منگل، 21 اکتوبر، 2025

روح، نفس جسم



 انسان صدیوں سے یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ زندگی کے اندر وہ کون سی قوت ہے جو مردہ مادے میں حرکت پیدا کر دیتی ہے؟ وہ کون سی روشنی ہے جو جسم کو احساس، سوچ اور شعور عطا کرتی ہے؟ مذہب اسے "روح" کہتا ہے، سائنس اسے "زندگی کی توانائی" کہہ کر خاموش ہو جاتی ہے، اور فلسفہ اسے ایک ماورائی حقیقت قرار دیتا ہے۔ لیکن قرآن مجید اس سوال کا ایک مختلف، متوازن اور پر سکون جواب دیتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:
 "وہ تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے، اور تمہیں علم میں سے بہت کم دیا گیا ہے۔" (الاسراء: 85)
 یہ آیت نہ صرف انسان کی محدود عقل کو یاد دلاتی ہے بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ روح کوئی مادی چیز نہیں — یہ ایک "امرِ الٰہی" ہے، یعنی وہ قوت جو صرف اللہ کے حکم سے کام کرتی ہے۔ روح کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ قرآن اسے ہمیشہ زندگی کے آغاز، یعنی "حیات" سے جوڑتا ہے۔ جب آدمؑ کو مٹی سے بنایا گیا تو اللہ نے فرمایا: 
 "جب میں اسے درست کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں، تو تم سب سجدہ کرو۔" (الحجر: 29)
 یہ "نفخِ روح" دراصل وہ لمحہ ہے جب ایک جامد جسم زندہ وجود میں بدل گیا — یہی لمحہ انسانیت کی ابتدا ہے۔ 
 دوسری طرف قرآن "نفس" کا ذکر اس وقت کرتا ہے جب انسان اپنی ذات، اپنی خواہشات، اپنے ارادوں اور اپنے
 ضمیر سے جڑا ہوتا ہے۔ کبھی یہ نفس 
"برائی پر اکسانے والا"
ہوتا ہے — "إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ" (یوسف: 53)،
 کبھی وہ "ملامت کرنے والا ضمیر" بنتا ہے — "النَّفْسِ اللَّوَّامَةِ" (القیامہ: 2)،
 اور کبھی وہ سکون کی معراج پر جا پہنچتا ہے — "يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ" (الفجر: 27)۔ 
 یوں "روح" اور "نفس" ایک ہی وجود کے دو پہلو ہیں: روح وہ قوت ہے جو ہمیں زندگی دیتی ہے، اور نفس وہ مرکز ہے جو طے کرتا ہے کہ ہم اس زندگی کو کیسے گزاریں گے۔ روح آسمان سے آئی روشنی ہے، نفس زمین پر جلتی ہوئی وہ شمع ہے جو کبھی طوفان میں بجھ جاتی ہے، کبھی صبر سے مضبوط ہو جاتی ہے۔ فلاسفہ نے اس کو اپنے انداز میں سمجھنے کی کوشش کی۔
 ابن سینا نے کہا، "روح جسم سے الگ ایک لطیف جوہر ہے جو اس سے جڑا تو ہے مگر اس میں قید نہیں۔" 
 امام غزالی نے فرمایا، "روح ملکوتی ہے اور نفس حیوانی۔ جب نفس کو پاک کیا جائے تو وہ روح کے تابع ہو جاتا ہے۔" 
 صوفیاء کے نزدیک روح خدا کی طرف سے آنے والی روشنی ہے، اور نفس اس روشنی کا انسانی عکس — اگر عکس صاف ہو تو روشنی واضح دکھائی دیتی ہے۔ قرآن ان دونوں میں توازن سکھاتا ہے۔ نہ روح کو سمجھنے میں غلو کی اجازت دیتا ہے، نہ نفس کی خواہشات کے پیچھے اندھی تقلید کی۔ یہی وہ توازن ہے جو اسلام کو نہ صرف مذہب بلکہ ایک مکمل فکری نظام بناتا ہے۔
 آج جب دنیا سائنسی ترقی کے باوجود "انسانی شعور" کی اصل کو نہیں سمجھ سکی، تو قرآن کا یہ پیغام اور بھی واضح ہو جاتا ہے:
 انسان کا جسم مٹی سے بنا ہے، مگر اس کی اصل شناخت اُس "امرِ الٰہی" سے ہے جو اسے زندگی دیتا ہے۔ اسی لیے قرآن نے کہا — "روح میرے رب کے حکم سے ہے" — تاکہ انسان یاد رکھے کہ وہ مٹی کا بھی ہے اور نور کا بھی۔ روح کے بغیر انسان جسم ہے، مگر نفس کے بغیر وہ شعور نہیں۔ روح زندگی دیتی ہے، نفس سمت۔ دونوں کا امتزاج ہی "انسان" کہلاتا ہے — ایک ایسا وجود جو زمین پر چلتا ہے مگر اس کی جڑیں آسمان میں پیوست ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں: