سعودی عرب – پاکستان دفاعی معاہدہ: حقیقت یا علامت؟
حال ہی میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ایک دفاعی معاہدہ طے پایا ہے جسے بعض مبصرین "نیٹو طرز کا باہمی دفاعی معاہدہ" قرار دے رہے ہیں۔ اس کے تحت اگر کسی ایک ملک پر حملہ کیا جائے تو اسے دونوں پر حملہ سمجھا جائے گا اور دونوں ممالک مشترکہ طور پر دفاع کریں گے۔ بظاہر یہ معاہدہ مسلم دنیا کے اتحاد کی علامت اور خطے میں ایک نئی حکمتِ عملی کی صورت میں سامنے آیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاہدہ عملی طور پر بھی اتنا ہی طاقتور ہوگا جتنا کاغذ پر دکھائی دیتا ہے؟
پاکستانی اور سعودی عوام کے ایک بڑے طبقے نے اس معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر متعدد پیغامات میں اسے وقت کی اہم ضرورت اور امتِ مسلمہ کے اتحاد کی طرف ایک بڑا قدم قرار دیا گیا۔ کئی صارفین نے جذباتی انداز میں کہا کہ اب اگر اسرائیل نے قطر یا سعودی عرب پر حملہ کیا تو پاکستان ایٹمی قوت ہونے کے ناطے فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ کچھ نے اسے "اسلامی دنیا کی بقا کا اعلان" قرار دیا، تو کچھ نے کہا کہ "پاکستان ہمیشہ سعودی عرب کے ساتھ کھڑا رہا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ یہ رشتہ مزید مضبوط کیا جائے۔"
تاہم، ایک دوسرا زاویہ زیادہ حقیقت پسندانہ ہے۔ ناقدین کے مطابق سعودی عرب ماضی میں ایسے معاہدوں کو ہمیشہ انتخابی انداز میں برتتا رہا ہے۔ پاک–بھارت تنازعات کے دوران ریاض کا کردار زیادہ تر ثالثی اور مالی امداد تک محدود رہا، عسکری مداخلت تک نہیں پہنچا۔ اس پس منظر میں امکان یہی ہے کہ اس بار بھی سعودی عرب علامتی حمایت تو دے گا لیکن عملی سطح پر عسکری شمولیت محدود رہے گی۔
معاشی پہلو اس معاہدے کی حقیقت کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔ سعودی عرب کے لیے بھارت ایک بڑی تجارتی منڈی اور سرمایہ کاری کا اہم ذریعہ ہے، جو پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ پرکشش ہے۔ اسی لیے مبصرین کا ماننا ہے کہ ریاض کی پالیسیاں زیادہ تر تیل کی منڈیوں، توانائی کے سودوں اور امریکہ و چین کے ساتھ تعلقات سے متاثر ہوں گی، نہ کہ کسی دفاعی معاہدے کے متن سے۔
کچھ تجزیہ نگاروں نے یہ بھی کہا کہ سعودی عرب ایسے معاہدوں کو بڑی طاقتوں کے ساتھ سودے بازی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یوں یہ معاہدہ ایک جانب پاکستان کے لیے سفارتی سہارا ہے، تو دوسری جانب سعودی عرب کے لیے ایک سفارتی کارڈ بھی ہے۔
بین الاقوامی میڈیا نے اس معاہدے کو مختلف زاویوں سے دیکھا۔ مغربی میڈیا نے اسے زیادہ تر ایک "سیاسی علامت" کے طور پر پیش کیا اور کہا کہ اس کا مقصد خطے میں سعودی اثرورسوخ بڑھانا اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں دباؤ ڈالنا ہے۔ کچھ یورپی تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس معاہدے سے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ اور کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب خلیجی میڈیا نے اسے "مسلم اتحاد کا سنگ میل" قرار دیا اور کہا کہ یہ معاہدہ اسلامی ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لا سکتا ہے۔ بھارتی میڈیا نے متوقع ردعمل دیتے ہوئے اسے جنوبی ایشیا کے لیے خطرہ قرار دیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان اس معاہدے کو بھارت کے خلاف سیاسی دباؤ کے طور پر استعمال کرے گا۔
پاکستانی عوام نے اس معاہدے کو اپنی قومی خود اعتمادی کی بحالی کے طور پر دیکھا ہے۔ ایک عام پاکستانی کے لیے یہ نہ صرف سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے وقار میں اضافہ بھی ہے۔ کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ معاشی بحران سے گزرنے والے پاکستان کے لیے یہ معاہدہ ایک نفسیاتی سہارا ہے، جو عوام کو یہ احساس دلاتا ہے کہ ملک اب بھی خطے میں ایک اہم کھلاڑی ہے۔
تنقید اور بدگمانی
کچھ حلقوں نے سعودی پالیسیوں اور ماضی کے کردار پر بھی سوال اٹھایا۔ وہابی ازم کے ذریعے انتہا پسندی کے فروغ کا ذکر کیا گیا اور کہا گیا کہ سعودی عرب دوبارہ ایک "شدید مذہبی دور" کی طرف جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بدگمانی بھی ظاہر کی گئی کہ اگر مستقبل میں اسرائیل سعودی اثاثوں کو نشانہ بنائے یا بھارت پاکستان پر حملہ کرے تو یہ شراکت داری کھوکھلی ثابت ہو سکتی ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ معاہدہ ایک اہم علامت ضرور ہے۔ پاکستان کے لیے یہ سفارتی کامیابی اور اندرونی معاشی دباؤ کے دنوں میں حوصلہ افزا پیش رفت ہے، جبکہ سعودی عرب کے لیے یہ پیغام ہے کہ وہ اپنی سلامتی کے لیے امریکہ کے سائے سے نکل کر نئے راستے تلاش کر رہا ہے۔ تاہم اس معاہدے کا حقیقی امتحان تب ہوگا جب خطے میں کسی بحران کی صورت پیدا ہوگی۔
فی الحال یہ معاہدہ زیادہ تر علامتی اہمیت رکھتا ہے، لیکن اگر خطے میں حالات بگڑتے ہیں تو اس کی عملی حیثیت سامنے آئے گی۔ تاریخ کے تناظر اور موجودہ عالمی سیاست کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ معاہدہ سفارتی انشورنس اور طاقت کے کھیل کا حصہ ہے — اتحاد کی ایک پراثر علامت، مگر مشروط حقیقت۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں