جنات اور ان کی طویل العمری صدیوں سے انسانی تجسس کا حصہ رہی ہے۔ قرآنِ کریم میں جنات کی تخلیق اور ان کی پوشیدہ زندگی کا ذکر تو ہے، مگر ان کی عمروں کی حد بندی کے بارے میں کوئی صریح بات نہیں ملتی۔ البتہ عوامی قصوں، صوفی حلقوں اور بزرگوں کی محفلوں میں جنات کی ہزاروں سالہ عمروں کے قصے اکثر سننے کو ملتے ہیں۔
انہی حکایات میں ابلیس کی نسل سے تعلق رکھنے والے ہامہ بن ہیم بن لاقیس بن ابلیس کا ذکر بھی ملتا ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت نوح علیہ السلام کے دور میں زندہ تھا، کئی انبیائے کرام کی صحبت میں شامل رہا، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں اس نے بارگاہِ رسالت میں سلام پیش کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ البتہ ان باتوں کی کوئی شرعی یا تاریخی حیثیت نہیں، یہ محض صوفیانہ روایات اور عوامی قصے ہیں۔
ایسا ہی ایک دلچسپ قصہ چند دن پہلے ہمارے ساتھ بھی پیش آیا، جو کسی حکایت سے کم نہ تھا۔
راولپنڈی صدر کا علاقہ ویسے جدید طرز کی عمارتوں اور ماڈرن دکانوں سے بھرا ہوا ہے، لیکن اسی صدر میں ایک صاف ستھرا، جدید طرز کا کافی شاپ نما چائے خانہ بھی ہے، جس کا ماحول کسی بڑے شہر کی کافی شاپ جیسا تھا۔ شیشے کی بڑی بڑی کھڑکیاں، سفید اور گہرے سرمئی رنگ کی جدید فرنیچر، ایل ای ڈی لائٹس کی مدھم روشنی، میز پر رکھے خوبصورت مینو کارڈز، اور پیش خدمت عملہ انتہائی مہذب اور یونیفارم میں ملبوس۔ یہاں بیٹھ کر چائے پینا کسی پنج ستارہ ہوٹل کی کیفے میں بیٹھنے کا احساس دلاتا ہے۔
میں اور میرا بچپن کا دوست ناضر اس ہوٹل میں اکثر گپ شپ کے لیے بیٹھتے ہیں۔ اس دن بھی ہم حسبِ معمول چائے اور بسکٹ منگوا کر ملکی سیاست سے لے کر راولپنڈی کی پرانی کہانیوں تک ہر موضوع پر بات کر رہے تھے کہ اچانک دروازے سے ایک شخص داخل ہوا۔
لمبا قد، دبلا پتلا جسم، صاف ستھرا لباس، کندھے پر سفید چادر، ہاتھ میں سیاہ رنگ کی نفیس تسبیح، اور آنکھوں میں عجیب سا ٹھہراؤ اور گہرا اعتماد۔ انداز ایسا جیسے کوئی پڑھا لکھا، سلجھا ہوا صوفی ہو۔
اس نے خاموشی سے بھرے ہوئے ہال کا جاہزہ لیا۔ ہماری میز پر دو کرسیاں خالی تھیں ۔ ناصر کو سلام کر کے اور بیٹھنے کی اجازت لے کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر خاموش رہا، پھر ناضر نے خود ہی پہل کی، "جناب، آپ کا تعلق بھی ملتان سے ہے؟ لہجہ کچھ ایسا لگ رہا ہے۔"
وہ مسکرایا، تسبیح کے دانے آہستہ آہستہ گھماتے ہوئے بولا، "جی، میرا تعلق ملتان سے ہے۔ بس راولپنڈی کے ٹنچ بھاٹہ جا رہا ہوں۔ کسی پر جن کا سایہ ہے، علاج کرنا ہے۔"
ناضر کے چہرے پر دلچسپی بڑھ گئی۔ میں بھی چونکا، کیونکہ ٹنچ بھاٹہ کی ایسی کہانیاں ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں۔
بات چیت آگے بڑھی تو ملتانی عامل نے بڑے سکون اور اعتماد سے کہا، "میرے قبضے میں ایک ایسا جن ہے جس کی عمر دو ہزار سال سے زیادہ ہے۔"
ناضر نے جھٹ سے سوال داغ دیا، "دو ہزار سال؟ واہ بھئی! اتنی عمر میں تو اس نے آدھی دنیا گھوم لی ہو گی۔ بتاؤ، اس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی ہے یا نہیں؟"
ملتانی عامل نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، "اس جن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ضرور سنا تھا، مگر اس وقت مسلمان نہیں ہوا تھا، اور نہ ہی ملاقات ہوئی تھی۔ بعد میں ایمان لایا۔ اب میرا مددگار ہے، جہاں بلاؤں، آ جاتا ہے۔"
ہم دونوں چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گئے۔ ماحول میں ایک عجب سنجیدگی چھا گئی تھی۔ سچ جھوٹ اپنی جگہ، مگر ملتانی عامل کے انداز میں اتنا وقار اور ٹھہراؤ تھا کہ بات کو مذاق میں اڑا دینا مشکل لگ رہا تھا۔
چائے ختم ہوئی، ملتانی عامل اٹھا، شائستگی سے سلام کیا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ باہر کی ہوا کے ساتھ اس کی سفید چادر لہرا رہی تھی۔ ناضر نے میری طرف دیکھ کر آہستہ سے کہا، "یار، بندہ سچا تھا یا جھوٹا، مگر کہانی زبردست ہے!"
میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "پنڈی صدر میں نہ بیٹھو تو زندگی کی رنگینیوں کا اندازہ نہیں ہوتا۔ اب جن کا علاج بھی ٹنچ بھاٹہ میں ہوتا ہے۔"
چائے کی خالی پیالیوں کے درمیان، ملتانی عامل کی باتیں اور جنات کی طویل العمری کی حکایتیں، سب ذہن میں گردش کرنے لگیں۔ اصل حقیقت کیا ہے، کون جانے؟ بس یہی سمجھ آیا کہ قصہ ہو یا حقیقت، عقیدے اور کہانی کے درمیان فرق رکھنا ہی دانشمندی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں