذاکرات کا دوسرا دن کسی حتمی معاہدے کے بغیر ختم ہوا، مگر سفارتی سرگرمیوں میں تیزی آ گئی ہے۔ امریکی، قطری، مصری اور ترک نمائندوں کی شمولیت سے امکان بڑھ گیا ہے کہ بدھ کا دن فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا باہمی بداعتمادی ختم ہو کر ایک پائیدار جنگ بندی کی راہ ہموار کر پاتی ہے یا نہیں — اور کیا غزہ ایک نئے باب کا آغاز دیکھ سکے گا۔

 امن کی نئی امید
مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے بالواسطہ مذاکرات دوبارہ شروع ہو گئے ہیں۔ یہ دن علامتی طور پر نہایت اہم تھا کیونکہ یہ 7 اکتوبر 2023 کے اُس حملے کی دوسری برسی تھی جس نے موجودہ جنگ کو جنم دیا۔

امریکی امن منصوبہ اور مذاکرات کا محور
مذاکرات کا مرکز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا 20 نکاتی امن منصوبہ ہے، جس میں فوری جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، حماس کی غیر مسلحی اور غزہ کے لیے ایک بین الاقوامی انتظامی نظام کی تجویز شامل ہے۔
اسرائیل نے منصوبے کو اصولی طور پر قبول کر لیا ہے اور مذاکرات کو "تکنیکی تفصیلات" تک محدود قرار دیا ہے۔ دوسری جانب حماس کا اصرار ہے کہ معاہدے میں مستقل جنگ بندی اور مکمل اسرائیلی انخلا کی ضمانت شامل ہو، جو ابھی تک اسرائیل نے تسلیم نہیں کی۔

پہلا دن
پیر کے روز مذاکرات کے پہلے دن ماحول مثبت رہا۔ مبصرین کے مطابق بات چیت کے اختتام پر ایک محتاط امید پیدا ہوئی۔

گفتگو کے اہم نکات میں یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے، غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل اور ابتدائی انخلا زونز کے تعین پر تبادلہ خیال شامل تھا۔ تاہم سب سے بڑا اختلافی نکتہ یہ رہا کہ حماس چاہتی ہے اسرائیل کسی بھی معاہدے کے بعد دوبارہ جنگ شروع نہ کرے۔

دوسرا دن 
منگل کو مذاکرات میں اہم سیاسی شخصیات شامل ہو گئیں۔ امریکی وفد کی قیادت اسٹیو وٹکوف اور جیرڈ کشنر کر رہے ہیں۔ قطر کے وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی اور ترکی کے انٹیلیجنس سربراہ ابراہیم کالن بھی مذاکرات میں شریک ہو چکے ہیں۔
حماس کا اصرار
اسی دوران حماس کے رہنما خلیل الحیہ، جو پچھلے مہینے قطر میں ایک اسرائیلی حملے میں اپنے بیٹے کو کھو چکے تھے، پہلی بار منظرِ عام پر آئے۔ انہوں نے مصری ٹی وی پر کہا کہ حماس صرف ایسے معاہدے پر دستخط کرے گی جس میں مستقل امن کی بین الاقوامی ضمانت ہو۔

عوامی دباو
دنیا بھر میں جنگ کے متاثرین کی یاد میں احتجاجی مظاہرے اور دعائیہ اجتماعات منعقد ہوئے۔ لندن، سڈنی اور نیویارک میں فلسطینیوں کے حق میں ریلیاں ہوئیں، جبکہ اسرائیل میں حملے میں مارے جانے والوں کی یادگار تقاریب منعقد کی گئیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں “پائیدار امن کے امکانات حقیقی لگ رہے ہیں”، جبکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے فریقین سے اپیل کی کہ “اس نایاب موقع کو ضائع نہ کریں”۔

تیسرے دن کے مذاکرات سے قبل اہم رکاوٹیں 
غیر مسلحی: ٹرمپ کا منصوبہ حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کرتا ہے، لیکن حماس نے انکار کر دیا ہے۔
مکمل انخلا: حماس کا کہنا ہے کہ آخری یرغمالی کی رہائی اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا سے مشروط ہوگی۔
غزہ کا نظم و نسق: منصوبے میں بین الاقوامی انتظامیہ (جن میں ٹونی بلیئر کا ذکر ہے) کی تجویز شامل ہے، جبکہ حماس چاہتی ہے کہ اختیار فلسطینیوں کے پاس رہے۔
بین الاقوامی ضمانتیں: حماس چاہتی ہے کہ کسی تیسرے فریق کی نگرانی میں ایسا قانونی نظام بنے جو اسرائیل کو دوبارہ جنگ سے روکے۔

مبصرین کے مطابق اس بار مذاکرات کا ماحول نسبتاً تعمیری ہے، جس سے ایک ممکنہ پیش رفت کی امید پیدا ہو گئی ہے۔


کوئی تبصرے نہیں: