پیر، 15 ستمبر، 2025

صیہونی نظریہ اور فلسطینی شناخت کا خاتمہ

صیہونی نظریہ اور فلسطینی شناخت کا خاتمہ
فلسطین کی زمین پر اسرائیل کا قیام محض ایک سیاسی منصوبہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی مہم تھی، جسے "صیہونیت" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس نظریے کی جڑیں مذہب، نسل، سیاست اور استعمار کے گٹھ جوڑ میں پیوست ہیں۔ صیہونی منصوبہ محض ایک یہودی ریاست کا قیام نہیں بلکہ ایک ایسے پورے معاشرے کو مٹانے کی کوشش ہے جو صدیوں سے فلسطین میں رچ بس چکا تھا — زبان، ثقافت، زمین، تاریخ، مذہب اور شناخت سمیت۔
صیہونی تحریک کی بنیاد انیسویں صدی کے اواخر میں تھیوڈور ہرزل نے رکھی۔ اس کا ابتدائی ہدف صرف فلسطین میں یہودی وطن کا قیام تھا، لیکن رفتہ رفتہ یہ ایک توسیع پسندانہ منصوبے میں ڈھل گیا۔ برطانیہ کی سرپرستی میں 1917 کا بالفور اعلامیہ اور 1948 میں اسرائیل کا قیام اسی منصوبے کا حصہ تھے۔ فلسطینیوں کی سرزمین پر ایک الگ قوم کی بنیاد رکھنے کے لیے، مقامی آبادی کی زمینیں چھینی گئیں، گاؤں جلائے گئے، اور لاکھوں افراد کو زبردستی بے دخل کیا گیا — جسے فلسطینی "نقبہ" یعنی تباہی کہتے ہیں۔
صیہونی نظریے کی سب سے خطرناک شکل وہ ہے جو شناخت کے خلاف ہے۔ فلسطینیوں کی زبان عربی، ان کی تاریخ، ان کے شہروں کے نام، حتیٰ کہ ان کی کھانوں اور ملبوسات کو بھی صیہونی ثقافت میں ضم کرنے کی شعوری کوشش کی گئی۔ یافا کے سنترے، القدس کی زیتون کی شاخیں، نابلس کی کُنافہ — یہ سب کچھ اب اسرائیلی شناخت میں ضم کرنے کی مہم کا حصہ ہے۔

اسرائیلی نصاب میں فلسطینی وجود کو سرے سے تسلیم نہیں کیا جاتا۔ فلسطینی بچوں کی کتابوں سے ان کی تاریخ مٹا دی گئی، دیہات کے نام بدلے گئے، حتیٰ کہ قبرستانوں پر بھی اسرائیلی بستیاں کھڑی کر دی گئیں۔ یہ سب کچھ ایک نسل کو ان کی جڑوں سے کاٹنے کے لیے کیا گیا تاکہ آنے والے وقت میں فلسطینی وجود ایک "ماضی کی کہانی" بن جائے۔
عالمی خاموشی اور مغربی حمایت

فلسطینی شناخت کے خلاف یہ جنگ صرف اسرائیل نہیں لڑ رہا۔ مغربی میڈیا، تعلیمی ادارے، اور سیاسی طاقتیں اس بیانیے کو پھیلا رہی ہیں کہ فلسطینی دہشت گرد ہیں اور اسرائیل ایک مظلوم ریاست ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا ہے، اور جو فلسطینی اپنی شناخت بچانے کے لیے مزاحمت کرتے ہیں، انہیں دہشت گرد کہا جاتا ہے۔
فلسطینی مزاحمت: شناخت کا دفاع

اس سب کے باوجود فلسطینی عوام، خواہ وہ غزہ میں ہوں یا مغربی کنارے میں، اپنی شناخت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ان کے گیت، ان کی شاعری، ان کا لباس اور ان کی یادگاریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ مٹنے والے نہیں۔ محمود درویش جیسے شاعر، غسان کنفانی جیسے ادیب، اور شیخ جراح کے رہائشی — سب شناخت کی بقاء کی علامت ہیں۔

صیہونی نظریہ، درحقیقت، ایک استعماری ذہنیت کی جدید شکل ہے جس کا ہدف صرف زمین پر قبضہ نہیں بلکہ ایک قوم کی روح، اس کی شناخت، اس کا ماضی اور اس کا مستقبل چھیننا ہے۔ لیکن یہ نظریہ جتنا بھی طاقتور ہو، وہ ایک زندہ قوم کی مزاحمت اور اس کے عزم کو کبھی مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتا۔


کوئی تبصرے نہیں: