منگل، 9 ستمبر، 2025

فرانسیسی وزیرِاعظم کی سبکدوشی اور فلسطین


فرانسیسی وزیرِاعظم کی سبکدوشی اور فلسطین

فرانسیسی سیاست ایک بار پھر ہلچل کا شکار ہے۔ وزیرِاعظم کے اچانک استعفے نے صدر ایمانوئل میکرون کو نہ صرف اندرونی دباؤ کا سامنا کروا دیا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ان کے فیصلوں کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ یہ استعفیٰ ایسے وقت میں آیا ہے جب میکرون نے ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے—ایک ایسا اعلان جو مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں زلزلے کے مترادف ہے۔

میکرون کے نزدیک دو ریاستی حل ہی اسرائیل-فلسطین تنازع کا واحد راستہ ہے۔ وہ اسے صرف انصاف نہیں بلکہ اسرائیل کے لیے سلامتی کا راستہ بھی قرار دیتے ہیں۔ درحقیقت، یہ اعلان یورپ کی خودمختاری کو اجاگر کرتا ہے، گویا فرانس یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ امریکی پالیسی کا محض پیروکار نہیں رہا۔

اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے اس فیصلے کو سختی سے رد کر دیا ہے۔ ان کے مطابق فلسطینی ’’ساتھ رہنے نہیں بلکہ جگہ لینے‘‘ کے خواہاں ہیں۔ اس مؤقف کے پیچھے اسرائیلی لابی کا وہ دباؤ ہے جو یورپ اور امریکہ دونوں میں موجود ہے اور ہر اُس ملک کے خلاف استعمال ہوتا ہے جو فلسطینی ریاست کی حمایت کرے۔
امریکہ اور برطانیہ دونوں زبانی طور پر دو ریاستی حل کے حامی ہیں، مگر عملی سیاست میں اسرائیل ہی کو فوقیت دیتے ہیں۔ امریکہ اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ میں اپنا سب سے بڑا اتحادی سمجھتا ہے جبکہ برطانیہ واشنگٹن کے ساتھ قدم ملانے میں ہی عافیت جانتا ہے۔ اس تناظر میں فرانس کا اعلان ایک جرات مندانہ قدم ہے جس نے یورپی صفوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے برسوں سے واضح کر رکھا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل سے تعلقات ممکن نہیں۔ یہ موقف جزوی طور پر کامیاب ہوا ہے، کیونکہ اب اسرائیل پر سفارتی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ تاہم، حتمی کامیابی ابھی باقی ہے کیونکہ اسرائیل کی ضد اور مغربی طاقتوں کی مصلحت پسندی اس راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

وزیرِاعظم کے استعفے نے میکرون کے لیے اندرونی مشکلات ضرور پیدا کر دی ہیں۔ اپوزیشن اور اسرائیل نواز حلقے اس موقع کو استعمال کر کے میکرون کے فیصلے کو کمزور کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن دوسری جانب، میکرون اپنی خارجہ پالیسی کو سیاسی سرمایہ بنانے کی کوشش میں ہیں۔ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا نہ صرف اخلاقی فیصلہ ہے بلکہ انہیں یورپ کا قائد اور عالمی سیاست کا فعال کھلاڑی بھی بنا سکتا ہے۔

اگر میکرون ڈٹ گئے تو فرانس یورپ میں ایک نئی قیادت کا کردار ادا کرے گا اور مزید ممالک فلسطین کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔
اگر میکرون دباؤ کے آگے جھک گئے تو یہ فیصلہ محض ایک سیاسی نعرہ بن کر رہ جائے گا اور اسرائیل کو سفارتی برتری حاصل ہو گی۔
اگر یورپ متحد ہو گیا تو امریکہ اور برطانیہ پر دباؤ بڑھے گا اور اسرائیل عالمی سطح پر مزید تنہا ہو سکتا ہے۔
اگر عرب دنیا نے سخت مؤقف اپنایا تو اسرائیل کے ساتھ تعلقات مزید تاخیر کا شکار ہوں گے اور مغربی طاقتوں کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔

یہ مرحلہ صرف فرانس کے لیے نہیں بلکہ عالمی سیاست کے لیے ایک کڑا امتحان ہے۔ اب دنیا دیکھے گی کہ میکرون داخلی دباؤ اور خارجی مزاحمت کے باوجود تاریخ کا درست فیصلہ کر پاتے ہیں یا نہیں۔


کوئی تبصرے نہیں: