جمعرات، 25 ستمبر، 2025

Trump, the Middle East, and the UN’s Crisis of Credibility




Trump, the Middle East, and the UN’s Crisis of Credibility

The Middle East, a land burdened with wars and unresolved disputes, has long been a testing ground for international diplomacy. Palestine and Kashmir stand out as symbols of the United Nations’ repeated failures. Into this troubled stage stepped Donald Trump — a president with a showman’s flair, a businessman’s bargaining instincts, and an eye fixed firmly on both domestic politics and his own place in history.

Trump often spoke of “ending endless wars.” Behind that rhetoric was a personal desire for the Nobel Peace Prize, a trophy that would elevate him into the league of great statesmen. He wanted to be remembered as the man who brought peace where others had failed. Yet his actions painted a different picture. His administration denied entry to New York for Mahmoud Abbas, the President of the Palestinian Authority, blocking him from attending a UN General Assembly session on Palestine. Silencing the voice of Palestine while amplifying Israel’s narrative told the world where Washington’s loyalties lay.

That loyalty was not accidental. At home, Trump’s survival in politics depended on safeguarding Israel and aligning with the powerful Zionist lobbies that shape America’s Congress, media, and think tanks. Criticizing the U.S. president, the Senate, or even religion may be tolerated in America, but to question Israel remains the one unforgivable sin in public discourse. Netanyahu’s frequent diatribes against Muslims and liberals found an echo in Trump’s speeches, a clear demonstration of how closely the U.S. president followed the Israeli prime minister’s script.

Trump’s international conduct was equally controversial. In his UNGA addresses, he mocked London’s Mayor Sadiq Khan and earlier singled out Zohran Mumdani, a Muslim politician in New York. During his London visit, Sadiq Khan was deliberately excluded from the state dinner. These actions revealed more than personal grudges — they reflected a worldview shaped by suspicion of Muslims and amplified by Israel’s agenda.

But perhaps the most telling aspect of Trump’s UN narrative was not what he said, but what he ridiculed. He complained about the malfunctioning teleprompter and even the elevators at the UN headquarters, while ignoring the organization’s far deeper malfunctions. The UN has consistently failed to resolve the Palestinian and Kashmiri crises, not because of broken machines, but because of a broken system — the veto power.

Here lies the heart of the problem. Time and again, when the majority of the UN General Assembly stood united against Israeli actions, the United States used its veto in the Security Council to shield its ally. Democracy within the UN collapses at the stroke of a single veto. This flaw mirrors the collapse of the League of Nations and threatens to turn the UN into nothing more than a debating club. If Trump was serious about restructuring the UN, then the first and most urgent reform must be a reconsideration of the veto power. Without it, the dream of a peaceful world will remain empty rhetoric.

Funding has also become a weapon. The U.S. is the largest contributor to the UN, but Trump cut funding significantly, holding the institution hostage to Washington’s political will. This raised serious questions: should the UN remain in New York, under constant U.S. pressure? Or should it be moved to Europe, to a more neutral ground? And why should the financial lifeline of global governance depend on one country alone? A more balanced system — where each nation contributes according to its GDP — could finally give the UN the independence it desperately needs.

In the end, Trump’s Middle East policy was a mixture of ambition, bias, and political expediency. Pressured by Muslim leaders, urged by Europeans, and tempted by the lure of a Nobel Peace Prize, he still chose the path of one-sided loyalty to Israel. His speeches and actions revealed the depth of Zionist influence in American politics and the weakness of the UN in confronting it.

The tragedy is not Trump alone. The tragedy is an international order where peace is blocked not by the will of nations, but by the veto of one. Unless the UN reforms this structural flaw, it will remain a stage for speeches — not solutions — and the people of Palestine, Kashmir, and beyond will continue to pay the price.



بدھ، 24 ستمبر، 2025

ٹیلی پرامپٹر



ٹیلی پرامپٹر

اقوامِ متحدہ کی حالیہ نشست کے دوران ٹیلی پرامپٹر کی خرابی نے صرف ایک تکنیکی ناکامی ہی نہیں دکھائی بلکہ اس ادارے کی انتظامی صلاحیت پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔ جب دنیا کے بڑے رہنما سب سے اہم عالمی مسائل پر بات کرنے کے لیے جمع ہوں اور اس دوران اس طرح کی ناکامیاں سامنے آئیں تو یہ اقوامِ متحدہ کی اہلیت پر منفی تاثر ڈالتی ہیں۔ وہ ادارہ جو دنیا میں امن و انصاف کا محافظ سمجھا جاتا ہے، خود اپنی کارکردگی اور ساکھ میں کمزور دکھائی دیتا ہے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی عمارت کے بوسیدہ ڈھانچے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی مرمت پر تقریباً 500 ملین ڈالر درکار ہوں گے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک آزاد فریق نے یہی کام محض 200 ملین ڈالر میں مکمل کر دکھایا۔ یہ مثال اقوامِ متحدہ کے غیر شفاف اور غیر مؤثر انتظام کی عکاسی کرتی ہے۔ بظاہر ٹیلی پرامپٹر کی خرابی دراصل اس ادارے کی مجموعی ناکامی کی علامت ہے۔

جس اجلاس میں یہ واقعہ پیش آیا، وہ فلسطینیوں پر غزہ میں جاری نسل کشی کو روکنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ لیکن یکجہتی کے بجائے اختلافات نمایاں ہو گئے۔ آج اسرائیل عالمی سطح پر تنہا دکھائی دیتا ہے اور صرف امریکا ہی اس کا مستقل حامی ہے۔ یہ صورتحال عالمی برادری کے اندر اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی ناراضی کی علامت ہے۔

ٹرمپ کے ماضی کے بیانات اس تصویر کو مزید واضح کرتے ہیں۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ "پاکستانی مشرقِ وسطیٰ کو ہم سے بہتر سمجھتے ہیں"۔ یہ بات آج اور بھی اہم ہو چکی ہے، کیونکہ ستمبر میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بعد پاکستان کو خطے کے معاملات میں ایک نمایاں حیثیت مل گئی ہے۔ برسوں سے سعودی عرب کو مسلم دنیا کا محور مانا جاتا رہا ہے، لیکن پاکستان کی شمولیت نے اس توازن کو نئے رخ دیے ہیں۔

تاہم جب مسلم رہنماؤں نے ٹرمپ سے ملاقات کی تو امریکا کا سخت مؤقف واضح ہو گیا۔ ٹرمپ نے صاف کہا کہ اسرائیل کبھی بھی مسلم ممالک کی افواج کی موجودگی کو قبول نہیں کرے گا۔ امریکا خود اب اس پوزیشن میں نہیں رہا کہ بڑی تعداد میں اپنی افواج غزہ یا دیگر محاذوں پر تعینات کر سکے، جبکہ یورپی ممالک نہ تو اس صلاحیت کے حامل ہیں اور نہ ہی اس خواہش کے۔ نتیجتاً یہ بحران ایک خطرناک خلا میں جا رہا ہے، جہاں طاقت کے زور پر ہی سب کچھ طے ہو رہا ہے۔

دوسری جانب اسرائیل نے حماس کے خاتمے کا عزم ظاہر کیا ہے اور مغربی کنارے کے مزید علاقوں کو ضبط کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسرائیل کے اندر ایک خوف موجود ہے۔ اصل خدشہ اسے ان نئے اتحادوں سے ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں تشکیل پا رہے ہیں اور مستقبل میں اس کی جارحانہ پالیسیوں کو چیلنج کر سکتے ہیں۔

ٹرمپ اور مسلم رہنماؤں کی ملاقات کے بعد کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہو سکا، جو اس باہمی بداعتمادی کو ظاہر کرتا ہے۔ آخرکار ٹرمپ کے فیصلے بھی اسرائیلی قیادت، خاص طور پر وزیرِاعظم نیتن یاہو کی منظوری کے محتاج تھے۔ اسی لیے دنیا بھر میں یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آخر سپر پاور امریکا ہے یا اصل طاقت اسرائیل کے ہاتھ میں ہے؟

یوں اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں ٹیلی پرامپٹر کی خرابی محض ایک تکنیکی حادثہ نہیں تھا۔ یہ اس سے کہیں بڑھ کر ایک علامت تھی — اقوامِ متحدہ کے ناقص انتظام کی، عالمی طاقتوں کے درمیان اتفاقِ رائے کی کمی کی، اور ایک ایسے نظام کی جو غزہ میں ہونے والے مظالم کو روکنے سے قاصر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ناکام صرف ٹیلی پرامپٹر نہیں بلکہ پورا نظام ہے، اور دنیا انصاف کی تلاش میں سرگرداں ہے جہاں طاقت اصولوں پر غالب آ گئی ہے۔


منگل، 23 ستمبر، 2025

فیلڈ مارشل سے فیلڈ مارشل تک






فیلڈ مارشل 

 ایوب خان کے دور میں پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعلقات کی پہلی اینٹ رکھی۔ پاکستانی افسران نے سعودی کیڈٹس کو تربیت دینا شروع کیا اور پاک فضائیہ کے پائلٹ سعودی ایوی ایشن میں مددگار ثابت ہوئے۔
یہ ابتدائی اعتماد وہ بیج تھا جس نے آگے چل کر دونوں ممالک کو باہمی دفاعی معاہدہ کرنے کے قابل بنایا۔

انیس سو ستر کی دہائی: دوستی سے عسکری تعاون تک
انیس سو اکہتر کی جنگ کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کو مالی اور سیاسی سہارا دیا، جبکہ پاکستان نے سعودی عرب کے لیے تربیتی مشنز بڑھائے۔
شاہ فیصل کی پاکستان سے قریبی وابستگی نے اس بات کو یقینی بنایا کہ دفاعی تعلقات ہمیشہ مرکزی حیثیت میں رہیں۔


انیس سو اناسی کے ایرانی انقلاب اور افغانستان پر سوویت حملے کے بعد سعودی عرب نے پاکستانی مہارت پر زیادہ انحصار کیا، جو بالآخر 2025 میں معاہدے کی صورت میں سامنے آیا۔

1980 کی دہائی: سعودی سرزمین پر پاکستانی فوج
انیس سو بیاسی میں ایک دفاعی پروٹوکول کے تحت پاکستان نے ایک ڈویژن پر مشتمل فوج سعودی عرب میں تعینات کی۔
پاکستانی فوجی اور فضائیہ کے پائلٹ سعودی عرب کی سرحدوں اور سلامتی کے محافظ بنے۔
یہ تعیناتی اس اصول کی جھلک تھی جو 2025 کے معاہدے میں تحریری طور پر شامل ہوا: پاکستان سعودی دفاع کے لیے عملی طور پر ہمیشہ تیار ہے۔

1990 کی دہائی: خلیجی جنگ اور اسٹریٹجک چھتری
نوے اکانوے میں کی خلیجی جنگ کے دوران 11 ہزار سے زائد پاکستانی فوجی سعودی عرب اور مقدس مقامات کے محافظ بنے۔
انیس سو اٹھانوے میں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو سعودی عرب نے فوری طور پر پاکستان کو مالی و تیل کی سہولت دی۔ یہ عمل اس بات کی علامت تھا کہ سعودی عرب پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو ایک ممکنہ ڈھال سمجھتا ہے۔
ان دونوں واقعات نے یہ ثابت کیا کہ سعودی عرب اپنی سلامتی کے لیے پاکستان پر اعتماد کرتا ہے — اور یہی اعتماد 2025 میں معاہدے کی شکل اختیار کر گیا۔

2000 کی دہائی: تعاون کا ادارہ جاتی ڈھانچہ
جنرل مشرف کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ دفاعی کمیٹیاں اور تربیتی سلسلے مضبوط ہوئے۔
نائن الیون کے بعد انسدادِ دہشت گردی کے میدان میں بھی تعاون بڑھا۔
ان اقدامات نے یہ دکھایا کہ دفاعی تعلقات کو مستقل بنیادوں پر ڈھانچے کی ضرورت ہے — جسے بعد میں 2025 کے معاہدے نے پورا کیا۔

دوہزار دس کی دہائی: سرحد کی وضاحت، عزم کی تجدید
2015 میں یمن جنگ کے لیے پاکستان نے فوج بھیجنے سے انکار کیا، لیکن واضح اعلان کیا کہ اگر سعودی عرب کی سرزمین کو خطرہ ہوا تو پاکستان اس کا دفاع کرے گا۔
یہ وہ ریڈ لائن تھی جو 2025 کے معاہدے میں باضابطہ طور پر شامل ہوگئی۔

دو ہزار بیس کی دہائی: تعلقات کا قانونی روپ
اگرچہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات بہتر بنانے میں پاکستان نے ثالثی کی، لیکن سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعاون کمزور نہیں ہوا۔


سترہ ستمبر 2025 — ریاض میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاعی معاہدہ طے پایا۔
معاہدے میں کہا گیا: “کسی ایک پر حملہ، دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔”

جو رشتہ ایوب خان کے دور میں تربیت اور نیک نیتی سے شروع ہوا تھا، جو تعیناتیوں، جنگوں اور ایٹمی اعتماد سے گزرا، وہ بالآخر ایک تحریری دفاعی معاہدے میں ڈھل گیا۔

 غیر رسمی اتحاد → باضابطہ دفاعی معاہدہ
تقریباً سات دہائیوں میں پاکستان نے بار بار یہ ثابت کیا — چاہے وہ تربیتی اکیڈمیاں ہوں، سعودی اڈے، جنگی حالات یا اسٹریٹجک بحران — کہ وہ سعودی عرب کے دفاع میں ساتھ کھڑا ہے۔ 2025 کا باہمی دفاعی معاہدہ اچانک نہیں آیا، بلکہ ایک طویل عسکری سفر کا فطری انجام تھا، جس نے روایت کو معاہدے میں بدل دیا۔

پیر، 22 ستمبر، 2025

اسرائیل کا منقسم ڈھانچہ

اسرائیل کا منقسم ڈھانچہ
اسرائیل بے شک ایک ملک ہے ۔ مگر اس کے شہری گروہوں میں منقسم لوگ ہیں نہ کہ ایک قوم ۔ اسرائیلی معاشرہ سیاسی، مذہبی، معاشی ، معاشرتی اور لسانی گروہ میں بٹا ہوا ایک ملک ہے ۔ ۔ اسرائیل میں مقامی پیدا ہونے والے یہودی تقریباً 35 سے 40 فیصد ہیں۔ یورپ اور امریکہ سے آنے والے، جنہیں آشکنازی کہا جاتا ہے، تقریباً ایک تہائی ہیں۔ سابق سوویت یونین سے آنے والے قریب 15 فیصد ہیں۔مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ (یعنی مزراحی یا سفاردی یہودی) تقریباً 40 سے 45 فیصد ہیں۔ایتھوپیا سے آنے والے یہودی تقریباً دو فیصد کے قریب ہیں۔
یہ لوگ کہاں اور کیسے آباد ہوتے ہیں
ابتدا میں حکومت نے نئے آنے والوں کو مخصوص بستیوں اور شہروں میں آباد کیا، اس وجہ سے ایک ہی خطے سے آنے والے لوگ اکٹھے رہنے لگے۔ بعد میں زبان اور ثقافت کی بنیاد پر بھی محلّے اور ہمسایہ داریاں بن گئیں۔
مختلف خطوں کے لوگ کیسے ہیں
سوویت یونین سے آنے والے زیادہ تر تعلیم یافتہ اور فنی مہارت رکھنے والے تھے، وقت کے ساتھ انہوں نے اچھی ترقی کی۔یورپ اور امریکہ سے آنے والے نسبتاً خوشحال اور آزاد خیال لوگ ہیں۔مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے آنے والے لوگ زیادہ روایتی ہیں، خاندان اور مذہبی اقدار کو اہمیت دیتے ہیں۔
ایتھوپیا سے آنے والے لوگ کم وسائل کے باوجود اپنی ثقافت اور زبان کو گھروں میں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
گھروں میں کون سی زبان بولی جاتی ہے
روسی بولنے والے اپنے گھروں میں روسی بولتے ہیں۔ایتھوپیا سے آنے والے امہاری یا تیگرینیا بولتے ہیں۔عرب اور دروز گھرانوں میں عربی رائج ہے۔
لیکن باہر کے معاملات، تعلیم اور ملازمت میں عبرانی ہی سب سے زیادہ بولی جاتی ہے۔
اسرائیل میں کس کو برتر سمجھا جاتا ہے
اسرائیل کے شروع کے زمانے میں یورپ اور امریکہ سے آنے والے یہودی، یعنی آشکنازی، تعلیم اور حکومت کے بڑے عہدوں پر زیادہ نظر آتے تھے۔ اس وجہ سے انہیں برتر طبقہ سمجھا گیا۔ وقت کے ساتھ دوسرے گروہ بھی اوپر آئے، لیکن معاشی اور تعلیمی فرق وقت کے ساتھ بڑھا ہے۔
سیاست میں کس گروہ کا زور ہے
ابتدا میں یورپی نژاد یہودی سیاست میں سب سے آگے تھے اور زیادہ تر بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ جڑے رہے۔ بعد میں مشرقی اور شمالی افریقہ کے یہودیوں نے دائیں بازو کی جماعتوں کو اپنی طاقت بنایا اور سیاست میں بڑی قوت حاصل کی۔ آج سیاست میں مختلف گروہ شریک ہیں لیکن مزراحی یہودی ووٹوں کی بڑی طاقت سمجھے جاتے ہیں۔اس ؑعنصر نے معاشرے میں انمٹ مسابقت پیدا کر دی ہے
فوج میں زیادہ کون ہیں
اسرائیل میں یہودی نوجوانوں کے لیے فوجی خدمت لازمی ہے، اس لیے سب سے زیادہ نمائندگی یہودیوں کی ہی ہے۔ اس کے علاوہ دروز کمیونٹی کے مرد سب سے زیادہ فوج میں شامل ہوتے ہیں اور اونچے عہدوں تک پہنچے ہیں۔ بدو بھی بعض خاص یونٹوں میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ الٹرا آرتھوڈوکس یہودی فوج میں کم شریک ہوتے ہیں۔دروز عنصر البتہ اس قدر غالب ہے کہ فوج کے اندر ان کی رضامندی لازمی مانی جاتی ہے
کس گروہ کی معیشت مضبوط ہے
یورپی اور امریکی نژاد یہودی شروع سے ہی تعلیم اور سرمایہ رکھنے کی وجہ سے زیادہ خوشحال ہیں۔ امریکہ اور یورپ سے آنے والے بہت سے خاندان معاشی طور پر جلدی اوپر چلے گئے۔ سوویت یونین سے آنے والے ابتدا میں مشکل میں تھے مگر وقت کے ساتھ بہتر ہو گئے۔ مشرقی اور شمالی افریقہ کے لوگ اور ایتھوپین یہودی معاشی لحاظ سے اب بھی پچھڑے ہوئے سمجھے جاتے ہیں۔
اسرائیل کہنے کو یہودی مزہبی ملک ہے مگر اندر سے ملک سیاسی، معاشرتی، معاشی، اخلاقی ہی نہیں سیاسی طور پر پر بھی ایک منقسم معاشرہ ہے ۔ جس کو پرپیگنڈے، سرمائے اور ظلم نے جوڑ کے رکھا ہوا ہے۔

صغیرہ کبیہرہ

 

حضرت موسی علیہ السلام نے ایک مرتبہ اللہ تعالی سے پوچھا
یا اللہ میری امت کا سب سے بدترین شخص کون سا ھے؟
اللہ تعالی نے فرمایا !
کل صبح جو شخص تمھیں سب سے پہلے نظر آئے وہ آپ کی امت کا بد ترین انسان ھے
حضرت موسی علیہ السلام صبح جیسے ہی گھر سے باہر تشریف لائے
ایک شخص اپنے بیٹے کو کندھے پر بٹھائے ھوئے گزرا
حضرت موسی علیہ السلام نے دل میں سوچا
اچھا تو یہ ھے میری امت کا سب سے برا انسان
پھر آپ اللہ تعالی سے مخاطب ھوئے اور کہا
یا اللہ !
میری امت کا سب سے اچھا انسان کون سا ھے اسے دکھائیں
اللہ تعالی نے فرمایا !
شام کو جو شخص سب سے پہلے آپ سے ملے وہ آپکی امت کا سب سے بہترین انسان ھے
حضرت موسی علیہ السلام شام کو انتظار کرنے لگے کہ
اچانک انکی نظر صبح والے بد ترین انسان پر پڑی
یہ وہی شخص جو صبح ملا تھا
حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ سے کلام کیا
یا اللہ یا رب کریم
یہ کیا ماجرہ ھے
جو شخص بدترین تھا وہی سب سے بہترین
کیسے ھوسکتا ھے ؟
اللہ تعالی نے فرمایا !
صبح جب یہ شخص اپنے بیٹے کو کندھے پر بٹھائے جنگل کی طرف نکلا تو اس کے بیٹے نے اس سے پوچھا
ابا کیا اس جنگل سے بڑی کوئی چیز ھے
اس نے کہا
ہاں بیٹا
یہ پہاڑ جنگل سے بھی بڑے ہیں
بیٹا بولا
ابا ان پہاڑوں سے بھی بڑی کوئی شئے ھے
وہ بولا
ہاں بیا
یہ آسمان پہاڑوں سے بھی بہت بڑا بہت وسیع و عریض ھے
بیٹے نے کہا
ابا اس آسمان سے بڑی بھی کوئی چیز ھے
باپ نے ایک سرد آہ بھری اور دکھ بھری آواز میں بولا
ہاں بیٹا اس آسمان سے بھی بڑے تیرے باپ کے گناہ ہیں
بیٹے نے کہا
ابا ! تیرے گناہ سے بڑی بھی کوئی چیز ھے
باپ کے چہرے پر ایک چمک سی اگئی اور بولا
ہاں بیٹا
تیرے باپ کے گناھوں سے بہت بہت بڑی
میرے رب کی رحمت اور اسکی مغفرت ھے
اللہ رب العزت نے فرمایا
اے موسی ! مجھے اس شخص کا اعتراف گناہ اور ندامت اس قدر پسند آیا کہ
میں نے اس بدترین شخص کو تیری امت کا بہترین انسان بنا دیا
میں نے اسکے تمام گناہ ناصرف معاف کر دئیے بلکہ
گناھوں کو نیکیوں سے بدل دیا

لنگڑے جنگجو اور سپہ سالار



تاریخ میں کئی عظیم جنگجو ایسے بھی گزرے ہیں جو کسی جسمانی معذوری، خاص طور پر لنگڑا پن (عرج یا پاؤں کا نقص) کے باوجود عظیم ترین سپہ سالار، فاتح، یا بہادر جنگجو بنے۔ ان کا عزم، قیادت اور بہادری جسمانی نقص سے کہیں زیادہ بلند تھی۔
یہاں لنگڑے (عرج والے) مشہور جنگجوؤں کے چند نام دیے جا رہے ہیں:

1. حضرت عمرو بن الجموحؓ — صحابی رسول ﷺ
مدینہ کے معزز صحابی، پاؤں میں شدید لنگڑا پن تھا (عرج)
غزوہ اُحد میں شرکت کے لیے بار بار اصرار کیا، حالانکہ بیٹے اور اہلِ خانہ منع کرتے تھے
رسول اکرم ﷺ نے ان کی دلیری دیکھ کر اجازت دی
شہادت کے بعد فرمایا گیا:
"میں نے عمرو بن الجموح کو جنت میں لنگڑاتے ہوئے نہیں بلکہ دوڑتے ہوئے دیکھا ہے!"
 تمور لنگ  یا  — ترک-منگول فاتح
اصل نام: تیمور گرگانی
پاؤں میں شدید زخم کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے لنگڑا ہو گیا
اسی نسبت سے تاریخ میں "لنگ" (لنگڑا) کہلایا
وسطی ایشیا، ایران، عراق، ہندوستان اور شام تک فتوحات کیں
سمرقند کو عظیم دارالحکومت بنایا
اپنے وقت کا سب سے خوفناک اور چالاک جنگجو و حکمران
 فلپ آف میسیڈون — سکندر اعظم کا والد
ایک آنکھ ضائع اور ایک ٹانگ زخمی ہو گئی تھی
میدان جنگ میں زخمی ہو کر بھی جنگ جاری رکھی
مقدونیہ کو عظیم سلطنت میں تبدیل کیا
سکندر اعظم کی عسکری تربیت کا اصل معمار
 الپ ارسلان — سلجوقی سلطان
روایات کے مطابق جنگ میں زخمی ہو کر ٹانگ پر اثر آیا
بازنطینیوں کے خلاف ملاذکرد کی جنگ میں تاریخی فتح حاصل کی
اس کی قیادت میں سلجوق سلطنت نے عظیم وسعت پائی
5. شیخ عدی بن مسافر — یزیدی فرقے کے بزرگ
بعض روایات کے مطابق ان کی چال میں لنگ تھا، مگر قیادت اور روحانی طاقت میں بہت بلند مقام رکھتے تھے
جسمانی نقص یا معذوری کبھی بھی عزم، قیادت یا بہادری میں رکاوٹ نہیں بنتی۔
ان تاریخی شخصیات نے یہ ثابت کیا کہ دل، دماغ اور یقین کی طاقت جسمانی حدود سے زیادہ اہم ہے۔

ابن سیرینؒ — خوابوں کا عالم، سچائی کا چراغ






 ابن سیرینؒ — خوابوں کا عالم، سچائی کا چراغ

کسی بھی معاشرے میں علم کی روشنی بکھیرنے والے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک درخشاں ستارے کا نام ہے محمد بن سیرینؒ، جنہیں دنیا آج بھی علمِ تعبیرِ خواب کا امام مانتی ہے۔ ان کی شخصیت محض خوابوں کی تعبیر تک محدود نہیں تھی، بلکہ ان کی زندگی علم، تقویٰ، دیانت اور سچائی کی لازوال مثال تھی۔

ابن سیرینؒ کا اصل نام محمد بن سیرین تھا۔ ان کی پیدائش 33 ہجری میں عراق کے مشہور شہر بصرہ میں ہوئی۔ ان کے والد سیرینؒ حضرت انس بن مالکؓ کے آزاد کردہ غلام تھے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص  ہے۔ اس نسبت نے ابن سیرینؒ کے گھرانے کو دین و علم کی خوشبو سے معطر رکھا۔
ان کی والدہ ایک نیک، عبادت گزار اور متقی خاتون تھیں۔ ایسی پرورش میں ابن سیرینؒ کی شخصیت میں دیانت، سچائی، علم اور حلم کی بنیاد بچپن ہی سے رکھ دی گئی تھی۔

ابن سیرینؒ نے ابتدائی تعلیم بصرہ میں حاصل کی، مگر ان کا دل علم کی پیاس بجھانے کو مزید بڑے علماء اور صحابہ کرامؓ کی تلاش میں لگا رہا۔ انہوں نے دورِ تابعین میں ایسے جلیل القدر صحابہ کرام سے براہِ راست فیض حاصل کیا جن کے علم اور عمل کی دنیا معترف ہے، جیسے:
حضرت انس بن مالکؓ
حضرت ابن عباسؓ
حضرت عبداللہ بن عمرؓ
حضرت ابوہریرہؓ
ابن سیرینؒ نے صرف حدیث و فقہ ہی نہیں، بلکہ اخلاقیات، زہد و تقویٰ اور معاشرتی اصلاح میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔

اگر ابن سیرینؒ کا نام لیا جائے تو سب سے پہلا حوالہ علمِ تعبیرِ خواب کا ذہن میں آتا ہے۔ انہوں نے اس علم میں ایسی مہارت حاصل کی جو صدیوں میں کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ ان کی تعبیریں صرف خواب کی ظاہری شکل پر مبنی نہ تھیں، بلکہ وہ انسان کی شخصیت، نیت، حالات اور وقت کو مدنظر رکھتے تھے۔
مشہور کتاب "تعبیر الرؤیا" میں منسوب ان کی تعبیریں آج بھی دنیا بھر میں حوالہ مانی جاتی ہیں۔ ان کا یہ علم صرف ظاہری بصیرت نہیں بلکہ دینی فہم، قرآن، حدیث اور حضرت یوسفؑ کے علم تعبیر کی عملی مثال ہے۔

ابن سیرینؒ کی زندگی زہد، عبادت اور تقویٰ سے بھرپور تھی۔ وہ سچ بولنے، وعدہ نبھانے اور امانت داری میں بے مثال تھے۔ ایک واقعہ مشہور ہے کہ انہوں نے کسی کا مال بطور امانت لیا، بعد میں اس مال کی واپسی میں رکاوٹ آئی، حتیٰ کہ ابن سیرینؒ کو قید کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، مگر انہوں نے امانت میں خیانت نہ کی۔
وہ کاروبار بھی کرتے تھے، مگر ان کے کاروبار کی بنیاد دیانت اور اللہ پر توکل تھی۔ ناپ تول میں کمی، دھوکہ، جھوٹ یا فریب سے انہیں سخت نفرت تھی۔

ابن سیرینؒ دن کو علم میں مصروف رہتے، راتوں کو عبادت میں مگن رہتے تھے۔ وہ دنیا کی زیب و زینت سے زیادہ آخرت کی تیاری کو اہم سمجھتے تھے۔ ان کے تقویٰ اور عاجزی کی یہ حالت تھی کہ ان کی محفل میں بیٹھنے والے دین اور علم کی خوشبو میں ڈوب جاتے تھے۔

ابن سیرینؒ کا ایک قول آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے:
"جو شخص اپنے وعدے کا پاس نہیں رکھتا، وہ ایمان کے دائرے سے باہر جا سکتا ہے۔"
انہوں نے ہمیشہ سچ، دیانت اور علم کی تلقین کی اور کہا کہ خواب کی تعبیر دینا کھیل نہیں بلکہ علم، تقویٰ اور فہم کا امتحان ہے۔

ابن سیرینؒ کی وفات 110 ہجری میں بصرہ میں ہوئی۔ ان کی وفات علم، تقویٰ اور حکمت کی دنیا میں ایک بڑا خلا چھوڑ گئی۔ مگر آج بھی دنیا بھر میں ان کی تعبیریں، اقوال اور کردار زندہ ہیں۔

ثابت قدمی کی تاریخ


ثابت قدمی کی تاریخ
غزہ ایک قدیم شہر اور پٹی ہے، جس کی تہذیبیں ہزاروں سال پیچھے جاتی ہیں۔ یہاں سے مصر، فلستی، یونان، رومی، صلیبی، اسلامی سلطنتیں، عثمانی دور، برطانوی استعمار، اور جدید اسرائیلی قابضین تک کے ادوار کا سلسلہ ملتا ہے۔ ہر دور میں مختلف حکمرانوں نے اہلِ غزہ پر ظلم یا سیاسی و اقتصادی دباؤ ڈالا ہے۔
غزہ بنیادی طور پر کنعانیوں کا شہر تھا بعد میں فلستی ان کا ایک اہم حصہ بنے۔ یہ شہر ایک مضبوط بحری اور تجارتی مرکز تھا، مگر یہ ایسا خطہ تھا جہاں جنگیں اور مقامی قبائل کے مابین جھگڑے معمول تھے، جس سے عوام متاثر ہوتے رہے۔
اسکندر اعظم اور ہیلینی دور
تین سو بتیس قبل مسیح میں، اسکندر اعظم نے غزہ کا محاصرہ کیا۔
اس محاصرے میں شہری نقصان ہوا، لوگوں کا قتل عام ہوا، اور شہر کی ساخت تباہ ہوئی۔ غزہ دیر تک مزاحمت کرتا رہا، مگر آخر کار فتح ہوا۔
رومی اور بازنطینی ادوار
رومی سلطنت کے تحت، غزہ کو ایک اہم شہر سمجھا جانے لگا، مگر رومی قوانین، ٹیکس اور مذہبی دباؤ غالب رہا۔ خاص طور پر عیسائیت کے دور میں لوگوں کو مذہبی تبدیلی پر مجبور کیا گیا۔
بازنطینی دور میں مذہبی اور انتظامی اختیارات کے تحت غیر مسیحی اکثریت خود کوپچھڑی ہوئی محسوس کرتی رہی۔
اسلامی فتوحات سے عثمانی دور تک
تقریبا 637 عیسوی میں، عمرو بن العاص نے مسلمانوں کی قیادت میں غزہ فتح کیا۔ اسلام کے بعد، بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔ عمومی طور پر غزہ کا دور اسلامی حکمرانی میں پُر امن سمجھا جاتا ہے، اس دور مین غزہ مین قبائلی تصادم کا خاتمہ ہوا، تجارت بڑہی اور لوگوں نے خود کو پرامن محسوس کیا
صلیبی دور
تقریباً ایک ہزار ایک سو عیسوی میں صلیبی فوجوں نے پہلی بار غزہ پر قبضہ کیا ۔ صلیبی دور میں غزہ کا امن تباہ ہوا۔ بدامنی اور جنگ و جدل کا بازار گرم رہا۔ مقامی مسلم و عرب آبادی کا قتل عام کیا گیا۔ مسلمان تباہی اور مذہبی جبرکا شکار ہوئے ۔ پوری صلیبی دور میں اہل غزہ کو امن نصیب نہ ہو سکا۔
مملوک اور عثمانی سلطنت
مملوک دور میں غزہ تقریباً ایک مستحکم علاقہ رہا، اگرچہ فوجی تصادم اور بیرونی حملے رہتے تھے۔ مگر تصادم صرف مسلح سرکاری فوجیوں کے درمیان رہا اور غزہ کے عوام اس سے متاثر نہیں ہوئے۔
پندہ سو سترہ عیسوی سے عثمانی دور آیا۔ اس دور میں غزہ نے زبردست ثقافتی اور تجارتی ترقی دیکھی۔ غزہ کی تاریخ میں عثمانی خلافت کا دور امن و امن ، معاشرتی رواداری، تجارت کے عروج اور بیرونی حملہ آوروں سے نجات کا دور تھا ۔
جدید دور: برطانوی مینڈیٹ سے اسرائیل تک
برطانوی استعمار
(1917–1948)
پہلی جنگ عظیم کے بعد، عثمانی سلطنت ٹوٹ گئی، اور غزہ برطانوی استعماری فلسطین کا حصہ بن گیا۔ برطانوی دور میں اہل غزہ سیاسی جبر، صیھونٰون کی ہجرت میں اضافہ، زمینوں پر صیھونیوں کے قبضے، اور فلسطینی عرب آبادی کی مزاحمت حکومتی و معاشاری جبر کا شکار ہوئے
مصر کا کنٹرول
(1948-1967)
انیس سو اڑتالیس کی عرب-اسرائیل جنگ کے بعد، مصر نے غزہ کو کنٹرول میں لے لیا۔ اس دور میں اہلِ غزہ پر فوجی اور انتظامی دباؤ رہا، فلسطینی مجاہدین اور رہائش پذیر لوگ سیاسی و اقتصادی مشکلات کا سامنا کرتے رہے۔ مگر مجموعی طور پر غزہ میں امن رہا ۔
اسرائیلی قبضہ
(1967 کے بعد)
انیس سو سڑسٹھ کی چھ روزہ جنگ کے بعد، اسرائیل نے غزہ پٹی پر براہِ راست قبضہ کر لیا۔ قبضے کے بعد اسرائیلی فورسز نے اہل غزہ کو باغی اور غدار قرار دیا اور باغیوں کو کچلنے کی کارروائیاں کیں، زمینوں پر قبضے کیے گئے،اہل غزہ کی رہائش گاہیں منہدم کی گئیں، ٹرانسپورٹ اور نقل مکانی کے حقوق محدود کر دیے گئے ۔
دوسرے ممالک سے ائے ہوئے یہودیوں نے مقامی لوگوں کی رہائشگاہوں اور زمینوں پر قبضے کرنے شروع کر دیے ۔ اس عمل میں یہودیوں کو اسرائیل کی قانونی، سیاسی، معاشرتی اور عسکری پست پنائی حاصل رہی
غزہ کی خود مختاری کا آغاز اور داخلی سیاسی تناؤ
انیس سو چورانوے میں غزہ ر فلسطینی اتھارٹی کو محدود خود مختاری دی گئی، 2005 میں اسرائیل نے غزہ سے فوجی انخلاء کا اعلان کیا مگر تحویلِ کنٹرول مکمل طور پراہل غزہ کے حوالے نہیں کیا اسرائیل نے سرحدی کنٹرول، فضائی اور سمندری حدود نگرانی کے بہانے اپنا وجود موجود رکھا
حماس کا اقتدار اور اسرائیلی محاصرہ
دوہزارچھ میں غزہ میں حماس نے انتخابات جیتے، اور 2007 میں مرکزی کنٹرول حاصل کیا۔ اس کے بعد، اسرائیل اور مصر نے مل کر سرحدوں پر مکمل محاصرہ کر لیا، بجلی، دوائیوں، انسانی امداد کی ترسیل محدود ہوئی جو روز بروز محدود ہوتی گئی اوراہل غزہ کے خلاف آپریشن شروع کیے گئے ۔اہل غزہ کے نہتے شہریوں کے خلاف ان اپریشن کو جنگ کا نام دیا گیا ۔
حال کے جنگی واقعات اور انسانی بحران
دو ہزار آتھ میں اسرائیل کی فوج نے اہل غزہ کے خلاف اپریشن کا نئے سرے سے آغاز کیا۔ فوجی اپریشن کے نام پر ظلم اور جبر ڈھایا گیا مگر سخت سنسر شپ کے ذریعے کوشش کی گئی کہ یہ ظلم دنیا تک کم از کم پہچے
موجودہ دور
سات اکتوبر 2023 کے بعد محاصرے، ہنگامی حالت، انسانی امداد کی کمی اور آبادی کی نقل مکانی ادویات اور خوراک اور پانی پر کنٹرول معمول کا حصہ بن چکا ہے۔
سماجی و اقتصادی تناؤ:
مہنگائی، بے روزگاری، بنیادی سہولیات کی کمی جیسے پانی، بجلی، صحت کی خدمات پر پابندیوں نے غزہ کو ایک ایسی جیل میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ۔ جہان، ادویات کے حصول، کھانے کی لائن میں کھڑے ہونے یا پانی کا کنستر لے کر چلنے پر گولی مار دی جاتی ہے ۔
نفسیاتی اور انسانی نقصان:
بچوں، عورتوں اور عمر رسیدہ افراد پر جنگی تشدد اور قحط جیسے حالات مسلط کر دیے گئے ہیں
تاریخی و ثقافتی تباہی:
رہائشی عمارات،ہسپتالوں، مذہبی عبادت گاہوں، سکولوں اور ثقافتی ورثے کو آگ و بارود کے ذریعے راکھ میں تبدیل کر دیا گیا ہے
غزہ کی تاریخ میں تقریباً ہر دور میں کوئی نہ کوئی طاقت رہی ہے جس نے اہلِ غزہ پر ظلم یا کم از کم سیاسی و اقتصادی دباؤ ڈالا ہو۔ یہ ظلم ہمیشہ ایک جیسے پیمانے کا نہیں رہا—کبھی شدید محاصرے، کبھی زبردست فوجی کارروائیاں، کبھی قانونی و سماجی جبر—مگر اسرائیل نے قبضے نے اہل غزہ پر ایسے مظالم ڈھائے ہیں جو انسانی تاریخ نے اس سے پہلے نہیں دیکھے تھے ۔ دنیا بھر میں عوام ان مظالم کے خلاف سڑکوں پر ہے ۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم پر قرار دادیں منظور ہوتی ہیں ۔ مگر صیھونی کے اسرائیل میں قابص نمائدے سر عام اہل غزہ کو انسان ہی تسلیم کرنے سے انکاری ہیں

اتوار، 21 ستمبر، 2025

Pak-Saudi Defence Pact

The reported defence pact between Pakistan and Saudi Arabia has stirred widespread excitement at home. Many Pakistanis see it as a historic moment, imagining their country as the ultimate guardian of the Kingdom and the holy sites. Emotional calls about “defending Makkah and Madinah” or “standing against Israel” are not uncommon. But before celebrating too loudly, it is worth asking what this agreement actually means in practical terms.

Saudi Arabia’s military power still rests heavily on U.S.-supplied systems — from fighter jets to missile defences. These weapons require American maintenance, training, and in many cases, cannot be used independently against U.S. or allied interests. Yet to say the Kingdom is entirely dependent on Washington would be misleading. In recent years, Riyadh has diversified its defence ties, buying drones from China, exploring advanced air defence from Russia, and expanding procurement from Europe. After the 2019 Aramco attacks, when America’s support seemed hesitant, Saudi leaders drew a clear lesson: do not rely on a single supplier.

Pakistan’s role under this pact should also be viewed realistically. Pakistani forces will not be flying Saudi fighter jets or operating Patriot batteries. Their value lies in areas where they have proven strength: protecting key sites, training Saudi forces, and providing counterterrorism expertise. For decades, Riyadh has trusted Pakistani troops with sensitive duties — a level of confidence not easily extended to Western contractors.

Other Muslim-majority states show that dependency does not equal paralysis. Turkey, despite tensions with the U.S., built its own drones that changed the course of several conflicts. Egypt diversified with French and Russian aircraft. Both remain tied to the West, but they still carve out space for strategic autonomy. Iran, meanwhile, built an independent defence industry but at enormous economic and diplomatic cost. Few countries would want to pay that price.

Change is already visible in the Gulf. Saudi Vision 2030 aims to produce half of the Kingdom’s defence needs locally. The UAE is co-developing fighter jets with South Korea. Chinese and Turkish drones are widely in use. The region is slowly moving toward a more balanced military future.

Pakistan itself faces constraints: economic dependence, mixed military hardware, and reliance on Western-trained doctrines. But it also brings assets no one else in the Muslim world does — a nuclear deterrent, a growing domestic arms industry, and unmatched counterterrorism experience. These strengths explain why Saudi Arabia values Pakistan as a partner.

The new pact is neither a guarantee of Muslim unity nor a hollow illusion. Its importance lies in symbolism, deterrence, and trust. For Pakistan, it reinforces ties with a crucial ally in a time of economic strain. For Saudi Arabia, it adds a dependable partner beyond Western support. Strategic independence will take years to achieve, but until then, practical partnerships and careful balancing remain the reality.

The challenge for both nations is to see this agreement not as a cause for euphoria, but as one step in a much longer journey toward genuine security and self-reliance.




ہفتہ، 20 ستمبر، 2025

شیور مرغے




 پاکستان نے 1977 سے ای
ک طویل سفر طے کیا ہے۔ 2025 میں صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ انسان انسان کو مار مار کر تھک چکا ہے، ہر طرح کے تعصب اور نفرت کے نام پر خون بہایا جا چکا ہے۔ لیکن دو ایسی حقیقتیں ہیں جنہیں کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا: ایک یہ کہ پاکستان کا نوجوان آج بھی روزگار کو ترس رہا ہے، اور دوسری یہ کہ پاکستان کے ہر باسی کی جیب سے کچھ نہ کچھ نکل کر کسی نہ کسی تجوری میں جمع ہو رہا ہے۔

اب تو لوگ اس تجوری کو بھی پہچان گئے ہیں جہاں غریبوں کے خون پسینے کی کمائی جمع کی جاتی ہے، اور ان مگرمچھوں کو بھی پہچان گئے ہیں جنہوں نے نوجوانوں کو سیاست کے میدان میں استعمال کرکے بے روزگاری کے اندھیروں میں دھکیل دیا اور پھر بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔اس بے رحمی کا مداوا آزانوں سے ممکن نہیں ہو پائے گا بلکہ عملی ادراک کے بغیر چارہ نہیں ۔ حقیقت کو تسلیم کرنے کا وقت آ چکا۔ بانگ سحر والے مرغ ناپید ہو چکے ۔ شیور مرغوں کی البتہ بہتات ہے ۔

ع سے عاصم




علمِ اعداد کے ماہر ایک دوست کے ہاں محفل سجی۔ باتوں ہی باتوں میں جب ذکر اس علم کے اسرار و رموز کا آیا تو ایک نکتہ سب کے دل کو چھو گیا۔ انہوں نے کہا: “بشریٰ بی بی علمِ اعداد کا شعور رکھتی ہیں، مگر وہ ’ع‘ کے طلسمی گورکھ دھندے میں ایسی الجھیں کہ حقیقت کی اصل صورت ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔”
انہوں نے سوچا کہ عمران، عثمان اور عارف جیسے نام ہی ان کی سلطنت کے ستون ہیں۔ مگر وہ یہ بھول گئیں کہ اقتدار کی بازی صرف زمینی تدبیروں سے نہیں جیتی جاتی، بلکہ اس میں فلک کے فیصلے، ستاروں کی گردش اور مہروں کی چال بھی شامل ہوتی ہے۔ تقدیر کا حساب اعداد کے پیچ و خم میں پوشیدہ رہتا ہے اور وہی حساب بالآخر اپنی پوری قوت کے ساتھ ظاہر ہو کر انسان کو حیران کر دیتا ہے۔
اسی تقدیر نے دکھایا کہ اصل صاحبِ “ع” وہ نہیں تھے جن پر بھروسہ کیا گیا، بلکہ وہ تھے جو پسِ پردہ تاریخ کے ورق پلٹ رہے تھے۔ وقت آیا، ستاروں نے اپنی روشنی ان پر مرکوز کی، مہروں نے ان کے حق میں گواہی دی اور فلک نے ان کے نام کی تسبیح پڑھنی شروع کی۔ یوں پردۂ غیب سے ایک شخصیت ابھری — عاصم!
عاصم — ایک ایسا نام جو صرف ایک حرف نہیں بلکہ ایک رمز ہے۔ وہ عاجزی میں ڈوبا ہوا، مگر عزم میں فولاد؛ وہ عقل میں گہرائی رکھنے والا، مگر دل میں شفقت سے لبریز؛ وہ فرد شناس، تاریخ آگاہ اور سیاست کے رموز سے باخبر۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں وہ صرف ایک جرنیل نہیں بلکہ حافظِ قرآن عاصم منیر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کے وجود میں بہادری بھی ہے، قوتِ فیصلہ بھی، اور ایک ایسا کردار بھی جو دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب قوم نے محسوس کیا کہ اصل محافظ وہی ہیں۔ جو دلوں کو تسخیر کر لیں، وہی اقتدار کے اصل فاتح ہوتے ہیں۔ عاصم منیر نے یہ ثابت کر دیا کہ تقدیر کے اعداد، ستاروں اور مہروں کا فیصلہ بھی ان کے ساتھ ہے، اور عوام کا اعتماد بھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ پاکستان فوج کے ہر دل عزیز سپہ سالار ہیں اور وقت کا لکھاری انہیں مستقبل کے ان دیکھے معجزوں کا امین لکھے  گا۔

ہمیشہ ذندہ باد




پاکستان خطے اور عالمی سیاست میں ایک ایسا ملک رہا ہے جو اکثر بڑے کھلاڑیوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان نے نہ صرف چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات قائم کرانے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا بلکہ بعد میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان صلح کاری میں بھی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
انیس سو ستر کی دہائی میں پاکستان نے اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن اور قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر کے ذریعے چین اور امریکہ کو قریب لانے میں کلیدی سہولت کاری کی۔ اسلام آباد ہی وہ مقام تھا جہاں سے کسنجر کا خفیہ دورۂ بیجنگ ممکن ہوا۔ اس اقدام نے عالمی سیاست کا دھارا بدل دیا اور سرد جنگ کے دور میں امریکہ–چین تعلقات کی بنیاد رکھی۔
اسی طرح پاکستان نے مشرقِ وسطیٰ میں بھی کردار ادا کیا۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے وقت پاکستان نے کئی بار ثالثی کی کوششیں کیں۔ اگرچہ 2023 میں باضابطہ مصالحت چین کی ثالثی سے ہوئی، لیکن اس عمل کی راہ ہموار کرنے میں پاکستان کے مستقل رابطے، سفارتی کوششیں اور بیک چینل بات چیت نمایاں رہی۔ پاکستان نے دونوں ممالک کو باور کرایا کہ علاقائی امن صرف باہمی تعلقات کے بہتر ہونے سے ممکن ہے۔
یوں پاکستان نے عالمی اور علاقائی سطح پر پل بنانے والا کردار ادا کیا ہے۔ ایک طرف اس نے دنیا کی دو بڑی طاقتوں، چین اور امریکہ، کو قریب لانے میں مدد کی اور دوسری طرف مسلم دنیا کے اہم ممالک، ایران اور سعودی عرب، کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں فعال سہولت کار ثابت ہوا۔ یہی کردار پاکستان کی سفارتی پہچان ہے اور 
یہی اس کی اصل قوت بھی۔
دس مئی کو پاکستان نے بھارت پر عسکری بالا دستی قائم کر کے اپنے عسکری کردار کو بھی ان ملکوں کے لیے 
قبل قبول بنوا لیا ہے جو غیروں کے کرادار کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ 
عشروں تک ہمارا نعرہ تھا پاکسان ذندہ باد۔ اب سفارتی اور عسکری کامیابوں کے بعد پاکستان کے بہادر بیٹے فیلڈ مارشل نے قوم کو بیا نعرہ دیا ہے "پاکستان ہمیشہ زندہ باد" ۔

جمعرات، 18 ستمبر، 2025

ہاتھی اور ابابیل




دنیا کی مختلف تہذیبوں میں ہاتھی کو ہمیشہ طاقت اور غلبے کی علامت سمجھا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس کا قد و قامت اور جنگی قوت ہے۔ بائبل میں بھی ہاتھیوں کا ذکر ملتا ہے، خاص طور پر سلوکی سلطنت کی افواج کے ضمن میں جہاں وہ جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ اسلامی تاریخ میں ہاتھیوں کا سب سے نمایاں ذکر سورۃ الفیل میں ملتا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے ابرہہ کے لشکر کو چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے نیست و نابود کر دیا۔ یمن کا حکمران ابرہہ خانہ کعبہ کو مسمار کرنے کے لیے ایک بڑے لشکر اور ہاتھیوں کے ساتھ مکہ کی طرف بڑھا۔ قرآن نے بتایا کہ اللہ نے پرندوں کے جھنڈ بھیجے جو کنکریاں برساتے اور اس بڑے لشکر کو کھائے ہوئے بھوسے کی مانند کر دیا۔ امام ابن کثیرؒ، امام طبریؒ اور دیگر مفسرین نے اس واقعے کی تفصیل بیان کی ہے اور اسے اللہ کی قدرت کی روشن دلیل قرار دیا ہے۔

آج کے دور میں اسرائیل کو بھی ایک بدمست ہاتھی سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ ریاست اپنی عسکری طاقت، ٹیکنالوجی اور پروپیگنڈہ کے ذریعے یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ ناقابلِ تسخیر ہے۔ جدید دفاعی نظام جیسے آئرن ڈوم اور امریکی حمایت یافتہ ٹیکنالوجی کے باوجود عسکری ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ہر دفاعی نظام کی ایک حد ہوتی ہے اور زیادہ دیر تک مسلسل دباؤ کے سامنے ٹک نہیں سکتا۔ اسرائیل کا یہ پروپیگنڈہ کہ وہ خطے میں ناقابل شکست ہے، حقیقت میں ایک فریب ہے جسے وقت اور حالات بے نقاب کر رہے ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ جیسے قدیم دور میں ابابیلوں نے ہاتھیوں کو شکست دی تھی، آج کے دور میں پاکستان کا تیار کردہ "ابابیل میزائل" اسرائیل جیسے ہاتھی کے لیے جدید جواب کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ یہ میزائل بیک وقت کئی وارہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دشمن کے دفاعی نظام کو ناکام بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اگر یہ میزائل سعودی عرب میں نصب ہوتا ہے تو خطے میں طاقت کا توازن بدل سکتا ہے اور اسرائیل کی برتری کا بھرم ٹوٹ سکتا ہے۔

جغرافیائی سیاست کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات کبھی قریب اور کبھی دور ہوتے رہے ہیں، لیکن خطے کے عوامی دباؤ اور بدلتے حالات یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ عرب دنیا اسرائیل کے ساتھ کھلے اتحاد کی طرف تیزی سے نہیں بڑھے گی۔ ایسے میں پاکستان جیسے ملک کی عسکری ٹیکنالوجی خطے میں ایک نئے توازن کو جنم دے سکتی ہے۔ اسرائیل جس غرور اور تکبر کے ساتھ اپنی عسکری طاقت پر نازاں ہے، تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس کا انجام بھی ان قوتوں کی طرح ہوگا جو اپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتی تھیں لیکن اللہ کے فیصلے کے آگے ڈھیر ہو گئیں۔

یہ واقعات ہمیں سبق دیتے ہیں کہ طاقت کا اصل سرچشمہ اللہ ہے۔ جو طاقت اس حقیقت کو بھول کر ظلم اور غرور میں ڈوب جائے، وہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔ ابرہہ کا لشکر فنا ہوا، فرعون اور نمرود مٹ گئے اور آج اسرائیل بھی اسی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس تاریخی تسلسل کو یاد رکھیں اور اللہ پر توکل کریں۔

اے اللہ! ہمیں اپنی تاریخ سے سبق لینے کی توفیق عطا فرما، ہمیں تکبر اور غرور سے محفوظ رکھ، امت مسلمہ کو اتحاد اور ہمت دے اور ہمیں یقین عطا فرما کہ مدد صرف تیری طرف سے ہے اور فتح قریب ہے۔ آمین۔


سعودی عرب – پاکستان دفاعی معاہدہ: حقیقت یا علامت؟



سعودی عرب – پاکستان دفاعی معاہدہ: حقیقت یا علامت؟

حال ہی میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ایک دفاعی معاہدہ طے پایا ہے جسے بعض مبصرین "نیٹو طرز کا باہمی دفاعی معاہدہ" قرار دے رہے ہیں۔ اس کے تحت اگر کسی ایک ملک پر حملہ کیا جائے تو اسے دونوں پر حملہ سمجھا جائے گا اور دونوں ممالک مشترکہ طور پر دفاع کریں گے۔ بظاہر یہ معاہدہ مسلم دنیا کے اتحاد کی علامت اور خطے میں ایک نئی حکمتِ عملی کی صورت میں سامنے آیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاہدہ عملی طور پر بھی اتنا ہی طاقتور ہوگا جتنا کاغذ پر دکھائی دیتا ہے؟

پاکستانی اور سعودی عوام کے ایک بڑے طبقے نے اس معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر متعدد پیغامات میں اسے وقت کی اہم ضرورت اور امتِ مسلمہ کے اتحاد کی طرف ایک بڑا قدم قرار دیا گیا۔ کئی صارفین نے جذباتی انداز میں کہا کہ اب اگر اسرائیل نے قطر یا سعودی عرب پر حملہ کیا تو پاکستان ایٹمی قوت ہونے کے ناطے فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ کچھ نے اسے "اسلامی دنیا کی بقا کا اعلان" قرار دیا، تو کچھ نے کہا کہ "پاکستان ہمیشہ سعودی عرب کے ساتھ کھڑا رہا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ یہ رشتہ مزید مضبوط کیا جائے۔"

تاہم، ایک دوسرا زاویہ زیادہ حقیقت پسندانہ ہے۔ ناقدین کے مطابق سعودی عرب ماضی میں ایسے معاہدوں کو ہمیشہ انتخابی انداز میں برتتا رہا ہے۔ پاک–بھارت تنازعات کے دوران ریاض کا کردار زیادہ تر ثالثی اور مالی امداد تک محدود رہا، عسکری مداخلت تک نہیں پہنچا۔ اس پس منظر میں امکان یہی ہے کہ اس بار بھی سعودی عرب علامتی حمایت تو دے گا لیکن عملی سطح پر عسکری شمولیت محدود رہے گی۔

معاشی پہلو اس معاہدے کی حقیقت کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔ سعودی عرب کے لیے بھارت ایک بڑی تجارتی منڈی اور سرمایہ کاری کا اہم ذریعہ ہے، جو پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ پرکشش ہے۔ اسی لیے مبصرین کا ماننا ہے کہ ریاض کی پالیسیاں زیادہ تر تیل کی منڈیوں، توانائی کے سودوں اور امریکہ و چین کے ساتھ تعلقات سے متاثر ہوں گی، نہ کہ کسی دفاعی معاہدے کے متن سے۔

کچھ تجزیہ نگاروں نے یہ بھی کہا کہ سعودی عرب ایسے معاہدوں کو بڑی طاقتوں کے ساتھ سودے بازی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یوں یہ معاہدہ ایک جانب پاکستان کے لیے سفارتی سہارا ہے، تو دوسری جانب سعودی عرب کے لیے ایک سفارتی کارڈ بھی ہے۔

بین الاقوامی میڈیا نے اس معاہدے کو مختلف زاویوں سے دیکھا۔ مغربی میڈیا نے اسے زیادہ تر ایک "سیاسی علامت" کے طور پر پیش کیا اور کہا کہ اس کا مقصد خطے میں سعودی اثرورسوخ بڑھانا اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں دباؤ ڈالنا ہے۔ کچھ یورپی تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس معاہدے سے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ اور کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب خلیجی میڈیا نے اسے "مسلم اتحاد کا سنگ میل" قرار دیا اور کہا کہ یہ معاہدہ اسلامی ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لا سکتا ہے۔ بھارتی میڈیا نے متوقع ردعمل دیتے ہوئے اسے جنوبی ایشیا کے لیے خطرہ قرار دیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان اس معاہدے کو بھارت کے خلاف سیاسی دباؤ کے طور پر استعمال کرے گا۔

پاکستانی عوام نے اس معاہدے کو اپنی قومی خود اعتمادی کی بحالی کے طور پر دیکھا ہے۔ ایک عام پاکستانی کے لیے یہ نہ صرف سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے وقار میں اضافہ بھی ہے۔ کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ معاشی بحران سے گزرنے والے پاکستان کے لیے یہ معاہدہ ایک نفسیاتی سہارا ہے، جو عوام کو یہ احساس دلاتا ہے کہ ملک اب بھی خطے میں ایک اہم کھلاڑی ہے۔
تنقید اور بدگمانی

کچھ حلقوں نے سعودی پالیسیوں اور ماضی کے کردار پر بھی سوال اٹھایا۔ وہابی ازم کے ذریعے انتہا پسندی کے فروغ کا ذکر کیا گیا اور کہا گیا کہ سعودی عرب دوبارہ ایک "شدید مذہبی دور" کی طرف جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بدگمانی بھی ظاہر کی گئی کہ اگر مستقبل میں اسرائیل سعودی اثاثوں کو نشانہ بنائے یا بھارت پاکستان پر حملہ کرے تو یہ شراکت داری کھوکھلی ثابت ہو سکتی ہے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ معاہدہ ایک اہم علامت ضرور ہے۔ پاکستان کے لیے یہ سفارتی کامیابی اور اندرونی معاشی دباؤ کے دنوں میں حوصلہ افزا پیش رفت ہے، جبکہ سعودی عرب کے لیے یہ پیغام ہے کہ وہ اپنی سلامتی کے لیے امریکہ کے سائے سے نکل کر نئے راستے تلاش کر رہا ہے۔ تاہم اس معاہدے کا حقیقی امتحان تب ہوگا جب خطے میں کسی بحران کی صورت پیدا ہوگی۔

فی الحال یہ معاہدہ زیادہ تر علامتی اہمیت رکھتا ہے، لیکن اگر خطے میں حالات بگڑتے ہیں تو اس کی عملی حیثیت سامنے آئے گی۔ تاریخ کے تناظر اور موجودہ عالمی سیاست کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ معاہدہ سفارتی انشورنس اور طاقت کے کھیل کا حصہ ہے — اتحاد کی ایک پراثر علامت، مگر مشروط حقیقت۔


نیا پاکستان



نیا پاکستان

گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان نے عالمی سطح پر جو کامیابیاں سمیٹی ہیں، وہ نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر میں اس کی اہمیت کو نئی جہتوں سے اجاگر کر رہی ہیں۔ آج ایران سے لے کر ملائشیا تک، اور سعودی عرب سے ترکی تک، ہر جگہ پاکستان کے ذکر میں عزت اور اعتماد جھلکتا ہے۔

ایران کے گلی کوچوں میں "تشکر پاکستان" کے نغمے گونج رہے ہیں، تو سعودی عرب کے ایوانوں میں "انا الباکستان ما فی خوف" کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ چین میں پاکستان کو اسی سالہ تقریبات کا خصوصی مہمان بنایا جانا، بیجنگ کے ساتھ تعلقات کی گہرائی اور اسٹریٹجک اعتماد کا عکاس ہے۔ آذربائیجان کی گلیوں میں "دل دل پاکستان" کے ترانے سنائی دیتے ہیں اور ترکی کے ساتھ دفاعی تعلقات تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔

امریکہ میں پاکستان نے وہائٹ ہاؤس تک اپنا اثرورسوخ منوا لیا ہے۔ جنگ بندی کی امریکی درخواست قبول کر کے پاکستان نے نہ صرف واشنگٹن کے ساتھ سفارتی تعلقات میں نیا رخ پیدا کیا بلکہ یہ باور کرایا کہ پاکستان اب عالمی فیصلوں میں ایک مرکزی کردار ادا کر سکتا ہے۔ دوسری جانب روس اور وسطی ایشیائی ریاستیں بھی 10 مئی کے بعد پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے لگی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام آباد خطے میں ایک متحرک طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے۔

پاکستان کی سفارتی کامیابیوں میں ایک اور بڑا قدم آرمینیا کو چونتیس برس بعد بطور خودمختار ریاست تسلیم کرنا ہے، جس نے قفقاز کے خطے میں نئی راہیں کھول دی ہیں۔ افریقہ میں نائیجیریا پاکستان سے جہاز اور اسلحہ خرید رہا ہے، جو پاکستان کی دفاعی صنعت پر بڑھتے ہوئے اعتماد کا واضح اظہار ہے۔

مشرقی بعید کے ممالک، بشمول ملائشیا اور انڈونیشیا، پاکستان کے جرات مندانہ مؤقف کو عزت و پذیرائی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ دوسری طرف بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات ایک تاریخی بلندی پر پہنچ گئے ہیں۔ عوامی سطح پر ہمدردی اور حکومتی سطح پر اعتماد نے بھارت نواز لابیوں کو وہاں کمزور کر دیا ہے۔ 10 مئی کی جنگ کے دوران بنگلہ دیشی اور نیپالی عوام کی مکمل ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ رہیں، جس نے جنوبی ایشیا میں ایک نیا بیانیہ تشکیل دیا۔

آج پاکستان ایک نئے مقام پر کھڑا ہے—جہاں دنیا اسے صرف ایک ریاست نہیں بلکہ ایک مضبوط سفارتی اور عسکری حقیقت کے طور پر تسلیم کر رہی ہے۔ ایران سے لے کر ترکی تک، خلیج سے لے کر وسطی ایشیا تک، اور مشرق بعید سے لے کر افریقہ تک، پاکستان کے پرچم تلے اتحاد اور اعتماد کی ایک نئی دنیا جنم لے رہی ہے