چین کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انقلاب کے بعد قومیں کس طرح مشکلات کا سامنا کر کے ترقی کی راہیں کھول سکتی ہیں۔ 1949 میں جب عوامی جمہوریہ چین وجود میں آیا تو یہ ملک غربت، بھوک اور پسماندگی میں گھرا ہوا تھا۔ آبادی کی اکثریت کسانوں پر مشتمل تھی جو جاگیردارانہ نظام کے ظلم کا شکار تھے، صنعت نہ ہونے کے برابر تھی اور تعلیم و صحت عام انسان کی پہنچ سے باہر تھیں۔ ابتدائی برسوں میں کمیونسٹ حکومت نے گریٹ لیپ فارورڈ اور کلچرل ریولوشن جیسے سخت تجربات کیے جن کے نتیجے میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد بھوک، غربت اور موت کا شکار ہوئے اور عوام کی حالت مزید بگڑ گئی۔
اصل تبدیلی اُس وقت آئی جب ماؤ کے بعد ڈینگ ژیاوپنگ نے قیادت سنبھالی اور یہ سوچ سامنے رکھی کہ بلی کالی ہو یا سفید، اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ وہ چوہے پکڑتی ہے۔ اس فلسفے کے تحت چین نے سخت کمیونسٹ معیشت کو ترک کر کے مارکیٹ اکنامی کے اصول اپنانے شروع کیے۔ کسانوں کو اپنی پیداوار بیچنے کی آزادی ملی، غیر ملکی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہا گیا، نئے صنعتی زون قائم کیے گئے اور تعلیم و سائنسی تحقیق پر سرمایہ کاری کی گئی۔
ان اصلاحات کے اثرات عوام کی زندگی میں نمایاں طور پر دکھائی دینے لگے۔ کروڑوں لوگ غربت کی لکیر سے اوپر آئے، شہروں میں روزگار کے مواقع بڑھے اور دیہات میں کسان خوشحال ہوئے۔ صحت اور تعلیم پر سرمایہ کاری نے شرح خواندگی اور اوسط عمر میں اضافہ کیا، خواتین کو تعلیم اور ملازمت کے بہتر مواقع ملے اور بنیادی ڈھانچے میں حیرت انگیز ترقی نے چین کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا۔
چند دہائیوں کے اندر چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے طور پر ابھرا اور تقریباً 80 کروڑ افراد کو غربت سے نکالنے کا کارنامہ سرانجام دیا جو انسانی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ آج چین جدید ٹیکنالوجی، خلائی پروگرام، ہائی اسپیڈ ٹرین اور ڈیجیٹل کرنسی جیسے شعبوں میں دنیا کی قیادت کر رہا ہے۔
تاہم یہ ترقی اپنی قیمت بھی رکھتی ہے۔ چین میں آج بھی سیاسی آزادی محدود ہے، کمیونسٹ پارٹی کا سخت کنٹرول قائم ہے اور اظہارِ رائے پر قدغن موجود ہے۔ اس کے باوجود اگر صرف معاشی اور سماجی حالات کو دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انقلاب کے بعد چین کی قیادت نے ایسی لچکدار پالیسیاں اپنائیں جنہوں نے عوامی زندگی کو حقیقی معنوں میں بہتر بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج چین کو دنیا کی سب سے بڑی کامیاب عوامی ترقی کی کہانی کہا جاتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں