ہفتہ، 13 ستمبر، 2025

خاموش خطرہ




خاموش خطرہ:

بھارتی برادری کو دنیا کی سب سے بڑی اور محنتی کمیونٹی مانا جاتا ہے، جس نے خلیجی ممالک کی تعمیر، ٹیکنالوجی، تجارت اور سکیورٹی جیسے شعبوں میں دہائیوں تک نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ سعودی عرب اور عمان کی مزدوری منڈی ہو یا متحدہ عرب امارات اور قطر کی ٹیکنالوجی و مالیاتی صنعت، بھارتی کارکن ہمیشہ ترقی اور استحکام کا حصہ رہے ہیں۔ مگر اس تعاون کے ساتھ ایک پوشیدہ خطرہ بھی جنم لے رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ کمیونٹی سیاسی یا نظریاتی طور پر استعمال ہو جائے تو کیا یہ میزبان معاشروں کے لیے مسائل کھڑے کر سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس کا جواب اب زیادہ تر اثبات میں دیا جا رہا ہے۔

بھارت کی موجودہ حکومت اور اس کی نظریاتی تنظیمیں ہندو قوم پرستی کو شدت پسندی کی شکل میں دنیا بھر میں پھیلا رہی ہیں۔ اس کا اثر خلیج میں مقیم بھارتی برادری پر بھی پڑ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر اسلام مخالف اور اسرائیل نواز بیانیہ پھیلانا اسی رجحان کا مظہر ہے۔ 2020 میں متحدہ عرب امارات نے ایسے کئی بھارتی شہری ملک بدر کیے جنہوں نے مسلمانوں اور عربوں کے خلاف نفرت انگیز مواد شائع کیا تھا۔ کچھ بھارتی ڈاکٹر اور انجینئر بھی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ رویہ نہ صرف خلیجی معاشروں کی مذہبی حساسیت کے خلاف ہے بلکہ فلسطین کے مسئلے پر خلیج کے تاریخی موقف کو بھی متاثر کرنے کی کوشش ہے۔

خطرہ صرف فرقہ وارانہ مواد تک محدود نہیں۔ خلیج میں بھارتی کمیونٹی کے کچھ افراد حساس اداروں میں ملازمت کرتے ہیں، جیسے بندرگاہوں، سکیورٹی یا آئی ٹی کے شعبے۔ خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ افراد معلومات نئی دہلی یا اس کے اتحادیوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ ایران نے اس حوالے سے پہلے ہی شکوک ظاہر کیے تھے، اور خلیجی ریاستوں میں بھی ایسے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ یہ رویہ براہِ راست میزبان ملک کی خودمختاری اور داخلی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بھارتی برادری کے بعض افراد کا کردار بھی تشویشناک ہے۔ غزہ پر اسرائیلی حملوں کے دوران دبئی اور دوحہ میں مقیم بھارتی صارفین نے پرو اسرائیل بیانیہ پھیلایا جس پر عوامی سطح پر سخت ردعمل سامنے آیا۔ اس طرح کے اقدامات خلیجی ممالک کی متوازن خارجہ پالیسی اور داخلی ہم آہنگی کو متاثر کر سکتے ہیں۔

آنے والے دنوں میں یہ خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ فلسطین کے حق میں کھڑے ممالک جیسے کویت اور قطر زیادہ دباؤ میں آ سکتے ہیں، ایران اور اسرائیل کی کشیدگی میں بھارتی کارکن مشکوک یا ہدف بن سکتے ہیں، اور اگر خلیجی ممالک نے اسلام مخالف رویوں کے خلاف سخت قوانین بنائے تو سب سے زیادہ اثر بھارتی کمیونٹی پر پڑے گا۔

بھارتی برادری نے ہمیشہ خلیجی ممالک کے لیے ترقی اور تنوع کا ذریعہ فراہم کیا ہے۔ لیکن اگر ہندوتوا نظریہ اور خفیہ سرگرمیاں بے قابو ہو گئیں تو یہی برادری استحکام کے بجائے عدم استحکام کا سبب بن سکتی ہے۔ خلیجی ممالک کو چاہیے کہ وہ بھارتی کارکنوں کی محنت سے ضرور فائدہ اٹھائیں مگر سیاسی، فرقہ وارانہ اور جاسوسی سرگرمیوں پر سخت پابندیاں لگائیں۔ بھارت کو بھی سمجھنا ہوگا کہ تارکینِ وطن کی سفارت کاری کو انتہا ۔پسندی کا آلہ نہیں بنایا جا سکتا

کوئی تبصرے نہیں: