اتوار، 19 اکتوبر، 2025

جواب، جو ہر سوال کو معنی دے(4)


دنیا کا سب سے پرانا سوال آج بھی زندہ ہے:
کیا خدا موجود ہے؟
یہ سوال کبھی مندر کے پتھروں پر گونجا، کبھی مسجد کے محراب میں،
کبھی فلسفے کے درسگاہ میں اٹھا، کبھی سائنس کی لبارٹری میں سنا گیا
اور کبھی ایک تنہا انسان نے رات کی خاموشی میں خود اپنے دل سے پوچھا۔

زمانہ بدلا، علم بڑھا، سائنس نے زمین و آسمان کے کئی راز کھول دیے
لیکن "خالق" کا سوال اب بھی وہیں کھڑا ہے، جہاں سے انسان نے سوچنا شروع کیا تھا۔

خدا کے بارے قران کیا کہتا ہے؟
قرآن مجید نے خدا کے وجود کو صرف ایمان کا معاملہ نہیں بنایا،
بلکہ عقل، مشاہدے اور فطرت کی روشنی میں سمجھایا۔ فرمایا:
"بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔"(سورۃ آلِ عمران: 190)ایک اور جگہ اعلان کیا:"اللہ ہر چیز کا خالق ہے۔"
(الزمر: 62)اور پھر سورۃ الاخلاص میں آخری بات کہہ دی:
"اللہ ایک ہے، نہ اس نے کسی کو جنا، نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔"
(الاخلاص: 1–3)

یعنی جو سب کو پیدا کرتا ہے، وہ خود کسی کے پیدا کرنے کا محتاج نہیں۔
یہ وہ نکتہ ہے جہاں انسانی عقل اپنی آخری حد کو چھو لیتی ہے —
اور رک کر سوچتی ہے کہ "جو سب کا سبب ہے، اس کا سبب کون ہو سکتا ہے؟"

اسلامی فلسفہ — مسلمان فلسفیوں نے اسی سوال کو عقل کے پیمانے پر پرکھا۔ ابنِ سینا نے کہا:دنیا کی ہر چیز کا ہونا یا نہ ہونا دونوں ممکن ہیں،
تو ضرور کوئی ایسا وجود ہے جو لازمی طور پر موجود ہو —جسے وہ "واجب الوجود" کہتے ہیں، یعنی وہ جس کا ہونا خود اپنی دلیل ہے۔
پھر آئے امام غزالی —انہوں نے کہا کہ عقل روشنی ہے، لیکن وحی سورج ہے۔
عقل راستہ دکھاتی ہے، مگر منزل تک وحی پہنچاتی ہے۔
ملا صدرا نے کہا:کائنات میں جو کچھ ہے، وہ ایک ہی وجود کے مختلف درجے ہیں۔یعنی خدا صرف خالق ہی نہیں، بلکہ وجود کی اصل حقیقت بھی ہے۔

مغربی فکر — عقل کی جستجو، ایمان کی بازگشت
ارسطو نے کہا: ہر شے حرکت میں ہے، تو کوئی پہلا "غیر متحرک محرک" ضرور ہوگا — وہی خدا ہے۔
ڈیکارٹ نے کہا:“میں سوچتا ہوں، لہٰذا میں موجود ہوں۔”
اور چونکہ میرے اندر کمال کا تصور ہے،تو وہ کسی کامل ہستی نے ہی رکھا ہوگا — یعنی خدا۔
اسپنوزا نے کہا: خدا اور فطرت ایک ہی ہیں ۔جو کچھ ہے، وہی خدا کی صورت ہے۔
کانٹ نے کہا: خدا کو عقل سے نہیں، اخلاق سے پہچانا جا سکتا ہے۔
اگر جزا و سزا نہ ہو،تو نیکی اور بدی کا کوئی مفہوم باقی نہیں رہتا۔
یوں اخلاق خود خدا کی گواہی بن جاتا ہے۔

سائنس کا جواب — ادھورا اور خاموش: سائنس نے بتایا کہ کائنات کیسے بنی،لیکن یہ نہیں بتایا کہ کیوں بنی۔
"بگ بینگ" نے ابتدا سمجھا دی،مگر اس ابتدا کے پیچھے ارادہ کس کا تھا — یہ نہیں بتایا۔
آج جدید انسان کہتا ہے کہ سب کچھ اتفاق سے ہوا،مگر وہ خود یہ سوچنے پر مجبور ہے: "اگر سب کچھ اتفاق ہے تو اتفاق اتنا منظم کیوں ہے؟"

جہاں عقل ختم ہوتی ہے، وہاں ایمان جاگتا ہے
قرآن کہتا ہے: "وہی اول ہے اور وہی آخر، وہی ظاہر ہے اور وہی باطن۔"
(الحدید: 3) یہ وہ مقام ہے جہاں فلسفہ خاموش ہو جاتا ہے اور دل کہتا ہے:
"میں اسے دیکھ نہیں سکتا، مگر ہر شے میں اس کی جھلک محسوس کرتا ہوں۔"

حتمی نکتہ: خدا کوئی سوال نہیں جو ختم ہو جائے بلکہ وہ جواب ہے جو ہر سوال کو معنی دیتا ہے۔ اس کے ہونے کا ثبوت دلیلوں میں نہیں،
زندگی کے ہر سانس میں ہے۔ جب دل سچائی کی طرف مائل ہوتا ہے،
وہ دراصل خدا کی طرف ہی لوٹتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں: