پاکستان میں مذہبیت کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد اگر ہم اسے دوسرے مسلم ممالک کے ساتھ تقابلی تناظر میں دیکھیں تو یہ تضادات اور بھی نمایاں ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں چار لاکھ سے زائد مساجد اور تیس سے پینتیس ہزار مدارس کی موجودگی کو دین سے قربت کا انعام سمجھا جا سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود معاشرہ اخلاقی و سماجی انحطاط کا شکار ہے۔
مثال کے طور پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک میں مذہبی علامات بھی موجود ہیں، لیکن ساتھ ہی ریاستی سطح پر قوانین کی سختی اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ سڑکوں پر نظم و ضبط، لین کا احترام اور سماجی انصاف کی فراہمی عام زندگی میں دکھائی دیتی ہے۔ وہاں کے معاشرتی ڈھانچے نے مذہبیت کو صرف رسومات تک محدود نہیں رکھا بلکہ عملی سطح پر قانون اور اخلاقیات کو مضبوطی سے قائم کیا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں مذہبی رسومات کی کثرت تو نظر آتی ہے لیکن ان کے اثرات روزمرہ زندگی میں نہیں جھلکتے۔
ترکی کی مثال بھی یہاں قابلِ ذکر ہے۔ وہاں جدیدیت اور مذہبیت کے امتزاج نے ایک ایسا معاشرتی ماڈل تشکیل دیا ہے جہاں مذہب کو انفرادی زندگی کا حصہ بنایا گیا ہے مگر ریاستی ادارے بنیادی طور پر قانون اور انصاف کی بنیاد پر چلتے ہیں۔ اس ماڈل نے وہاں کرپشن اور سماجی بے نظمی کو ایک حد تک محدود رکھا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں تضادات کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مذہبی ادارے اور مظاہر تو بڑھتے جا رہے ہیں مگر ساحل جیسی تنظیموں کی رپورٹیں سالانہ ہزاروں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز سامنے لا رہی ہیں۔ اسی طرح خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی اور کرپشن کے اعداد و شمار عالمی سطح پر پاکستان کو ایک پسماندہ تصویر میں پیش کرتے ہیں۔
یہ سوال مزید شدت اختیار کر لیتا ہے کہ کیا ہم واقعی دین کے قریب ہیں یا دین سے دور؟ اگر قربت صرف مساجد اور مدارس کی تعداد سے ناپی جائے تو شاید ہم دنیا کے سب سے مذہبی معاشروں میں شامل ہوں۔ لیکن اگر معیار قرآن و سنت کے مطابق اعمال، اخلاق، عدل اور انصاف ہے تو پھر ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہمارے اعمال ہمیں دین سے قریب نہیں بلکہ دین سے دور کر رہے ہیں۔
یوں بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اصل دین داری کا معیار ظاہری مذہبیت نہیں بلکہ قانون، انصاف اور اخلاقیات کا عملی نفاذ ہے۔ جب تک یہ پہلو ہمارے معاشرے میں مضبوط نہیں ہوتے، ہم صرف دعووں اور رسومات کی سطح پر مذہبیت کے قائل رہیں گے مگر حقیقی دین سے دوری ہمارا مقدر بنی رہے گی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں