بدھ، 15 اکتوبر، 2025

علامہ خادم حسیں رضوی کے بعد(2)


علامہ خادم حسیں رضوی کے بعد(2)
تحریک لبیک پاکستان کی کہانی دراصل عشقِ رسول ﷺ کے جذبے سے شروع ہوئی تھی۔ علامہ خادم حسین رضویؒ نے اس تحریک کو عشق، ایمان، اور اخلاق کے سنگم پر کھڑا کیا۔ ان کے خطابات میں جہاں جوش ہوتا، وہاں تہذیب بھی ہوتی؛ جہاں غیرتِ ایمانی دکھائی دیتی، وہاں احترامِ انسانیت بھی جھلکتا تھا۔ مگر ان کی وفات کے بعد تحریک ایک ایسے موڑ پر آ گئی جس نے اس کے اخلاقی اور فکری وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
اختلافات کی بازگشت
خادم حسین رضویؒ کے انتقال کے فوراً بعد پارٹی کے اندر قیادت کے تعین پر اختلافات کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ تحریک کے کچھ بانی اراکین کا مؤقف تھا کہ قیادت کے لیے صرف نسب کافی نہیں، بلکہ دینی علم، سیاسی بصیرت اور اخلاقی پختگی بنیادی شرائط ہیں۔ ان میں سے بعض کا کہنا تھا کہ: “تحریک ایک جذباتی طوفان ہے، اگر اسے تجربہ کار ہاتھ نہ سنبھالیں تو یہ اپنے ہی خوابوں کو توڑ دے گی۔” اس اختلاف کے باوجود، مرکزی شوریٰ نے سعد رضوی کو نیا امیر مقرر کر دیا۔ یہ فیصلہ جذباتی احترام میں تو درست محسوس ہوا، مگر تنظیمی لحاظ سے کئی سوالات اٹھ گئے - ان سوالات میں ایک سوال ایک بانی کارکن کا بھی تھا “جو شخص کسی کو محض قرابت یا دوستی کی بنیاد پر ذمہ داری دے، وہ اللہ اور رسول ﷺ سے خیانت کرتا ہے۔”
(سنن بیہقی، ج5، ص65)
بانی اراکین کی خاموش رخصتی
علامہ صاحب کے چند قریبی رفقا، جو تحریک کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل تھے، نے یا تو خاموشی اختیار کر لی یا نظریاتی اختلاف کے باعث خود کو الگ کر لیا۔ان میں بعض وہ تھے جو خادم رضویؒ کے ابتدائی جلسوں، احتجاجوں اور تنظیمی خاکے کے معمار تھے۔ان کے نزدیک تحریک کا رخ آہستہ آہستہ عوامی اصلاح سے زیادہ سیاسی مفاد کی طرف مڑ رہا تھا۔
ایک سابق ضلعی ناظم نے کہا: “اب تحریک کے اندر رائے دینا گناہ سمجھا جاتا ہے، اور سوال اٹھانا بغاوت۔”
اخلاقی گراوٹ
تحریک کا سب سے بڑا نقصان اخلاقی سطح پر ہوا۔علامہ خادم رضویؒ کی زندگی میں کارکنوں کو "زبان کی پاکیزگی" پر سختی سے تاکید کی جاتی تھی۔ ان کا فرمان ریکارڈ پر ہے “زبان بندہ کا آئینہ ہے، اگر زبان خراب ہو گئی تو دل سیاہ ہو جاتا ہے۔” (بیان فیضِ رضوی، لاہور اجتماع 2017)
لیکن آج تحریک کے کارکنان اور رہنما اکثر غلیظ زبان، طنز اور گالی کو دلیل سمجھ بیٹھے ہیں۔ سوشل میڈیا پر مخالفین کے لیے بلکہ اصلاحی ناقدین کے بارے میں ایسے جملے استعمال ہوتے ہیں جن کا ذکر بھی شرمناک ہے۔
یہی وہ لمحہ ہے جہاں عشق کا بیانیہ اخلاقی زوال میں بدل گیا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے بھی یہ زوال خطرناک ہے
قرآن مجید فرماتا ہے: “اور اپنے قول میں نرمی اختیار کرو، بے شک شیطان تمہارے درمیان فساد ڈال دیتا ہے۔”
(سورۃ الاسراء، آیت 53)
جب عشق نفرت میں بدل جائے
تحریک کی اصل بنیاد محبت، ادب، اور عشقِ رسول ﷺ تھی۔
مگر اب جلسوں اور تقاریر میں جذباتی ردعمل، ذاتی حملے، اور بد زبانی کا رنگ غالب رہنے لگآ جو تحریک عشقِ نبی ﷺ کے نام پر اُٹھی تھی، وہ رفتہ رفتہ نفرت کے اظہار کا ذریعہ بن گئی۔ اور جب محبت نفرت میں بدل جائے تو سنجیدہ لوگ خاموش ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خادم رضویؒ کے زمانے کے کئی سنجیدہ مذہبی علما، صوفیا، اور فکری ہمدرد اب اس تحریک سے فاصلہ اختیار کر چکے ہیں۔
نا تجربہ کاری
سعد رضوی کی جوانی اور بے تجربگی کے باعث تنظیمی نظم ڈھیلا پڑ گیا۔
نوجوان قیادت کا جوش، دانائی کے بغیر، اکثر شدت میں بدل گیا۔ کئی بار تحریک کے بیانات اور پالیسی فیصلے ملک کے اندر سیاسی بحران کا سبب بنے۔
یہ سب وہ اشارے ہیں جن سے لگتا ہے کہ پارٹی فکری کمزوری اور اخلاقی بحران دونوں کا شکار ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے: “جو شخص تجربے سے خالی ہو، وہ خود اپنی رائے کا قیدی بن جاتا ہے۔”
(نہج البلاغہ)
تحریک کی بقا اخلاقی اصلاح میں ہے
تحریک لبیک اگر واقعی خادم حسین رضویؒ کے مشن کو زندہ رکھنا چاہتی ہے، تو اسے تنظیمی اصلاح، اخلاقی تربیت، اور قیادت میں بہتری لانا ہو گی۔ محبت اور ادب کے بغیر مذہبی بیانیہ، صرف نعروں کا شور بن جاتا ہے۔
اور نعروں کا شور سیاسی پارتی کا تو ممکن ہے مگر مزہبی پارٹی پر سوال اتھ جایا کرتے ہین اور یہ سوال باہر سے نہیں تحریک لبیک کے ابدر سے اتھ رہے ہیں
اگر تحریک نے خود احتسابی نہ کی تو وہ دن دور نہیں جب عشقِ رسول ﷺ کا نعرہ بھی سیاست کی گرد میں دب جائے گا۔
(جاری ہے )

کوئی تبصرے نہیں: