پیر، 22 ستمبر، 2025

ابن سیرینؒ — خوابوں کا عالم، سچائی کا چراغ






 ابن سیرینؒ — خوابوں کا عالم، سچائی کا چراغ

کسی بھی معاشرے میں علم کی روشنی بکھیرنے والے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک درخشاں ستارے کا نام ہے محمد بن سیرینؒ، جنہیں دنیا آج بھی علمِ تعبیرِ خواب کا امام مانتی ہے۔ ان کی شخصیت محض خوابوں کی تعبیر تک محدود نہیں تھی، بلکہ ان کی زندگی علم، تقویٰ، دیانت اور سچائی کی لازوال مثال تھی۔

ابن سیرینؒ کا اصل نام محمد بن سیرین تھا۔ ان کی پیدائش 33 ہجری میں عراق کے مشہور شہر بصرہ میں ہوئی۔ ان کے والد سیرینؒ حضرت انس بن مالکؓ کے آزاد کردہ غلام تھے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص  ہے۔ اس نسبت نے ابن سیرینؒ کے گھرانے کو دین و علم کی خوشبو سے معطر رکھا۔
ان کی والدہ ایک نیک، عبادت گزار اور متقی خاتون تھیں۔ ایسی پرورش میں ابن سیرینؒ کی شخصیت میں دیانت، سچائی، علم اور حلم کی بنیاد بچپن ہی سے رکھ دی گئی تھی۔

ابن سیرینؒ نے ابتدائی تعلیم بصرہ میں حاصل کی، مگر ان کا دل علم کی پیاس بجھانے کو مزید بڑے علماء اور صحابہ کرامؓ کی تلاش میں لگا رہا۔ انہوں نے دورِ تابعین میں ایسے جلیل القدر صحابہ کرام سے براہِ راست فیض حاصل کیا جن کے علم اور عمل کی دنیا معترف ہے، جیسے:
حضرت انس بن مالکؓ
حضرت ابن عباسؓ
حضرت عبداللہ بن عمرؓ
حضرت ابوہریرہؓ
ابن سیرینؒ نے صرف حدیث و فقہ ہی نہیں، بلکہ اخلاقیات، زہد و تقویٰ اور معاشرتی اصلاح میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔

اگر ابن سیرینؒ کا نام لیا جائے تو سب سے پہلا حوالہ علمِ تعبیرِ خواب کا ذہن میں آتا ہے۔ انہوں نے اس علم میں ایسی مہارت حاصل کی جو صدیوں میں کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ ان کی تعبیریں صرف خواب کی ظاہری شکل پر مبنی نہ تھیں، بلکہ وہ انسان کی شخصیت، نیت، حالات اور وقت کو مدنظر رکھتے تھے۔
مشہور کتاب "تعبیر الرؤیا" میں منسوب ان کی تعبیریں آج بھی دنیا بھر میں حوالہ مانی جاتی ہیں۔ ان کا یہ علم صرف ظاہری بصیرت نہیں بلکہ دینی فہم، قرآن، حدیث اور حضرت یوسفؑ کے علم تعبیر کی عملی مثال ہے۔

ابن سیرینؒ کی زندگی زہد، عبادت اور تقویٰ سے بھرپور تھی۔ وہ سچ بولنے، وعدہ نبھانے اور امانت داری میں بے مثال تھے۔ ایک واقعہ مشہور ہے کہ انہوں نے کسی کا مال بطور امانت لیا، بعد میں اس مال کی واپسی میں رکاوٹ آئی، حتیٰ کہ ابن سیرینؒ کو قید کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، مگر انہوں نے امانت میں خیانت نہ کی۔
وہ کاروبار بھی کرتے تھے، مگر ان کے کاروبار کی بنیاد دیانت اور اللہ پر توکل تھی۔ ناپ تول میں کمی، دھوکہ، جھوٹ یا فریب سے انہیں سخت نفرت تھی۔

ابن سیرینؒ دن کو علم میں مصروف رہتے، راتوں کو عبادت میں مگن رہتے تھے۔ وہ دنیا کی زیب و زینت سے زیادہ آخرت کی تیاری کو اہم سمجھتے تھے۔ ان کے تقویٰ اور عاجزی کی یہ حالت تھی کہ ان کی محفل میں بیٹھنے والے دین اور علم کی خوشبو میں ڈوب جاتے تھے۔

ابن سیرینؒ کا ایک قول آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے:
"جو شخص اپنے وعدے کا پاس نہیں رکھتا، وہ ایمان کے دائرے سے باہر جا سکتا ہے۔"
انہوں نے ہمیشہ سچ، دیانت اور علم کی تلقین کی اور کہا کہ خواب کی تعبیر دینا کھیل نہیں بلکہ علم، تقویٰ اور فہم کا امتحان ہے۔

ابن سیرینؒ کی وفات 110 ہجری میں بصرہ میں ہوئی۔ ان کی وفات علم، تقویٰ اور حکمت کی دنیا میں ایک بڑا خلا چھوڑ گئی۔ مگر آج بھی دنیا بھر میں ان کی تعبیریں، اقوال اور کردار زندہ ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں: