جمعہ، 17 اکتوبر، 2025

وجود — کائنات کی بنیادی حقیقت (1)



 وجود — کائنات کی بنیادی حقیقت (1)
وجود — حقیقت کی اساس
وجود کی چار اقسام
فلسفے میں "وجود" کو مختلف زاویوں سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عام طور پر وجود کی چار بنیادی اقسام بیان کی جاتی ہیں:
پہلی قسم : جس کا نہ ہونا ممکن ہی نہیں
یہ واجب الوجود ہے
دوسری قسم: جس کا ہونا یا نہ ہونا دونوں ممکن ہیں
— اسے ممکن الوجود کہتے ہیں،
جس کا ہونا ممکن ہی نہیں
— یہ ممتنع الوجود ہے،
جس کا ہونا اور مٹ جانا دونوں ممکن ہیں
— یہ حادث الوجود کہلاتا ہے،

 وجود — کائنات کی بنیادی حقیقت
سائنس کہتی ہے کہ ہر شے "توانائی" کی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔
یہ توانائی کبھی ذرّے میں قید ہوتی ہے، کبھی روشنی بن کر سفر کرتی ہے،
اور کبھی نظامِ حیات میں حرکت اور شعور کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔
یہی “توانائی کا تسلسل” دراصل وجود کی سائنسی تعبیر ہے۔
انسان کی عقل جب وجود کی حقیقت کو سمجھنے نکلتی ہے تو اسے وجود کی چار بنیادی جہتیں نظر آتی ہیں —
بالکل ایسے ہی جیسے طبیعیات میں مادہ چار حالتوں میں ظاہر ہوتا ہے: ٹھوس، مائع، گیس اور پلازما۔

 1. وہ وجود جو مٹ ہی نہیں سکتا — واجب الوجود
کائنات کے تمام قوانین ایک مرکزی مستقل حقیقت پر قائم ہیں۔
سائنس اسے 
Universal Constant
 یا 
Law of Conservation
 کہتی ہے —
جس کے مطابق “توانائی نہ پیدا کی جا سکتی ہے نہ فنا کی جا سکتی ہے، صرف ایک حالت سے دوسری حالت میں بدلتی ہے۔”
یہی وہ ابدی اصول ہے جس کا نہ ہونا ممکن ہی نہیں۔
اگر یہ اصول لمحہ بھر کے لیے ٹوٹ جائے تو کائنات کا توازن ختم ہو جائے۔
اسی کو فلسفہ "واجب الوجود" کہتا ہے — وہ حقیقت جو ہر شے کے وجود کی بنیاد ہے۔

2. وہ وجود جو ہو بھی سکتا ہے اور نہ بھی — ممکن الوجود
یہ وہ دائرہ ہے جہاں خلقت، ارتقا اور انتخاب کا عمل جاری ہے۔
ایک بیج زمین میں ہو تو درخت بن سکتا ہے، نہ ہو تو مٹی میں مل جاتا ہے۔
ایک انسانی جنین ڈی این اے کے ایک معمولی تغیر سے پیدا ہوتا ہے — اگر وہ تغیر نہ ہو تو وجود ممکن نہیں رہتا۔
یہی “ممکن الوجود” کی سائنسی صورت ہے:
جس کے ہونے کے لیے شرائط لازم ہیں،
اور نہ ہونے کے لیے کمی کافی۔

 3. وہ وجود جو عقلاً یا طبعاً ممکن ہی نہیں — ممتنع الوجود
فطرت میں کچھ تصورات ایسے ہیں جو منطقی یا طبیعی قوانین کے منافی ہیں۔
مثلاً:
روشنی سے زیادہ تیز سفر کرنا
Relativity 
کی خلاف ورزی
Absolute zero
 سے نیچے درجہ حرارت حاصل کرنا
یا بیک وقت کسی ذرّے کا دو متضاد سمتوں میں موجود ہونا بغیر کسی کوانٹم سپرپوزیشن کے۔
یہ سب ناممکن الوجود ہیں —
یعنی وہ تصورات جنہیں نہ توانائی قبول کرتی ہے، نہ منطق۔

3. وہ وجود جو پیدا بھی ہوتا ہے اور فنا بھی — حادث الوجود
یہ وجود “وقت” کے تابع ہے۔
ستارے پیدا ہوتے ہیں، توانائی ختم ہوتی ہے،
انسان جنم لیتا ہے، بڑھتا ہے، اور مٹی میں لوٹ جاتا ہے۔
فزکس کی زبان میں یہ 
Entropy
کا دائرہ ہے —
جس میں ہر نظام آہستہ آہستہ اپنی ابتدائی ترتیب کھو کر
انتشار 
(disorder)
 کی طرف بڑھتا ہے۔
یہی “حادث الوجود” ہے —
جس کا ہونا بھی ممکن ہے، اور مٹ جانا بھی لازم۔

فلسفہ وجود کو لفظوں میں بیان کرتا ہے،
اور سائنس اسے توانائی، وقت، اور نظمِ کائنات کے اصولوں میں ناپتی ہے۔
دونوں مل کر بتاتے ہیں کہ
“وجود نہ صرف حقیقت کی بنیاد ہے، بلکہ وہ مسلسل حرکت میں رہنے والی توانائی ہے،
جو کبھی ظاہر ہو جاتی ہے، کبھی اوجھل رہتی ہے، مگر کبھی فنا نہیں ہوتی۔”

کوئی تبصرے نہیں: