اسلامی اور معاشرتی تعلیمات میں شادی کو ایک پاکیزہ رشتہ اور ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ جب لڑکا یا لڑکی 18 سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو وہ بالغ ہوتے ہیں اور نکاح کے قابل سمجھے جاتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ صرف بالغ ہونا کافی نہیں، شادی کے ساتھ جڑی ہوئی معاشی ذمہ داریاں بھی اہمیت رکھتی ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں یہ بات عام ہے کہ شادی کے بعد مرد پر بیوی اور اولاد کی کفالت کی ذمہ داری ڈالی جاتی ہے۔ لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو 22 سال کی عمر تک پہنچنے والے اکثر لڑکے تعلیم یا ہنر حاصل کرنے کے مراحل میں ہوتے ہیں اور مالی طور پر کمزور سمجھے جاتے ہیں۔ ایسے میں فوری شادی کر دینا نہ صرف لڑکے کے لیے بلکہ لڑکی کے لیے بھی مشکلات پیدا کرتا ہے۔
غریب گھرانوں کے لڑکے جو والدین اور بہن بھائیوں کی کفالت کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے شادی کی جلدی عمر مناسب نہیں ہوتی۔ ایسے لڑکوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ پہلے اپنی آمدن مستحکم کریں اور پھر شادی کریں، جو اکثر 24 سے 26 سال کی عمر میں ممکن ہو پاتا ہے۔
پاکستان میں بدلتا ہوا رویہ
پاکستانی معاشرے میں عمومی رویہ بدل رہا ہے۔ اب نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکیاں بھی عملی زندگی میں قدم رکھ کر ذاتی آمدن حاصل کر رہی ہیں۔ یہ رجحان اس بات کی علامت ہے کہ شادی شدہ زندگی میں کامیابی صرف اسی وقت ممکن ہے جب جوڑا عملی سوچ رکھنے والا ہو۔ اگر مرد کمانے والا ہو لیکن عورت بالکل انحصار کرنے والی ہو تو بعض اوقات معاشی دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ مرد کے ساتھ ساتھ عورت بھی آمدنی حاصل کرنے والی ہو تاکہ دونوں مل کر زندگی کی ذمہ داریوں کو آسانی سے نبھا سکیں۔
عورت کا روزگار اور اسلامی تعلیمات
اسلامی تعلیمات اور پاکستانی معاشرے کی ضرورت کے مطابق لڑکیوں کے لیے تدریس، صحت اور آئی ٹی جیسے شعبے نہ صرف موزوں ہیں بلکہ ان میں کام کرنے والی خواتین کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک خود انحصار عورت نہ صرف اپنے شوہر کا سہارا بنتی ہے بلکہ والدین اور خاندان کے لیے بھی فخر کا باعث ہوتی ہے۔
عملی حل
-
شادی کے فیصلے میں صرف عمر نہیں بلکہ معاشی حالات کو بھی مدِنظر رکھا جائے۔
-
لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو بھی تعلیم اور ہنر کے ذریعے خود انحصاری کی طرف لایا جائے۔
-
شادی کے اخراجات میں سادگی کو فروغ دیا جائے تاکہ نوجوان جوڑے بوجھ سے آزاد رہیں۔
-
والدین اپنے بچوں کو اس سوچ کے ساتھ تیار کریں کہ دونوں مل کر ایک کامیاب اور متوازن زندگی گزار سکیں۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ آج کے دور میں کامیاب ازدواجی زندگی صرف اس صورت میں ممکن ہے جب شادی بالغ ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی خودمختاری اور عملی منصوبہ بندی کو سامنے رکھ کر کی جائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں