خو زدہ حکمران
انیس سو چوراسی کا واقعہ ہے۔ ایک مذہبی فرقے کے عمائدین اپنے گاؤں سے راولپنڈی میں اپنے بڑے فرقہ باز مولانا کے پاس پہنچے۔ انہوں نے مولانا کو بتایا کہ مخالف فرقے کے لوگ ان کی نو تعمیر شدہ مسجد پر قبضہ کرنے کی نیت رکھتے ہیں۔ مولانا نے ان کی بات تحمل سے سنی اور پوچھا: “تم لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہو؟”
آنے والوں نے کہا کہ ہمیں عملی مدد درکار ہے۔ ہمارے فرقے کے لوگ تعداد میں کم ہیں اور دوسرے زیادہ ہیں۔ اس لیے کچھ لوگ بھیجے جائیں جو ہماری مسجد میں درسِ قرآن منعقد کریں اور ڈنڈے سوٹوں کے ساتھ اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں، کیونکہ گاؤں کے لوگ اجتماع روکنے کی کوشش کریں گے اور جھگڑا ہونا لازمی ہے۔
مولانا نے ان کی بات سنی اور کہا: “ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اگر جھگڑا ہوا تو ہمارے لوگ تمہارے دفاع میں شامل ہوں گے اور ان کی تعداد تمہاری توقع سے بھی زیادہ ہوگی۔ لیکن بنیادی شرط یہ ہے کہ پہلا مقابلہ تم لوگ خود کرو گے۔ میرے آدمی تمہاری مدد کے لیے ہوں گے، مگر لڑائی کا بوجھ مقامی لوگوں کو ہی اٹھانا ہوگا۔”
یہ بات صرف ایک فرقے کی کہانی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا المیہ ہے۔ آج بھی اصل سوال یہی ہے: پہلا قدم کون اٹھائے گا؟
جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو اس کا دفاع خود ایرانیوں نے کیا۔ ان کے دوست اور اتحادی بھی مدد کو آئے، مگر عملی مزاحمت کا آغاز خود ایران نے کیا تھا۔ ایران نے محض بیانات پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عملی جواب دیا۔ اس کے برعکس لبنان اور شام کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں عملی جواب نہ دینے کی وجہ سے تباہی کے سائے گہرے سے گہرے ہوتے چلے گئے۔
فلسطینی تو نہتے ہیں، لیکن دنیا کی سیاست بدل کر رکھ دی۔ وجہ صرف ایک ہے — وہ کھڑے ہیں، اپنے دفاع میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ قطر کے سامنے بھی یہی سوال ہے کہ کیا صرف زبانی احتجاج کرنا ہے یا عملی قدم بھی اٹھانا ہے۔ قطر کا رقبہ، وسائل اور اسلحہ بہرحال فلسطینیوں سے بہتر ہے۔ لیکن مشکل فیصلہ یہی ہے کہ کیا قطر کھڑا ہوگا یا نہیں؟
تاریخ گواہ ہے کہ برا وقت آئے تو دوست ساتھ آ ہی جاتے ہیں۔ لیکن شرط یہی ہے کہ سب سے پہلے مقامی لوگ کھڑے ہوں۔ آج مسلمان حکمرانوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ خدا سے ڈرنے والے ہیں یا خدا سے نہ ڈرنے والے ظالموں سے خوفزدہ ہیں۔
فیصلہ بہرحال قطر نے خود کرنا ہے۔ لیکن کیا فیصلہ ہوگا؟ قارئین کرام اندازہ کر سکتے ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں