ہفتہ، 18 اکتوبر، 2025

خدا — وجود کا سرچشمہ (5)

خدا — وجود کا سرچشمہ

دنیا کے ہر سوال کی جڑ ایک ہی سوال میں سمٹی ہوئی ہے:
“خدا کیا ہے؟” یہ سوال انسان نے اپنے وجود کے پہلے لمحے سے کیا ہے — کبھی حیرت سے، کبھی عشق سے، اور کبھی بغاوت کے لہجے میں۔
مگر جواب ہمیشہ ایک ہی سمت سے آیا: خدا ہے — اور وہی ہر وجود کی بنیاد ہے۔

کائنات اور خالق کا تعلق
قرآن کہتا ہے:
“اللّٰهُ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ” (النور 24:35)
یعنی اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت میں "نور" سے مراد وجود بخشنے والی حقیقت ہے۔
تفسیرِ ابنِ کثیر کے مطابق، کائنات میں جو کچھ نظر آتا ہے — ستارے، روشنی، توانائی، وقت، مادہ — یہ سب اسی نورِ الٰہی کے ظہور ہیں۔ اگر وہ نہ ہوتا تو کوئی شے "ہوتی" ہی نہیں۔

اللہ — وقت و توانائی کا خالق
جدید انسان جب کہتا ہے کہ "توانائی کبھی پیدا یا فنا نہیں ہوتی"، تو وہ دراصل اسی ازلی قوت کی طرف اشارہ کر رہا ہوتا ہے جسے قرآن نے "اللہ" کہا۔ وہ خود توانائی نہیں، بلکہ توانائی کا خالق ہے۔
وہ خود وقت نہیں، بلکہ وقت کا مالک ہے۔
قرآن کہتا ہے: “هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ” (الحدید 57:3) یعنی وہی اول ہے اور وہی آخر۔ امام رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "اللہ کے وجود سے پہلے کچھ نہ تھا، اور اس کے بعد بھی کچھ باقی نہیں رہے گا۔"

"خدا کو کس نے پیدا کیا؟" — ایک عقلی جواب
یہ وہ سوال ہے جو اکثر ذہنوں میں آتا ہے: اگر ہر شے کا خالق ہے، تو خود خدا کو کس نے پیدا کیا؟
قرآن اس کا جواب مختصر مگر مکمل انداز میں دیتا ہے:
“اللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ” (الزمر 39:62) یعنی اللہ ہر چیز کا خالق ہے۔

تفسیر مظہری میں لکھا ہے کہ اگر ہر شے کو کسی خالق نے بنایا، تو یہ سلسلہ کہیں نہ کہیں جا کر رکنا ضروری ہے۔ ورنہ خالقوں کا ایک لا متناہی سلسلہ بن جائے گا — اور ایسا تسلسل خود عقل کے خلاف ہے۔ لہٰذا ایک ایسی ہستی کا ہونا ضروری ہے جسے کسی نے پیدا نہ کیا ہو۔
وہی "واجب الوجود" ہے — جس کا ہونا لازمی ہے۔

انبیا کی زبان میں خدا
انبیائے کرام نے کبھی فلسفے سے نہیں، بلکہ فطرت سے خدا کو پہچانا۔
حضرت ابراہیمؑ نے جب چاند اور سورج کو غروب ہوتا دیکھا تو کہا:
“میں غروب ہونے والی چیزوں کو پسند نہیں کرتا۔” (الانعام 6:76)
یہ انسان کی عقلِ فطری کی پہلی گواہی تھی کہ جو فانی ہے، وہ خدا نہیں ہو سکتا۔

حضرت موسیٰؑ نے طورِ سینا پر عرض کی
“اے رب! اپنا جلوہ دکھا تاکہ میں تجھے دیکھوں۔”
اللہ نے فرمایا: “تو مجھے نہیں دیکھ سکتا، مگر پہاڑ کی طرف دیکھ…” (الاعراف 7:143) یہ منظر بتاتا ہے کہ اللہ کا وجود ماورائی ہے — انسان کی آنکھ یا عقل اس کی حقیقت کا احاطہ نہیں کر سکتی۔

حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا
“میں اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرتا، بلکہ وہی کرتا ہوں جو خالق چاہتا ہے۔”
(یوحنا 5:30) اسلامی تفاسیر کے مطابق، یہ بیان وحدانیتِ الٰہی کی تصدیق ہے — کہ خدا ایک ہے، اور تمام قوتیں اسی سے جنم لیتی ہیں۔

اور آخر میں نبیِ آخرالزماں ﷺ نے فرمایا
“اللہ تھا، اور اس کے ساتھ کچھ نہ تھا۔” (صحیح بخاری) یہ حدیث ہر فلسفے کی انتہا ہے۔ خدا ہمیشہ سے تھا — وہ وقت اور مکان سے ماورا ہے۔

وجود کی آخری حقیقت
تفسیرِ جلالین میں سورۃ الاخلاص کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے:
“قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ”
"کہہ دو: وہ اللہ ایک ہے۔"
یعنی وہ اپنی ذات میں یکتا، اپنی صفات میں کامل اور اپنے وجود میں غیر محتاج ہے۔ نہ وہ پیدا ہوا، نہ کسی نے اسے پیدا کیا۔

حتمی نکتہ
دنیا میں ہر نظریہ، ہر فلسفہ، ہر سائنس آخرکار اسی ایک نکتے پر آ کر رک جاتا ہے کہ کوئی ایسی حقیقت ضرور ہے جو سب کے پیچھے ہے، جو حرکت کو توانائی، اور توانائی کو معنی دیتی ہے۔ قرآن اسے “اللہ” کہتا ہے
جو "اول" بھی ہے، "آخر" بھی، جو "نور" بھی ہے، "وجود" بھی،
اور جو ہر سوال کا پہلا اور آخری جواب ہے۔

کوئی تبصرے نہیں: