شکایت ہے بہت لیکن گلا اچھا نہیں لگتا
دنیا کے سب سے باوقار اعزازات میں شمار ہونے والا نوبل امن انعام اس سال بھی عالمی سیاست کا مرکزِ نگاہ بنا رہا۔ مگر 2025 کا اعلان ایک غیر متوقع بحث کو جنم دے گیا — کیونکہ جنہیں سب سے زیادہ مضبوط امیدوار سمجھا جا رہا تھا، یعنی امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ، وہ یہ انعام حاصل نہ کر سکے۔
صدر ٹرمپ کو یقین تھا کہ اُن کے حالیہ امن اقدامات، خصوصاً غزہ میں جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، اور مشرقِ وسطیٰ میں امن مذاکرات، اُنہیں عالمی سطح پر امن کا علمبردار بنا چکے ہیں۔ کئی تجزیہ کار اور ان کے حمایتی بھی یہ سمجھتے تھے کہ نوبل کمیٹی اس بار اُن کی کوششوں کو تسلیم کرے گی۔ لیکن جب اعلان ہوا تو یہ اعزاز وینزویلا کی اپوزیشن رہنما ماریا کورینا ماچادو کے حصے میں آیا۔
صدر ٹرمپ کا ابتدائی ردِعمل بظاہر پُر سکون تھا، مگر ان کے الفاظ میں مایوسی کی ہلکی جھلک صاف محسوس ہوئی۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ماریا کورینا ماچادو نے انہیں ذاتی طور پر فون کر کے بتایا کہ وہ یہ انعام ’’صدر ٹرمپ کے اعزاز میں‘‘ قبول کر رہی ہیں۔ ٹرمپ نے کہا:
’’میں نے وہ کام کیے جو کئی دہائیوں سے کوئی نہیں کر سکا — امن، قیدیوں کی رہائی، اور دشمنوں کے درمیان مذاکرات — لیکن کچھ ادارے امن سے زیادہ سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘‘
وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے بھی نوبل کمیٹی کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ فیصلہ سیاست کو امن پر ترجیح دینے کا ثبوت ہے‘‘۔
صدر ٹرمپ نے اپنے قریبی حلقے میں کہا کہ وہ ’’انعام کے بغیر بھی دنیا کے امن کے لیے کام جاری رکھیں گے‘‘، مگر ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ ’’نوبل کمیٹی نے موقع گنوا دیا‘‘۔
صدر کے حامیوں میں اس فیصلے کے بعد ایک طوفان مچ گیا۔ ریپبلکن رہنماؤں اور قدامت پسند حلقوں نے نوبل کمیٹی پر جانبداری کا الزام عائد کیا۔ سوشل میڈیا پر نوبل کمیٹی کے خلاف مہم شروع ہو گئی۔
کئی سیاسی شخصیات نے طنزیہ انداز میں ’’ٹرمپ امن انعام‘‘ کے مجسمے اور تصویریں شیئر کیں۔ ایک سینیٹر نے لکھا:
’’اگر نوبل کمیٹی نے انصاف کیا ہوتا، تو آج امن کے انعام کے ساتھ امریکہ کا پرچم لہرا رہا ہوتا۔‘‘
ٹرمپ کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ صدر ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ، کوریا اور افریقہ میں امن کے لیے جو اقدامات کیے، وہ کسی بھی عالمی رہنما سے زیادہ قابلِ تعریف ہیں۔ ان کے نزدیک نوبل کمیٹی نے ’’عالمی اشرافیہ کے دباؤ میں آ کر ایک سیاسی فیصلہ کیا۔‘‘
دنیا بھر میں اس فیصلے پر ردِعمل ملا جلا رہا۔
نوبل انعام حاصل کرنے والی ماریا کورینا ماچادو نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ یہ اعزاز ’’صدر ٹرمپ کے ساتھ شیئر کرتی ہیں‘‘ کیونکہ انہوں نے وینزویلا کی جمہوری تحریک کے لیے ’’اہم عالمی حمایت‘‘ فراہم کی۔
روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ٹرمپ کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’’انہوں نے عالمی سطح پر تنازعات کے حل کے لیے عملی کوششیں کیں‘‘۔
جبکہ نوبل کمیٹی نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’انتخاب خالصتاً میرٹ اور امن کے اصولوں پر مبنی تھا، کسی سیاسی دباؤ کے بغیر۔‘‘
امریکی میڈیا میں بھی بحث چھڑ گئی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق زیادہ تر امریکی ووٹرز کا خیال ہے کہ اگرچہ ٹرمپ کے کچھ اقدامات قابلِ ذکر ہیں، مگر وہ نوبل انعام کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ صدر ٹرمپ نے عالمی اداروں کے فیصلوں کو ’’متعصب‘‘ قرار دیا ہو۔ لیکن اس بار معاملہ صرف ایک انعام کا نہیں بلکہ عالمی ساکھ اور امریکی بیانیے کا بھی ہے۔
ٹرمپ کے لیے نوبل انعام نہ ملنا شاید وقتی دھچکا ہو، مگر سیاسی طور پر یہ اُن کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کے حامیوں نے اس فیصلے کو ایک نئے نعروں میں بدل دیا ہے
’’امن کی خدمت، انعام کی نہیں۔‘‘
صدر ٹرمپ کے لیے یہ انعام شاید نہ سہی، لیکن عالمی توجہ، سیاسی فائدہ اور عوامی تاثر — یہ سب ابھی بھی ان کے پاس ہیں۔ اور بعض اوقات سیاست میں یہ سب کچھ نوبل انعام سے زیادہ قیمتی ثابت ہوتا ہے۔
تحریر: دلپزیر جنجوعہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں