انسانی شعور کی چار منازل
انسانی ذہن ہمیشہ تلاش میں رہتا ہے — کبھی حقیقت کی جستجو میں، کبھی یقین کے استحکام میں۔ یہ جستجو ہی انسان کو چار فکری منازل میں تقسیم کرتی ہے: مومن، منکر، منافق اور متذبذب۔ یہ چاروں کیفیتیں دراصل انسانی شعور کی مختلف حالتیں ہیں، جو فرد کی سوچ، عمل اور سماج پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔
مومن
مومن وہ ہے جو حقیقت کو پہچاننے کے بعد دل سے اسے تسلیم کرے اور اپنے عمل سے اس پر گواہی دے۔ ایمان اس کے لیے صرف عقیدہ نہیں بلکہ شعوری یقین اور عملی اخلاقیات کا امتزاج ہوتا ہے۔
مومن کا ذہن سکون، توازن اور اعتماد سے بھرا ہوتا ہے۔ وہ شک اور تذبذب کے مرحلوں سے گزر کر یقین کے مقام تک پہنچتا ہے۔ اس کے لیے کائنات اتفاق نہیں بلکہ نظم اور حکمت کی مظہر ہے۔ قرآن اسی یقین کو “نورٌ علیٰ نور” قرار دیتا ہے — روشنی پر روشنی۔
ایمان والے انسان معاشرے میں عدل، صداقت اور خدمت کا چراغ جلاتے ہیں۔
امام حسینؓ نے
نے ساری متاح حیات کربلا کے میدان میں قربان کر کے مومن کی مثال قائم کی۔
منکر
منکر وہ شخص ہے جو سچائی کا ادراک رکھنے کے باوجود اسے تسلیم کرنے سے انکار کرے۔ وہ عقل رکھتا ہے مگر دل کے تکبر، مفاد یا انا کے باعث حق سے منہ موڑ لیتا ہے۔
منکر کا ذہن تضاد، ضد اور خوف کا مجموعہ ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہ غلط ہے، مگر اپنی برتری یا مفاد کے لیے سچائی سے فرار اختیار کرتا ہے۔
فرعون نے موسیٰؑ کے معجزات دیکھے مگر اقتدار قائم رکھنے کے لیے سچ ماننے سے انکار کیا۔
ابوجہل جانتا تھا کہ محمد ﷺ صادق و امین ہیں، لیکن قبیلوی برتری نے اسے حق کے سامنے جھکنے نہ دیا۔
منکر جب اقتدار یا علم کا حامل ہو تو معاشرے میں سچائی کمزور اور مفاد پرستی غالب آ جاتی ہے۔ ایسے لوگ نظریاتی انتشار پیدا کرتے ہیں، مگر ان کے سوال ہی آگے چل کر فکری ارتقاء کا سبب بنتے ہیں۔
منافق
منافق وہ ہے جو زبان سے ایمان کا اظہار کرے مگر دل میں انکار چھپائے۔ اس کی وفاداری اصول نہیں بلکہ ذاتی مفاد سے بندھی ہوتی ہے۔
منافق مسلسل خوف اور تضاد کا شکار رہتا ہے۔ وہ نہ ایمان کے سکون سے بہرہ مند ہوتا ہے، نہ انکار کی آزادی سے۔ اس کا وجود دو چہروں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔
مدینہ کا عبداللہ بن اُبی بظاہر مسلمان تھا مگر ہر موقع پر مسلمانوں کے خلاف سازش کرتا۔ وہ اقتدار کے خوف سے ایمان لایا، مگر دل سے کبھی مان نہ سکا۔
منافق معاشرے کے لیے سب سے خطرناک عنصر ہے۔ وہ سچائی کے لبادے میں جھوٹ پھیلاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے
"إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ"
(بے شک منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے)
کیونکہ نفاق انسان کو اعتماد، سچائی اور اجتماعی بھروسے سے محروم کر دیتا ہے۔
متذبذب
متذبذب وہ شخص ہے جو نہ پوری طرح ایمان لا پاتا ہے نہ کھلے دل سے انکار کرتا ہے۔ وہ فکری اور روحانی دو راہے پر کھڑا رہتا ہے۔
متذبذب کا ذہن کشمکش، تجسس اور خوف کا میدان ہوتا ہے۔ وہ حق کو دیکھتا ہے مگر قدم نہیں بڑھا پاتا۔ کبھی علم اسے قریب لاتا ہے، کبھی وسوسہ دور کر دیتا ہے۔
یونانی فلسفی سقراط نے کہا تھا: “شک علم کی پہلی سیڑھی ہے۔”
اسی طرح اسلام نے بھی سوال کو جرم نہیں سمجھا — قرآن میں بارہا عقل، فکر اور تدبر کی دعوت دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ متذبذب انسان اگر علم و دلیل کے ذریعے رہنمائی پائے تو ایمان کی طرف پلٹ سکتا ہے۔
متذبذب لوگ معاشرے کے لیے بوجھ نہیں بلکہ موقع ہیں۔ ان میں تبدیلی کی صلاحیت باقی ہوتی ہے۔ اگر مومن علم، شفقت اور دلیل سے ان تک پہنچے تو وہ ایمان کی روشنی قبول کر لیتے ہیں۔ منافق کے برعکس، متذبذب کو قائل کرنا ممکن ہوتا ہے کیونکہ اس کا دل ابھی مکمل بند نہیں ہوتا۔
شعور کی روشنی میں انسان کا مقام
انسان کا شعور چار سمتوں میں سفر کرتا ہے
مومن روشنی میں چلتا ہے۔
منکر روشنی دیکھ کر آنکھیں بند کرتا ہے۔
منافق روشنی کا لباس پہن کر اندھیرے میں رہتا ہے۔
متذبذب روشنی اور اندھیرے کے درمیان بھٹکتا ہے۔
یہ سب انسان کے اندر کے ممکنات ہیں۔ اصل کامیابی اس کی ہے جو شک سے گزر کر یقین تک پہنچے، اور یقین کو عمل کا جامہ پہنائے۔
“شک اگر علم کی تلاش بن جائے،
تو وہ ایمان کا دروازہ کھول دیتا ہے۔”
برطانوی فلسفی اینٹونی فلو
(Antony Flew)
خدا کے وجود کے منکر رہے، مگر جب انہوں نے ڈی این اے اور انسانی تخلیق کے پیچیدہ ڈھانچے کا مطالعہ کیا تو تسلیم کر لیا کہ “ایسا منظم نظام محض اتفاق سے وجود میں نہیں آ سکتا۔”
جو کبھی الحاد کا مبلغ تھا اس نے خدا کے وجود کی گواہی میں کتاب لکھی
یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ جب علم تعصب سے پاک ہو تو منکر بھی ایمان کی طرف پلٹ آتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں