اتوار، 6 اپریل، 2025

الذو الفقار"



ذوالفقار: ایک تاریخی تلوار کی شان و عظمت

ذوالفقار ایک ایسی تلوار تھی جو اپنی منفرد ساخت اور معنوی عظمت کے باعث اسلامی تاریخ میں خاص مقام رکھتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا پھل دو دھاری یا دو شاخہ تھا، جس نے اسے دیگر تمام تلواروں سے ممتاز بنا دیا۔ بعض روایات کے مطابق، یہ تلوار رسولِ اکرم ﷺ کو جنگِ بدر میں غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی، اور بعد ازاں حضرت علیؓ کو عطا کی گئی۔


"لَا فَتٰی إِلَّا عَلِیٌّ، وَلَا سَیْفَ إِلَّا ذُوالفِقَار"

اسلامی تاریخ قربانی، دلیری اور حق کی سربلندی کے واقعات سے لبریز ہے، اور ان تمام واقعات میں حضرت علیؓ کا نام ایک روشن مینار کی مانند چمکتا ہے۔ ان کی حیاتِ مبارکہ عدل، وفا اور ایمان کا استعارہ ہے — اور انہی ہاتھوں میں تھامی ہوئی تلوار، ذوالفقار، ایک ایسا نشانِ عظمت بن گئی جو آج تک عالمِ اسلام کی یادداشت میں محفوظ ہے۔

یہ وہی تلوار ہے جس کا پھل درمیان سے کٹا ہوا تھا، جس کی وجہ سے اسے "ذوالفقار" یعنی "ریڑھ دار" یا "دو دھاری" کہا جاتا ہے۔ اس کی شکل و صورت ہی نہیں بلکہ اس کا پیغام بھی منفرد تھا — حق کے لیے بلند ہو، باطل کے خلاف اٹھے، اور ہمیشہ عدل کی جانب جھکی رہے۔


ذوالفقار: ہتھیار نہیں، انصاف کا ترازو

حضرت علیؓ نے ذوالفقار کو کبھی ذاتی مفاد یا غصے میں نہیں چلایا۔ یہ تلوار ہمیشہ مظلوم کی حمایت میں، باطل کے خلاف، اور حق کی سربلندی کے لیے استعمال ہوئی۔ جنگِ اُحد، خندق، خیبر اور دیگر معرکوں میں جب بھی ذوالفقار بلند ہوئی، اس نے حق و باطل کے درمیان واضح لکیر کھینچ دی۔

جنگِ خیبر کا واقعہ اس تلوار کی قوت کا ایک عظیم نمونہ ہے۔ جب قلعہ خیبر کا دروازہ کسی سے نہ کھلا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"کل میں عَلَم اُس کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کا رسول جس سے محبت کرتے ہیں۔"

اگلے دن یہ علم حضرت علیؓ کے سپرد کیا گیا، اور ذوالفقار کی ایک ہی ضرب سے وہ مضبوط دروازہ زمین بوس ہو گیا جسے کئی بہادر مل کر بھی ہلا نہ سکے تھے۔ یہ صرف ایک دروازہ نہیں، بلکہ باطل کے قلعے پر کاری ضرب تھی۔


ذوالفقار کی علامتی حیثیت

ذوالفقار صرف ایک تاریخی ہتھیار نہیں، بلکہ ایک نظریہ ہے — عدل کا، وفا کا، اور جرأت کا۔
یہ تلوار ایک روایت ہے، جو ہمیں سکھاتی ہے کہ اصل بہادری طاقت کے بے جا استعمال میں نہیں، بلکہ اس کے عادلانہ استعمال میں ہے۔ آج بھی مسلم دنیا میں اس کی دو شاخوں والی شکل کو غیر معمولی احترام حاصل ہے، اور بعض ممالک کی عسکری علامتوں میں اسے بہادری کی پہچان کے طور پر اپنایا گیا ہے۔


ذوالفقار: ایک نشانِ وفا

یہ تلوار ایک پیغام ہے:
حق کے لیے ڈٹ جانا، باطل کے سامنے نہ جھکنا، مظلوم کا ساتھ دینا، اور سب سے بڑھ کر رسولِ اکرم ﷺ سے غیر متزلزل وفاداری۔

امدن بڑھاو



 عنوان: آو۔۔ آمدن بڑھاؤ!

انٹرنیٹ نے دنیا کو جیتنے کے بے شمار مواقع فراہم کیے ہیں۔ آج ہر شخص اپنے ہنر کو آن لائن استعمال کر کے اپنی آمدن بڑھا سکتا ہے۔ یہاں کچھ حقیقی زندگی کی مثالیں دی جا رہی ہیں جو آپ کو بھی اپنی آمدن بڑھانے کی ترغیب دیں گی۔

1. فری لانسنگ: فہد خان

فہد خان نے فری لانسنگ پلیٹ فارمز جیسے Upwork پر اپنی گرافک ڈیزائننگ کی خدمات فراہم کیں۔ ان کی ساکھ اور معیار نے انہیں دنیا بھر کے گاہکوں تک پہنچایا، اور وہ اب ماہانہ ہزاروں ڈالرز کماتے ہیں۔

2. آن لائن تدریس: سارہ علی

سارہ علی نے Udemy اور Teachable پر فزکس کے کورسز شروع کیے۔ سوشل میڈیا پر اپنی تدریس کی تشہیر کی، اور آج وہ آن لائن تعلیم کے ذریعے بڑی آمدن حاصل کر رہی ہیں۔

3. ای کامرس: امجد علی

امجد علی نے Shopify پر ڈراپ شپنگ کا کاروبار شروع کیا اور فیس بک و انسٹاگرام پر مارکیٹنگ کی۔ آج وہ ای کامرس کے ذریعے لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔

4. یوٹیوب: عادل حیدر

عادل حیدر نے یوٹیوب پر کھانے کی ترکیبیں اور فوڈ ریویوز شیئر کیے۔ ان کے ویوز بڑھنے سے انہیں اسپانسرشپ اور اشتہارات سے آمدنی ہونے لگی، اور وہ یوٹیوب کے ذریعے لاکھوں کما رہے ہیں۔

5. ای بک: مریم قریشی

مریم قریشی نے اپنی ای بک Amazon Kindle پر بیچ کر ایک نئی آمدنی کا ذریعہ پیدا کیا۔ آج وہ اپنی کتابوں سے مستحکم آمدنی حاصل کر رہی ہیں۔

ان مثالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہر شخص اپنی مہارت سے آمدن بڑھا سکتا ہے۔ اگر آپ بھی اپنا ہنر آن لائن پلیٹ فارمز پر استعمال کریں، تو آپ بھی اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ تو دیر مت کیجیے، آج ہی قدم اٹھائیں 



جنت میں حوروں کے بارے میں مختلف اسلامی متون اور روایات میں ذکر کیا گیا ہے۔ حوریں جنت میں خوشبو دار، خوبصورت اور خوبصورتی میں بے مثال خواتین ہیں جو جنت کے باشندوں کے لیے انعام کے طور پر اللہ کی جانب سے عطا کی جائیں گی۔ ان کا ذکر قرآن اور حدیث میں مختلف مواقع پر آیا ہے، اور یہ ان خوش نصیب افراد کے لیے مخصوص ہیں جو دنیا میں اللہ کے راستے پر چلتے ہوئے اپنی زندگی گزاریں۔

قرآن کی تعلیمات میں حوروں کا ذکر:

قرآن مجید میں حوروں کا ذکر جنت کی نعمتوں کے طور پر کیا گیا ہے۔ چند آیات میں حوروں کی خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے:

  1. خوبصورت اور سفید رنگت: جنت کی حوریں بے حد خوبصورت اور چمکدار ہوں گی۔ ان کا چہرہ بہت صاف اور روشن ہوگا، اور ان کی جلد دودھ کی طرح سفید اور چمکدار ہو گی۔

    اللہ تعالی نے فرمایا:
    "وہ حوریں، جنہیں ہم نے مخصوص طور پر تیار کیا ہے، ایسے جنتی لوگوں کے لیے جو متقی ہیں۔" (الطور 20)

  2. کمزور لیکن مضبوط: حوریں جسمانی طور پر نرم و نازک ہوں گی، لیکن ان کی تخلیق میں کسی قسم کا عیب نہیں ہوگا، اور وہ جنتی مردوں کے لیے انعام کے طور پر ہوں گی۔

  3. خوبصورتی اور محبت: ان حوروں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے شوہروں کے لیے محبت اور دل سے وابستہ ہوں گی۔

حدیث کی روشنی میں حوروں کی خصوصیات:

حدیث میں بھی حوروں کا ذکر کیا گیا ہے اور ان کی خوبصورتی اور خصوصیات پر مزید روشنی ڈالی گئی ہے۔

  1. خوبصورتی: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
    "جنت میں ایک درخت ہے، اس کے نیچے حوریں ہوں گی جن کی آنکھوں کا رنگ سبز ہوگا، اور ان کا چہرہ چاند سے زیادہ روشن ہوگا۔"

  2. نسبتاً کم عمر: حوریں ہمیشہ جوان اور بے مثال حسین ہوں گی۔ حدیث میں ہے کہ وہ ہمیشہ 33 سال کی عمر کی ہوں گی۔

  3. دولت اور شان: حوروں کی آرائش و زیبائش ایسی ہوگی کہ وہ دنیا کی تمام خوبصورتیوں کو پیچھے چھوڑ دیں گی۔

جنتی حوروں کی خصوصیات:

  1. کامل صفائی: حوریں پاکیزگی اور خوشبو سے معمور ہوں گی۔ ان کا جسم جنت کے مخصوص خوشبو سے معطر ہوگا۔

  2. محبت میں شدت: جنت میں حوریں اپنے شوہروں کے لیے بے حد محبت رکھیں گی۔ قرآن اور حدیث میں ان کے دلوں کی محبت اور وفاداری کو خاص طور پر بیان کیا گیا ہے۔

  3. جوڑوں کی تکمیل: حوریں جنتی مردوں کے لیے انعام کی طرح ہوں گی اور ان کا مقصد ان کی خوشی اور سکون کا باعث بننا ہوگا۔

حوروں کے بارے میں مختصر خیال:

حوریں جنت کی مخصوص مخلوق ہیں جو اللہ کے راستے پر چلنے والے افراد کے لیے انعام کے طور پر دی جائیں گی۔ ان کی صفات بے شمار اور بے نظیر ہیں، اور ان کا ذکر قرآن و حدیث میں جنت کی نعمتوں کے طور پر کیا گیا ہے۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق، حوریں جنت کے رہائشیوں کے لیے ایک عظیم نعمت ہیں اور ان کی خوبصورتی، وفاداری اور محبت جنت کے سکون کا حصہ بنیں گی۔ 

ہفتہ، 5 اپریل، 2025

حضرت علیؓ کی ازواج اور اولاد



حضرت علیؓ کی ازواج اور اولاد

حضرت علیؓ کی ازواج:

تاریخ کی مشہور کتاب "البداية والنهاية" (امام ابن کثیر) کے مطابق حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی نو بیویاں تھیں۔ ان کے نام درج ذیل ہیں:

  1. حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا (بنتِ رسول اللہ ﷺ)

  2. ام البنین بنت حزام

  3. لیلیٰ بنت مسعود

  4. اسماء بنت عمیس

  5. ام حبیبہ بنت زمعہ (یا ربیعہ)

  6. ام سعید بنت عروہ بن مسعود

  7. محیات بنت امرء القیس

  8. امامہ بنت ابی العاص بن الربیع

  9. خولہ بنت جعفر بن قیس

حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کی حیات میں کسی اور سے نکاح نہیں کیا۔ ان کے انتقال کے بعد آپؓ نے وقتاً فوقتاً نکاح کیے۔ شہادت کے وقت آپؓ کی چار ازواج بقیدِ حیات تھیں۔


حضرت علیؓ کے بیٹے (14):

  1. حسن

  2. حسین

  3. محسن (بچپن میں وفات)

  4. محمد الاکبر (المعروف: محمد حنفیہ)

  5. عبداللہ

  6. ابو بکر

  7. عباس الاکبر

  8. عثمان

  9. جعفر

  10. محمد الاصغر

  11. یحییٰ

  12. عون

  13. محمد اوسط

  14. عمر الاکبر


حضرت علیؓ کی بیٹیاں (18):

  1. زینب الکبریٰ

  2. اُم کلثوم الکبریٰ

  3. رقیہ

  4. ام الحسن

  5. رملہ الکبریٰ

  6. ام ہانی

  7. میمونہ

  8. رملہ الصغریٰ

  9. زینب الصغریٰ

  10. ام کلثوم الصغریٰ

  11. فاطمہ

  12. امامہ

  13. خدیجہ

  14. ام الکرم

  15. ام سلمہ

  16. ام جعفر

  17. جمانہ

  18. تقیہ


بیٹیوں کی شادیاں:

اکثر بیٹیوں کی شادیاں بنو عقیل اور بنو عباس میں ہوئیں۔ چار بیٹیوں کی شادیاں ان کے علاوہ خاندانوں میں ہوئیں:

  1. زینب بنت فاطمہ – عبداللہ بن جعفر طیار کے ساتھ

  2. ام کلثوم بنت فاطمہ – خلیفہ حضرت عمر بن خطابؓ کے ساتھ

  3. ام الحسن – جعفر بن ہبیرہ کے ساتھ

  4. فاطمہ – سعد بن اسود کے ساتھ


نوٹ: یہ معلومات ان کتابوں سے لی گئی ہیں

  1. البداية والنهاية – امام ابن کثیر

  2. الکامل فی التاریخ – امام ابن اثیر

  3. تاریخ طبری – امام ابن جریر طبری

  4. الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب – ابن عبد البر

  5. تاریخ یعقوبی – احمد بن یعقوب یعقوبی

  6. مروج الذہب – مسعودی


بدھ، 26 جون، 2024

ایک قبر کم ہے

ایک قبر کم ہے

  جان نثاروں کی تعداد 258 ہے جبکہ قبریں 257 ہیں ۔ 

راولپنڈی کے سی ایم ایچ کے امرجنسی گیٹ کے سامنے ایک قدیمی قبرستان ہے جس کو گورا قبرستان کہا جاتا ہے ۔ اسی چاردیواری کے اندر 

Rawalpindi War Cemetry 

کے نام سے ایک قبرستان ہے ۔ جہاں عالمی جنگ اول اور جنگ دوم کے  

 یہ قبرستان کامن ویلتھ  کے زیر انتظام ہے اور 

Common Wealth war Graves Commision 

نامی ادارہ دنیا بھر میں ایسے قبرستانوں  کی دیکھ بھال کرنے اور ریکارڈ رکھنے کا زمہ دار ہے 

اس ادارے کے ریکارڈ کے مطابق راولپنڈی کے اس قبرستان میں دفن افراد کی تعداد 358 ہے جبکہ قبروں کی تعداد 357 پے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایک قبر کم ہے ۔ 

ایک قبر بنگلہ دیش میں میں کھودی گئی تھی۔بتایا گیا تھا کہ اس قبر میں پاک فضائیہ کے ایک سابق پائلٹ مطیع الرحمان کی میت د فنائی جائے گی۔ مطیع الرحمان نے پاک فضائیہ کے ہیرو فلائٹ لیفٹیننٹ راشد منہاس نشان حیدر کا طیارہ اغوا کر کے بھارت لے جانے کی کوشش کی تھی مگر نوجوان منہاس نے اپنی جان کی قربانی دے کر اس سازش کو ناکام بنا دیاتھا۔ پاکستانی قوم نے سب سے معززعسکری ایوارڈ دے کر اپنے شہید کو خراج پیش کیا تھاتو بنگالی بھی اپنے ہیرو کو بھولے نہیں۔ 

مطیع الرحمان کی بیٹی نے  1990 میں کراچی میں اپنے والد کی قبر پر حاضری دی اور واپس جا کر قبر کھدوائی۔اور 2004میں  میت لے جانے میں کامیاب ہو گئ  ۔ 

سری نگر کے مزار شہداء میں  دو قبریں بنی ہوئی ہیں ۔ ایک قبر مقبول بٹ کی ہے اور دسری افضل گرو کی۔ یہ دونوں قبریں فی الحال اپنی میتوں کی منتظر ہیں حالانکہ دونوں کو تہاڑ کی جیل میں پھانسی دے کر دفن کر دیا گیا تھا۔  
 
کہا جاتا ہے قبر اپنے میت کا انتظار کرتی ہے ۔ 
پاکستان کے  مایہ ناز، بہادر، شہید، نشان حیدر کے حامل میجر محمد اکرم کا جسد خاکی بنگلہ دیش کے ضلع دیناج پور میں موجود ہے۔ پاکستانیوں نے مگر کبھی اپنے ہیرو کے لیے قبر کھودی ہی نہیں 
پاکستان میں
ایک قبر کم ہے