غزہ اس وقت بدترین انسانی المیے سے گزر رہا ہے۔ اسرائیلی بمباری میں معصوم بچے اور حاملہ عورتیں نشانہ بن رہی ہیں، گھر تباہ اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔ تعلیمی ادارے کھنڈر بن گئے ہیں اور ہسپتالوں کو بمباری سے مٹایا جا چکا ہے۔ طبی عملے کے قتل اور ادویات کی کمی نے صورت حال کو مزید ہولناک بنا دیا ہے۔ غزہ کے عوام معاشی اور سماجی طور پر مکمل بربادی کے دہانے پر ہیں۔
اسرائیل نے نہ صرف یرغمالیوں کی بازیابی کے بہانے تشدد جاری رکھا بلکہ عالمی امدادی قافلوں اور کشتیوں پر بھی حملے کیے، جن کا مقصد بھوکے بچوں اور مریضوں تک خوراک و ادویات پہنچانا تھا۔ یہ اقدامات عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی تھے۔
عرب اور مسلم ممالک کی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں ایک امن روڈ میپ سامنے آیا، جس میں فوری جنگ بندی، خوراک اور طبی امداد کی فراہمی اور صحت کے نظام کی بحالی شامل تھی۔ صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اس کا اعلان کیا مگر نیتن یاہو کی ترامیم نے معاہدے کو شروع ہونے سے پہلے ہی کمزور کر دیا۔ قطر پر حملے کی دھمکی کے جواب میں ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر نے اگرچہ قطر میں موجود حماس قیادت کو وقتی تحفظ دیا، مگر اسرائیلی جارحیت کے اصل مسئلے کو حل نہ کر سکا۔
امریکہ کے اندر بھی ٹرمپ پر شدید دباؤ بڑھا۔ اس کے قریبی حمایتی چارلی کرک کے قتل کو کئی حلقوں نے اسرائیلی کارستانی قرار دیا۔ اس پر مشہور اینکر ٹکر کارلسن نے دو ٹوک سوال اٹھایا: "کیا اسرائیل امریکہ کو کنٹرول کر رہا ہے؟" یہ سوال امریکی عوام کے ذہنوں میں گونج بن کر ابھرا اور ٹرمپ انتظامیہ کو دفاعی پوزیشن پر لے آیا۔
اس دوران پاکستان، ترکیہ اور انڈونیشیا نے ایک واضح اور جرات مندانہ حکمتِ عملی اپنائی۔ ان ممالک نے عرب دنیا کے ساتھ کھڑے ہو کر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا اور سلامتی کونسل میں اسرائیلی مظالم کے خلاف مضبوط موقف اختیار کیا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ نے عوامی بیان دے کر نہ صرف حالات پر گہری نظر ڈالی بلکہ عالمی برادری کو یہ باور کرایا کہ فلسطینی عوام کی جدوجہد محض ایک علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی وقار کا سوال ہے۔ اس بیان نے پاکستان کے کردار کو عالمی سطح پر نمایاں کیا اور امن کی جستجو میں نئی توانائی پیدا کی۔
حماس نے بھی امن معاہدے کی چند شقوں پر نظرثانی کا اشارہ دیا، جسے ٹرمپ نے مثبت پیش رفت قرار دیا۔ اس نے نیتن یاہو کو مزید دباؤ میں ڈال دیا کیونکہ اسرائیل کے اندر اس کی مقبولیت تیزی سے گر رہی ہے، کابینہ ٹوٹنے کے قریب ہے اور عدالتیں اس کے خلاف مقدمات کی تیاری کر رہی ہیں۔ یورپی ممالک بھی اس کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اپنی سیاسی بقا کے لیے وہ کبھی لبنان، کبھی ترکیہ اور کبھی ایران پر حملے کی باتیں کرتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی پشت پناہی کے بغیر اسرائیل زیادہ دیر اقتدار میں نہیں رہ سکتا۔
موجودہ حالات میں سعودی عرب، ترکیہ، پاکستان، انڈونیشیا اور فرانس سمیت کئی ممالک کی مشترکہ حکمت عملی کامیاب دکھائی دیتی ہے۔ اگر امریکہ اپنے اندرونی دباؤ کے تحت اسرائیل کو مزید کھلی چھوٹ دینے سے پیچھے ہٹ جائے تو غزہ میں فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی ممکن ہے۔ یہ بحران واضح کر رہا ہے
کہ فلسطین کے مسئلے پر عالم اسلام متحد ہو کر ایک نئے سیاسی توازن کو جنم دے سکتا ہے۔
عرب اور مالمان ممالک نے پہلی بار ایسا اتحاد دکھایا ہے جس نے سرائیل کو گھٹنوں کے بل کر دیا ہے ۔ اور اسرائیل کا ناقبل تسخیر ہونے کا پروپیگندہ بحیرہ مردار میں دفن ہو چکا ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں