اتوار، 19 اکتوبر، 2025

وجود کے دو بازو (3)

وجود کے دو بازو (3)
کائنات ایک ایسا حیرت انگیز نظام ہے جو دو بنیادی ستونوں پر قائم ہے:
توانائی (حرکت کی قوت) اور وقت (حرکت کا پیمانہ)۔
یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں۔
توانائی وجود کو ظاہر کرتی ہے،
اور وقت اس ظہور کی ترتیب کو منظم کرتا ہے۔
اگر توانائی رک جائے تو وقت بے معنی ہو جاتا ہے،
اور اگر وقت نہ ہو تو توانائی کا کوئی بہاؤ باقی نہیں رہتا۔
یوں کہا جا سکتا ہے:
"وقت، توانائی کی زبان ہے — اور توانائی، وقت کی آواز۔"

 توانائی — وجود کا دھڑکتا پہلو
توانائی کسی بھی شے کی اثر پیدا کرنے یا تبدیلی لانے کی صلاحیت ہے۔
یہ وہ پوشیدہ قوت ہے جو کائنات کے ہر ذرے میں سانس لیتی ہے۔
یہ مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے:
حرارتی توانائی (Heat)
نوری توانائی (Light)
برقی توانائی (Electricity)
کیمیائی توانائی (Chemical Energy)
جوہری توانائی (Nuclear Energy)

سائنس نے ایک بنیادی اصول دیا
“توانائی نہ پیدا کی جا سکتی ہے، نہ ختم — صرف ایک صورت سے دوسری میں تبدیل ہوتی ہے۔”
یہی وہ نکتہ ہے جو قرآن نے کھول کر بیا کر دیا  تھا:
اللّٰهُ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ
“اللہ ہر لمحہ کسی نئی حالت میں ہے۔” (الرحمن: 29)
یعنی کائنات میں ہر لمحہ ایک نیا ظہور ہو رہا ہے،
مگر اصل قوت، اصل وجود — ہمیشہ ایک ہی ہے۔
جب پنڈت اپنے فہم سے مجبور ہو کر پتھر میں الوہیت تلاش کرتا ہے،
تو وہ دراصل اسی پوشیدہ توانائی کو محسوس کرنے کی کوشش کرتا ہے
جو ہر شے میں جلوہ گر ہے۔
وہ بھی جانتا ہے کہ
“کائنات میں ہر لمحہ توانائی نئی صورت میں جلوہ گر ہو رہی ہوتی ہے۔”
آج انسان کو معلوم ہو چکا ہے کہ 
“توانائی اور مادّہ ایک ہی حقیقت کی دو شکلیں ہیں۔”
تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ
وجود کی ہر صورت دراصل توانائی ہی کا لباس ہے۔
یہ وہی لباسِ مجاز ہے جس کے بارے میں اقبال نے کہا:
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں۔

 وقت — نظمِ کائنات کا محافظ
وقت کسی بھی حرکت یا تبدیلی کے تسلسل اور ترتیب کا پیمانہ ہے۔
یہ وہ بہاؤ ہے جس میں توانائی اپنی شکل بدلتی اور ظاہر ہوتی ہے۔
“وقت وہ حقیقت ہے جو ہر چیز کو ایک ساتھ ہونے سے روکتی ہے۔”
یعنی وقت نظمِ کائنات کا نگہبان ہے۔
قرآن اسی حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے:
كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى
“ہر چیز ایک مقررہ وقت تک چل رہی ہے۔” (الرعد: 2)
یوں وقت کائنات کے تسلسل، تقدیر اور توازن — تینوں کا محور ہے۔

توانائی اور وقت — ایک ابدی رشتہ
1. جہاں توانائی ہے، وہاں وقت بہتا ہے
کیونکہ توانائی کی حرکت ہی وقت کا پیمانہ ہے۔
اگر تمام ایٹم رک جائیں، تو وقت بھی رک جائے گا۔
2. توانائی وقت کو خم دیتی ہے
نظریۂ اضافیت کے مطابق:
“زیادہ توانائی یا زیادہ کششِ ثقل والے مقام پر وقت سست ہو جاتا ہے۔”
یعنی وقت خود توانائی کے دباؤ سے متاثر ہوتا ہے۔
3. وقت توانائی کو سمت دیتا ہے
اگر وقت نہ ہو تو توانائی بے سمت ہو جائے۔
سورج کی روشنی صرف اس لیے اثر رکھتی ہے
کہ وہ وقت کے ساتھ بہتی ہے۔
قرآن اس تعلق کو یوں ظاہر کرتا ہے:
إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ
“بیشک ہم نے ہر چیز ایک اندازے کے ساتھ پیدا کی۔” (القمر: 49)
یہ "قدر" — دراصل توانائی کی مقدار اور وقت کی ترتیب دونوں کا مجموعہ ہے۔

وجود کا خالق — نظم اور حرکت کا مالک
توانائی اور وقت دراصل خالقِ کائنات کی تجلی کے دو پہلو ہیں 
ایک پہلو میں حرکت ہے، دوسرے میں ترتیب۔
جہاں توانائی ہے وہاں “ہونا” ہے،
جہاں وقت ہے وہاں “ظہور” ہے۔


  :  حتمی نکتہ
اللّٰهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
“اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔” (النور: 35)
اسی نور سے وجود جنم لیتا ہے،
اسی سے وقت بہتا ہے،
اور اسی سے ہر توانائی اپنے رخ اور معنی پاتی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں: